بغیر علمی اور عملی بیداری کی ترقی پر فکرمند آر ڈی راول کی منفرد پہل
آج ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے اور ہم کافی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں- نئی نئی کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے- ہندوستانی نوجوان دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا ڈنکا بجا رہے ہیں، لیکن اتنا سب ہونے کے باوجود ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں جرم کا گراف کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے- کیا ترقی اور جرم کی مسابقت ہمیں طویل عرصے تک اسی تیزی سے آگے بڑھنےدیگی؟ --- یقیناً نہیں، ہمیں ملک کو آگے لے جانے کے لئے جرائم پر روک لگانی ہوگی ورنہ کچھ وقت کے بعد ترقی کی یہ رفتار جو آج پے وہ دھیمی پڑ جائے گی -
اب سوال یہ اٹھتا ہے کیا قانون ہی جرم کو روکنے کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے؟ کیا سخت قانون بنا کر ہم آس پاس ہو رہے مظالم اور غلط کاموں پر روک لگا سکتے ہیں؟ کیا سخت سزا کے خوف سے ہی مجرم جرم کرنا چھوڑ دیں گے؟ یہ کافی پیچیدہ سوال ہے کیونکہ اگر صرف سخت قانون ہی جرم روکنے کے لئے کافی ہوتے تو اب تک جرم کا خاتمہ ہو چکا ہوتا- آج یہ ایک حقیقت ہے کہ جرم کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں - جرم روکنے یا کم کرنے کا کسی کے پاس کوئی درست نسخہ نہیں ہے لیکن ہریانہ کے آ ر ڈي راول کا خیال ہے کہ قانون اپنی جگہ ہے اور سخت قانون ملک کی ضرورت بھی ہے لیکن اگر جرم میں کمی لانی ہے تو ہمیں لوگوں کو اچھے اعمال کے لئے حوصلہ افزائی کرنی ہی ہو گی - ان کے علم کے خزانے کو بڑھانا ہوگا ،انہیں آسان زبان میں سچ سے آگاہ کروانا ہوگا اور ان کے اندر شعور کی تخلیق کرنی ہوگی- اگر شخص بیدار ( concious)ہو گا، اس میں صحیح اور غلط کی تمیز ہوگی تو وہ خود بخود جرم کرنے سے بچے گا- آر ڈي راول مانتے ہیں کہ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو ملک دن دوگنا اور رات چوگنا ترقی کرے گا اور یہ ترقی مستقل ہوگی - ساتھ ہی ہمارا ملک دنیا کے لئے ایک مثال بنے گا- راول صاحب اپنی اس پہل کو گزشتہ کئی سالوں سے پورا کرنے کے لئے ' گیتا' کا سہارا لےکر لوگوں کو سچ کی راہ پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں-
کسی بھی ملک کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہاں کے شہری کے اندر اخلاقی قدریں ہوں وہ ہر مذہب، ہر ذات ہر شخص کا احترام کرے - آج کل دنگے فساد عام بات ہے۔ لوگ مذہب اور ذات کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں - اگر ایسے میں کوئی ملک ترقی کر بھی لے تو وہ زیادہ وقت تک ترقی کے اس مقام پر ٹکا نہیں رہ سکتا- لوگوں میں مقابلہ آرائی کا احساس تو ہو لیکن وہ باہمی جلن اور بغض کی شکل نہ لے لے- ہندوستان آج دنیا میں ایک بہت بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے- بہت سی غیر ملکی کمپنیاں یہاں پر آ رہی ہیں اور نوجوان اپنی کمپنیاں کھول رہے ہیں- ایسے میں ضروری ہے کہ نوجوانوں کے اندر اخلاقی قدریں بھی قائم رہیں -
راول صاحب مانتے ہیں کہ سارے مذہب عظیم ہیں اور ہر مذہب حق اور اچھے اعمال کی ہی تعلیم دیتے ہیں - لیکن انسان ان عظیم مذہبی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر صحیح عمل نہیں کرتا اور سچائی کے راستے سے بھٹک جاتا ہے- کچھ سال پہلے آرڈي راول نے سوچا کہ کیوں نہ وہ گیتا کے پیغام کو آج کی نئی نسل تک عام فہم زبان میں پہنچائیں جس سے معاشرے کا فائدہ ہو سکے- آرڈي راول کوئی عالم دین نہیں ہیں وہ صرف گیتا میں لکھے ہوئے پیغامات کو آسان زبان میں لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں- وہ بتاتے ہیں کہ آج نوجوانوں کے پاس وقت کی کمی ہے اور سب کو سنسکرت زبان کا علم بھی نہیں ہے- ایسے میں گیتا کو عام لوگوں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے اسے انتہائی سلیس زبان اور مختصر انداز میں بتایا جائے ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ اس کا مطلب واضح ہو جائے- اسی کڑی میں سن 2009 میں راول صاحب نے گیتا بھجناولی اور پھر 2014 میں مانسی گیتا لکھی- ان دونوں کتابوں سے وہ پیسہ نہیں کما تے، بلکہ انہیں مفت میں لوگوں میں تقسیم کر تے ہیں- آ رڈی راول جی نے معاشیات میں ایم اے (.A.M) کیا ہے - ملک کے اقتصادی حالات کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں- بطور چیف منیجر انہوں نے ایس بی آئی میں کام کیا اور سن 2005 میں وہ ریٹائر ہوئے، کام کے دوران ان کی کئی جگہ پوسٹنگ ہوئی اور انہوں نے کئی ریاستوں میں رہ رہے لوگوں کے بارے میں جانا- بچپن میں انہیں کسی نے بھگوت گیتا دی تھی جسے پڑھ کر وہ بہت متاثر ہوئے تھے انہوں نے تب ہی ٹھان لیا تھا کہ وہ گیتا کے علم کی تبلیغ کے لئے کام کریں گے اور اس کے پیغام کو ملک کی بہتری میں لگائیں گے۔
آ رڈي راول بتاتے ہیں کہ گیتا میں شری کرشن نے کافی عملی باتیں کہی ہیں جو ہر دور میں اتنی ہی معنی خیز ہے بس ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے گیتا اپنے آپ میں ہی مکمل ہے اور اگر اسے کوئی سمجھ لے تو وہ ایک اچھا انسان بن سکتا ہے اور خود کو ہی نہیں ملک کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور آ رڈي راول یہی کام کر رہے ہیں- بہت سارے مصنفوں نے بھی گیتا کی تشریح کی ہے لیکن راول جی نے اسے کافی کم الفاظ میں لکھا ہے اور بہت آسان کر دیا ہے تاکہ کوئی بھی نوجوان کبھی بھی اسے پڑھے تو سبق حاصل کر سکے ۔
مذہب کئی ہیں لیکن سب کا پیغام ایک ہی ہے- ہر مذہب میں آخر میں جیت سچائی اور انسانیت کی ہی بتائی گئی ہے- ہر مذہب امن کا پیغام دیتا ہے اور ہر مذہب میں باہمی میل جول کو ہی اہمیت دی گئی ہے- آپ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں اگر آپ اس کی ہدایتوں پر عمل کریں گے تو آپ ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں-
آ رڈی راول چونکہ معاشیات کے طالب علم رہے ہیں تو وہ جانتے ہیں کہ ملک کی ترقی میں کن کن چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے- ان کا ماننا ہے کہ ملک کی ترقی میں حکومت کی طرف سے بہترین پالیسیوں کی تو اہمیت ہے ہی لیکن لوگوں کو بھی اس کے لئے آگے آنا ہو گا – ہر شخص کو سارے مذہب کی عزت کرنی ہوگی افواہوں سے دور رہنا ہوگا اور سچائی کے راستے پر چلنا ہوگا-