پشمینہ مصنوعات کو دنیا بھر تک پہنچانے کا عزم...کشمیری نوجوان جنید شاہدار کا ای پورٹل 'پھمب ڈاٹ کو ڈاٹ ان'
پندرہ سو کاریگر بشمول چرخوں پر پشمینہ کاتنے والی خواتین اور ہینڈلومز پر شال بننے والے شالباف جڑ گئے ہیں کمپنی سے
اُس وقت کہ جب وادی کشمیر میں مشہور پشمینہ شال صنعت دن بہ دن روبہ زوال ہورہی ہے، اس سے وابستہ پانچ لاکھ سے زائد کاریگروں کی روزی روٹی خطرے میں پڑگئی ہے اور کشمیر کے سب سے بڑے مذہبی رہنما میرواعظِ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کو سری نگر کی تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں اپنے نماز جمعہ کے معمول کے خطبے میں اس مشہور صنعت سے وابستہ پانچ لاکھ کاریگروں کو اقتصادی بدحالی سے بچانے اور اسے مزید زوال پزیر ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح کی اعانت و مدد پر زور دینا پڑا، سری نگر کے شہر خاص کے رہنے والے پچیس سالہ نوجوان جنید شاہدار نے پشمینہ مصنوعات بشمول مشہور کشمیری شال کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے، اس کی اصلیت برقرار رکھنے اور اِن سب سے بڑھ کر اس صنعت سے وابستہ کاریگروں کی اقتصادی حالت سدھارنے کے لیے ایک انٹرایکٹو طریقہ کار اختیار کرلیا ہے۔
جنید پشمینہ صنعت سے متعلق کمپنی ’پھمب فیشنر پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں.۔ انہوں نے گذشتہ ہفتے پشمینہ مصنوعات کی آن لائن فروخت کے لیے ای کامرس پورٹل ’پھمب ڈاٹ کو ڈاٹ ان‘ کا آغاز کیا اور اُن کے مظابق’یہ پشمینہ سے بنے اشیاء کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا بہتر ، آسان اور کارگر طریقہ ہے۔‘
جنید کے علاوہ اُن کی والدہ پروینہ شاہدار بھی مذکورہ کمپنی کی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ پشمینہ اون کشمیر میں ’پھمب‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صوبائی کمشنر کشمیر ڈاکٹر حسن سامون نے گذشتہ ہفتے اس ای پورٹل کا افتتاح کرتے ہوئے جنید کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ پشمینہ مصنوعات کو عالمی سطح پر فروخت کرنے کے لیے اس طرح کے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا ’دستکاری صنعت کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں کی عملی شرکت لازمی ہے۔‘ جبکہ جنید نے کہا کہ ای پورٹل کو متعارف کرنے کا مقصد پشمینہ کے دو سو اقسام کو دنیا بھر میں متعارف کرنا ہے۔
جنید کو یہ ای پورٹل شروع کرنے میں ’دی سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ‘ کا تعاون اور رہنمائی پیش پیش رہی ہے۔ سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ کے اعجاز ایوب کا کہنا ہے کہ اس ای پورٹل کے ذریعے صرف جی آئی ٹیگ والے پشمینہ مصنوعات فروخت کیے جائیں گے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر گاہکوں کی حقیقی پشمینہ شالوں اور دیگر مصنوعات تک رسائی آسان بن گئی ہے۔
کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے ڈگری یافتہ جنید شاہدار کا کہنا ہے کہ پشمینہ صنعت کے ساتھ وابستگی اُن کی خاندانی میراث ہے، اور وہ اسی میراث کو آگے بڑھانے کی چاہ رکھتے ہیں۔ پشمینہ صنعت کی موجودہ صورتحال پر وہ کہتے ہیں۔ ’پشمینہ کی صنعت سے وابستہ کاریگروں کی مالی حالت انتہائی خراب ہے۔ کشمیر میں بہت سارے گھرانے ایسے ہیں جن کے گھر کا چولھا اسی کمائی سے جلتا ہے۔ لیکن انہیں جو محنتانہ آج سے ساٹھ برس قبل ملتا تھا، وہی آج بھی ملتا ہے۔‘
تاہم جنید کا کہنا ہے کہ اُن میں اُس وقت پشمینہ صنعت کے فروغ کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوگیا جب انہیں ایک کاریگر نے اس صنعت سے جڑی خواتین کی حالت زار سے واقف کرایا۔ کہتے ہیں ’کچھ وقت قبل میرے پاس پشمینہ صنعت سے جڑا ایک کاریگر بیٹھا ہوا تھا، جنہوں نے میری توجہ اس صنعت سے جڑی خواتین کی توجہ مبذول کی۔ مذکورہ کاریگر نے بتایا کہ اِن خواتین کو جو محنتانہ دیا جاتا ہے وہ صفر کے برابر ہے۔ میرا پشمینہ صنعت کے ساتھ جڑ جانے کا سب سے بڑا مقصد ہی اس صنعت سے جڑی خواتین کی مالی حالت سدھارنا ہے۔ ہم نے اس سمت میں پہلا قدم اٹھایا ہے جس کے تحت ہم انہیں پشمینہ اون مفت فراہم کررہے ہیں، اور انشااللہ آگے چل کر ہماری سب سے بڑی ترجیح اِن کے محنتانہ میں اضافہ کرنا ہے۔‘
جنید نے کہا کہ چرخوں پر پشمینہ کاتنے والی خواتین کو دس گرام پشمینہ اون قریب اسی روپے میں خریدنا پڑتا تھا ،جسے کاتنے میں انہیں کم از کم تین دن لگ جاتے ہیں اور محض بیس روپے سے پچاس روپے تک کا محنتانہ حاصل ہوجاتا تھا۔
’ہم نے ایسا کیا کہ انہیں پشمینہ اون مفت فراہم کرنا شروع کردیا۔ فی الوقت ہم سری نگر کے مضافاعی علاقہ کھنمو میں پشمینہ کاتنے والی خواتین کو پشمینہ فراہم کررہے ہیں۔ ہم انہیں پشمینہ جی آئی ٹیسٹ کرنے کے بعد فراہم کرتے ہیں اور واپسی پر بھی جی آئی ٹیسٹ کرتے ہیں جس کا مقصد ملاوٹ سے بچنا ہوتا ہے۔‘
اس نوجوان تاجر کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الوقت وہ پشمینہ کاتنے والی خواتین کو صرف پھمب مفت میں فراہم کرتے ہیں، مگر اُن کا اصل مقصد یہ ہے کہ اِن محنت کش خواتین کا محنتانہ دوگنا ہو۔ ایک پشمینہ شال کی تیاری سے متعلق انہوں نے سرسری طور پر بتایا ’جو پشمینہ ہم کتائی کے لئے مقامی خواتین کو فراہم کرتے ہیں، وہ لداخ سے حاصل کرتے ہیں۔ کتائی شدہ پشمینہ کو بعد میں بُنکر (شالباف) ہینڈلومز پر چڑھا کر شال بنتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کپڑے کی شکل میں ہمارے پاس واپس آجاتا ہے، اور بعد میں ہم اس کپڑے پر سوئی کے ذریعے مختلف ڈیزائن بنوانے کے لئے متعلقہ کاریگروں پر واپس بھیجتے ہیں، جو شال کی تیاری کا آخری سخت مرحلہ ہوتا ہے۔‘
پشمینہ شال کی تیاری سے متعلق اُن کا کہنا ہے ’ایک شال کو بننے میں قریب دو سو گرام کتائی شدہ پشمینہ لگتا ہے اور یہ دو سو گرام پشمینہ ایک عورت کی دو ماہ کی محنت کے بعد ہینڈلوم پر بننے کے لیے چڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی طویل عمل ہوتا ہے۔‘
’اب ہمیں یہ مال (پشمینہ مصنوعات) فروخت کرنا تھا۔ ہم نے سوچا کہ اگر ہم کسی جگہ دکان کھولیں گے، تو وہاں تسلی بخش تعداد میں گاہک ہم سے رجوع نہیں ہوں گے۔ ہم نے اِن پشمینہ مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے ویب پورٹل پھمب ڈاٹ کو ڈاٹ ان کا آغاز کیا۔ ہمارا ماننا ہے کہ پشمینہ مصنوعات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کا بہتر ، آسان اور کارگر راستہ یہی ایک ہے۔‘
جنید کا کہنا ہے کہ پشمینہ اون جس کو کشمیر میں ’پھمب‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سے بننے والے مصنوعات کا وہ ’پھمب‘ کے نام سے ہی ایک برینڈ بنائیں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پشمینہ شالوں کی آن لائن فروخت سے نہ صرف اس صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ اس پیشے سے جڑے کاریگروں خاص طور پر پشمینہ کاتنے والی خواتین کو یقینی طور پر فائدہ ملے گا۔ ’پھمب ڈاٹ کو ڈاٹ ان کے ذریعے ہم صرف پشمینہ مصنوعات بشمول شال و سٹول فروخت کریں گے۔‘ تاہم جنید کا کہنا ہے کہ کشمیر میں پشمینہ سے صرف شال اور سٹول بنانے کی روایت چلی آئی ہے اور وہ اس سے آگے بڑھنے اور پشمینہ کی نئی نئی چیزیں متعارف کرنے کی کوشش کریں گے۔
جنید کے مطابق فی الوقت بارہ سو سے پندرہ سو کاریگر بشمول چرخوں پر پشمینہ کاتنے والی خواتین اور ہینڈلومز پر شال بننے والے شالباف اُن کی کمپنی سے جڑے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ’جب ہم نے خواتین کو مفت پھمب دینا شروع کردیا، تو انہوں نے بدلے میں ہمیں ڈھیر ساری دعائیں دیں جن کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ آگے چلکر بہت ساری کامیابیاں ہمارے نصیب میں ہیں۔‘
ای پورٹل کی کامیابی کے بارے میں جنید نے بتایا ’ہم نے ای پورٹل شروع کرنے کے پہلے چار دنوں کے دوران ہی ملک کے مختلف حصوں سے قریب پندرہ آڈرس موصول کیے۔ اگرچہ ہمیں بیرون ملک سے تاحال کوئی آڈر موصول نہیں ہوا، تاہم ہمارا مارکیٹنگ شعبہ بیرون ممالک کے لوگوں تک پہنچنے کی سمت میں کام کررہا ہے اور امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمیں بیرون ممالک سے بھی آڈرس موصول ہونے لگیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر گاہکوں کو ہمارے ویب پورٹل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اب ہم نے گوگل کے ساتھ بات کی ہے۔‘
جنید نے اپنے مستقبل کے ارادوں اور منصوبوں کے بارے میں بتایا ’آگے چل کر ملک کے مختلف شہروں اور کشمیر میں مختلف مقامات پر اسٹور کھولنے کا ہمارا ارادہ ہے، مگر فی الوقت ہماری تمام تر توجہ آن لائن مارکیٹ پر ہے۔ ہم پھمپ کو ایک بہت بڑا ’برینڈ نیم‘ بنانا چاہیے ہیں، جس کی سمت کوششوں کا کامیاب آغاز ہوچکا ہے۔‘
کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج (FACEBOOK ) پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
'دی سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ' تجارت کے خواہاں کشمیری نوجوانوں کی رہنمائی میں مشغول