ناکامی میں ہی کامیا بی کا راز :فلم اداکار عرفان خاں
ہندی فلمی صنعت میں عرفان خاں کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ بالی ووڈ میں 'لائف آف پائی، لنچ باکس، پان سنگھ تومر اور دیگر فلموں کے علاوہ عرفان خاں نے ہالی ووڈ میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ حال ہی میں جوراسک ورلڈ اور آنے والی 'انفرنو' جیسی بڑی فلموں میں انہیں اپنی ادا کاری کے جوہر دکھانے کا موقع حاصل ملا ہے۔ عرفان اپنے مداحوں اور فلمی شائقین کو نہ صرف فہم و فراست بلکہ جِذباتی سطح پر بھی جوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لنچ باکس میں عرفان کی تنہائی کو آپ نے محسوس کیا جب ہر بار لنچ باکس آتے ہی ان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ صرف اس لئے نہیں کہ اس میں گھر کی بنی ہوئی روٹیاں ہیں بلکہ اس لئے ایک متوسط گھرہست خاتوں اس کے ذریعہ اپنی زندگی کے معنی اور مقصد تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے یا فلم 'لائف آف میٹر' میں عرفان کی صاف گوئی سے آپ خوفزدہ ہیں لیکن اس کیلئے آپ کے دل میں مدد اور ہمدردی کا جذبہ ہوتاہے ۔دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ سے گرائجویشن کی تکمیل کے فوری بعد عرفان کے فلمی کیر ئیر کی شروعات ہوئی ۔شائقین میں اپنا امیج بنانے کیلئے بہتر کاسٹ کے حصول میں ناکامی سے وہ مسلسل پریشان رہے۔
حال ہی میں ممبئی کے inktalks میں قابل افراد سے بھرے کمرے میں عرفان نے بتا یا کہ 1990میں جب انہو ں نے اپنے کیر ئیر کا آغاز کیا تھا تو لوگوں نے انہیں اچھا اداکار توتصور کیا لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ وہ مسلسل ایسی اچھی فلمیں نہیں کررہے ہیں جس کے ذریعہ وہ شائقین کے دلوں میں گھر کر جائیں۔ انہیں یہ فکر تھی کہ شائقین ان کی اسٹوری اور کردار کو ذہنوں میں اپنے ساتھ لیکر نہیں جا رہے ہیں لیکن جب انہوں نے اپنے طرز کی کہانیاں سنانی شروع کیں تو وہ مختلف تھیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوا جب ان میں اپنے کرداروں میں اس کو پیش کرنے کا حوصلہ و اعتماد پیدا ہوا۔ اس طری ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جہاں وہ جذباتی طور پر شائقین تک رسائی حاصل کرسکے۔ خاندان کی مخالفت اور غیر حوصلہ مند کرداروں کے باوجود تھیٹر اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ عرفان نے اپنی اداکاری کو جاری رکھا۔2001میں' دی وارئیر' کی ریلیز تک بھی عرفان خاں کی فلموں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
یور اسٹوری ڈاٹ کام سے بات چیت میں عرفان نے بتا یا کہ ایک مرحلہ پر انہوں نے تکنیکی مہارت حاصل کی جیسے ائیر کنڈیشنرکو کس طرح درست کیا جاسکتا ہے۔ اس امید کے ساتھ ایک عرصہ تک یہ کام بھی کرتے رہے کہ وہ بیرون ملک جائیں گے اور پیسہ کمائیں گے لیکن کچھ ہی عرصہ میں وہ اس کام سے بیزار ہوگئے اور اپنے اس خواب کو ادھورا ہی چھوڑدیا۔ 52سالہ عرفان خاں کیلئے بیشک یہ لمبا سفر ہے لیکن وہ اپنی ماضی کی کوششوں اور جستجو پر نظر ڈال کر یہ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کی ابتدائی ناکامی کا ان کی موجودہ کامیابی میں بڑا عمل دخل ہے۔ فلمی دنیا میں ناکامی، جوش وجذبہ اور خود کی تلاش و پہچان جیسے تین اہم امور سے متعلق بات چیت کیلئے منعقدہ کانفرنس کے موقع پر یور اسٹوری ڈاٹ کام نے عرفان خاں سے گفتگو کی۔
عرفان کااحساس ہے کہ یقینی طور پر کامیابی کی بنیاد ابتدائی دور کی محنت اور مشقت ہی ہے۔ عرفان سے جب پوچھا گیا کہ کیا ناکامی بہتر استاد ہے تو ان کا جواب تھا کہ ناکامی بہت کچھ سکھاتی ہے جس کے ذریعہ آپ اس سے بہت آگے جاسکتے ہیں ۔ناکامی میں ہمیشہ ایک درس ایک سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔ عرفان نے بتا یا کہ پہلی ناکامی جس کا انہوں نے سامنا کیا وہ ڈرامہ اسکول کے بعد انہیں ملا پہلا بریک تھا ۔ میرا نائر کی فلم ’ سلام بمبئی ‘ میں انہیں مرکزی کردار کی پیش کش کی گئی ۔ دو ماہ تک ایک ورکشاپ کیا گیا اور جب فلم کی شوٹنگ شروع ہونے والی تھی اس وقت ان سے کہا گیا کہ وہ اس فلم میں مرکزی کردار ادا نہیں کریں گے ۔اس پر وہ بچے کی روئے۔ اس وقت کے 21سالہ نوجوان کی بڑی بڑی اور بھوری آنکھوں سے اس درد کا اظہار ہورہا تھا جس نے ابھی ابھی ڈرامہ اسکول سے گرائجویشن کی تکمیل کی تھی اور کالج سے نکلتے ہی سیدھی ایک باوقار اور بڑے پراجکٹ کے حصول پر وہ خود کو قابل فخر محسوس کررہا تھا۔
عرفان کا کہنا ہے کہ وہ ڈرامہ اسکول میں اس بات لیکر پریشان رہتے تھے کہ گرائجویشن کی تکمیل کے بعد کیا ہوگا ؟کیونک کوئی سکیوریٹی نہیں ہے ۔ میس ہے، ہاسٹل ہے اور اس کیلئے حکومت کی جانب سے رقم ادا کی جارہی ہے ۔ہمیں صرف اسٹیڈی کرنا ہے اور اپنے اپنی صلاحیتوں کیلئے تیاری و سرمایہ کاری کرنی ہے ۔عرفان کا کہنا ہے کہ جس وقت انہیں فلم کی پیش کش کی گئی اس وقت انہیں بہت خوشی ہوئی کیونکہ ڈرامہ اسکول کے فوری بعد انہیں ایک بڑی فلم حاصل ہوگئی تھی لیکن جب یہ پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہورہا ہے تو وہ بچے کی طرح روئے۔فلم کی رائٹر سونی تارا پور والا نے انہیں یہ کہتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کہ ان کی فوٹوگرافی کی کتاب بھی آخری لمحات میں منسوخ کردی گئی تھی۔ ان تجربات سے تمہیں سیکھنے کی ضرورت ہے ۔تب عرفان خاں کو احساس ہوا کہ زندگی انہیں فلمی صنعت اور اس شعبہ کی نوعیت کے اعتبار سے تیار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ سبق دینے کی کوشش کررہی ہے کہ اس پیشہ میں کچھ بھی یقینی نہیں ہے اور انہیں اسی اعتبار سے خود کو تیار کرنا ہے ۔
عرفان نے بتا یا کہ اس سے پہلے جب انہیں فلم کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اس کے اطراف کئی خواب اور سلسلے باندھ لئے تھے۔ لیکن زندگی نے یہ سبق دیا کہ کسی بھی چیز کو آسان مت لو۔ عرفان کا کہنا ہے کہ جو ش و جذبہ اور جستجو ہی زندگی ہے۔ انہوں نے کئی چیزیں کرنے کی کوشش کی اور کم عمری میں ہی خود کفیل اور محفوظ ہونا چاہتے تھے۔ اسی لئے تکنیکی مہارت حاصل کی اور ائیر کنڈیشنر کی مرمت کر نا سیکھا۔ لیکن جلد ہی اس کام سے بور اور بیزار ہوگئے۔ عرفان کا ایقان ہے کہ جب تک اپنے کام میں آپ کی دلچسپی نہیں ہوگی آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ جھاڑو مارنا ہی کیون نہ ہو اگر اس میں دلچسپی ہوگی تب ہی آپ کوئی غیر معمولی کام انجام دے سکتے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے اپنی دلچسپی پر توجہ دینی چاہئے تب ہی اس کے ذریعہ دولت بھی حاصل ہوگئی اور وہ اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔عرفان کا کہنا ہے کہ اس کیلئے وقت درکار ہوگا لیکن آپ کی زندگی آسان ہوجائے گی ۔آپ اگر وہی کررہے ہیں جس میں آپ کی دلچسپی ہے تو ٹھیک ہے لیکن اپنی سکیوریٹی کیلئے کچھ کررہے ہیں تو آپ بھاری رقم اور دولت تو کماسکتے ہیں لیکن زندگی کا لطف ہرگز حاصل نہیں ہوگا ۔اگر آپ پورے جوِش وجذبہ کے ساتھ اپنی دلچسپی کے کام میں منہمک ہوجائیں تو خود کو دوبارہ کھوجنے یا اپنے مقصداور محور کو پانے کا عمل خود بخود حاصل ہوجائے گا ۔
عرفان کا کہنا ہے کہ اختراعیت کے ذریعہ آپ کو نئے نظریات حاصل ہونگے۔ یہ ایک نامیاتی عمل ہوگا ۔ نئے نظریات کو آپ پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔قبل ازیں inkاسٹیج پر عرفان خاں نے کاربٹ نیشنل پارک کے جنگلات میں شیر کے ساتھ اپنی مٹھبھیڑ کو یاد کیا ۔یہ وہ پارک ہے جہاں عرفان امن وسکون کی تلاش میں گئے تھے اور چند ہی قدم کے فاصلہ پر شیر سے آمنا سامنا ہوگیا تھا۔ عرفان نے پر جوش سامعین کو بتا یا کہ اس واقعہ کے چند گھنٹوں تک ان کے چہرے منجمد اور گھٹنے رقیق ہوگئے تھے۔ عرفان خاں جیسے اداکار کیلئے یہ جذبات سنہرے ہیں اور شائد ذہن میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے اس وقت تک جب وہ آئندہ کیمرے کا سامنا کریں گے۔