'دی سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ' تجارت کے خواہاں کشمیری نوجوانوں کی رہنمائی میں مشغول
ماضی میں شاہراہ ابریشم (سلک روٹ)جو مشرق کو مغرب سے ملانے کا واحد زمینی راستہ تھی، وادی کشمیر کی اقتصادیات کے لئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ اس تاریخی شاہراہ کی چند ذیلی شاہراہیں گلگت اور پاکستان زیر انتظام کشمیر سے ہوتے ہوئے سری نگر میں داخل ہوتی تھیں جن کی بدولت کشمیری مصنوعات پاکستان سے لیکر روس اور دیگر درجنوں ممالک میں پہنچا کرتی تھیں۔ اگرچہ کشمیر کی اقتصادی شہ رگ کی حیثیت رکھنے والی یہ شاہراہ اب ایک طویل عرصے سے بند پڑی ہے جس کی بحالی سے متعلق باتیں اب صرف سمیناروں اور کانفرنسوں میں ہوتی ہیں ،مگر سری نگر میں ایم بی اے کی ڈگری یافتہ دو پرعزم نوجوان اعجاز ایوب اور سمیر گوجواری نے شاہراہ ابریشم سے جڑے جذبات کو بروئے کار لاکر کشمیر کی اقتصادی شناخت کو بحال کرنے کی ٹھان لی ہے۔ دونوں نوجوانوں نے بیرون ریاستوں کی پرتعیش زندگی اور منافع بخش نوکریاں چھوڑ کر وادی میں شاہراہ ابریشم کے نام سے منسوب کنسلٹنسی 'دی سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ'قائم کرکے کاروباری زندگی میں داخل ہونے کی چاہ رکھنے والے نوجوانوں کی رہنمائی کرنا شروع کردیا ہے۔
اعجاز ایوب کہتے ہیں 'کنسلٹنسی قائم کرنے کا خیال ہمارے ذہن میں قریب دو سال پہلے آیا۔ ہمارے کچھ دوست بیرون ریاستوں سے پڑھ کر واپس کشمیر آئے تھے ، انہیں اپنی ذاتی تجارت شروع کرنا تھا۔ انہیں اس کے لئے بہت زیادہ دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ رجسٹریشن کہاں پر ہوتا ہے، بینک اکاؤنٹ کیسے کھلتا ہے، ٹِن نمبر کیسے حاصل کیا جاتا ہے، تجارت کے لئے جگہ کا انتخاب کرنا ہے، بزنس پلان ترتیب دینا ہے۔ نئی تجارت کو شروع کرنے سے قبل بہت سارے دفاتر سے رجوع ہونا پڑتا ہے۔یہ سب سمجھنے میں قریب چھ ماہ سے ایک سال تک کا وقت لگا، تو ہمیں لگا کہ اپنی ذاتی تجارت شروع کرنے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ اُن کے لئے ایک سنگل اسٹاپ سلوشن کی ضرورت ہے، جہاں انہیں کم از کم نئی تجارت کو شروع کرنے کے لئے درکار معلومات فراہم رہے۔ ہم نے پہل کرکے ان کی رہنمائی کے لئے کنسلٹنسی قائم کی جو بتدریج کامیابی کی منازل طے کررہی ہے۔'
اپنی کنسلٹنسی کا نام 'دی سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ' رکھنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''ماضی میں کشمیر کے سینٹرل ایشیاء کے ساتھ جو بھی تجارتی روابط تھے وہ ایک روٹ سے منسلک تھے، جس کا نام سلک روٹ یا شاہراہ ابریشم ہے۔ سینٹرل ایشیاء سے کشمیر درآمد ہونے والی ہر ایک چیز اسی راستے سے یہاں پہنچا کرتی تھی جبکہ کشمیر سے بیرون دنیا برآمد ہونے والی ہر ایک اشیاء کی سپلائی کا بھی یہی ایک راستہ تھا۔ کشمیر پہلے سے ہی سرکاری نوکریوں پر منحصر نہیں تھا۔ ہماری ذراعت، باغبانی اور دستکاری شعبے انتہائی فروغ پذیر تھے جس کی بدولت ہم ہر اعتبار سے خود کفیل تھے۔ ہمارے یہاں تسلی بخش رفتار سے صنعتیں قائم ہورہی تھیں۔ ہماری سلک بہت ہی مشہور تھی۔ ہمارے یہاں ہر ایک اشیاء کی تجارت کا راستہ سلک روٹ ہی تھا۔ ایران، پاکستان، تاجکستان، یہاں تک کہ روس کے ساتھ ہمارے تجارتی روابط تھے۔ معیشت کے لحاظ سے یہ روٹ ہماری لائف لائن تھی۔ ہمیں لگا کہ اگر ہمیں پھر سے اپنا بزنس پروفائل اجاگر کرنا ہے تو ہمیں وہ سلک روٹ کنکشن ذہن میں رکھنا ہوگا اور یہی ایک وجہ ہے کہ ہم نے اپنی کنسلٹنسی کو سلک روٹ یا شاہراہ ابریشم کے نام سے منسوب کیا۔'
سری نگر کے رہنے والے 30 سالہ اعجاز ایوب اور اُن کے ساتھی 29 سالہ سمیر گوجواری 'ایم بی اے ڈگری یافتگان ہیں' اور دونوں نے اپنی کنسلٹنسی کے قیام سے قبل کئی مشہور نجی کمپنیوں میں کام کیا ہے۔ اعجاز کے مطابق وہ خود ' کمپیوٹر بنانے والی مشہور کمپنیوں ایچ پی، وپرو اور ڈیل کے ساتھ کام کرچکے ہیں' جبکہ اُن کا ساتھی سمیر ممبئی میں پانچ سال تک ایک بینک کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے 'ہمارا سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ قائم کرنے کا مقصد وادی میں اقتصادی تبدیلی لانا ہے۔ ہم نوجوانوں کے لئے ورکشاپ اور کانفرنس کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شرکت کے لئے انہیں کوئی رجسٹریشن فیس نہیں دینا پڑتی ہے۔ ہمارا خالص مقصد کشمیری نوجوانوں کی مدد کرنا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر تب بہت زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے، جب مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میری وجہ سے کسی نوجوان کا بزنس کھڑا ہوا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ کسی انسان کو کوئی چیز دینے سے جتنا سکون ملتا ہے، اتنا کوئی چیز لینے سے نہیں ملتا ہے۔ میرا دوست سمیر اس لحاظ سے میرا ہم خیال ہے۔'
تاہم اعجاز کا کہنا ہے کہ اگرچہ نوجوانوں کی مدد کرکے وہ فی الوقت رفاہی کام انجام دے رہے ہیں، لیکن اُن کی کنسلٹنسی بھی ایک 'اسٹارپ اپ' ہے جو مستقبل میں مالی طور پر ایک مستحکم ادارے کی شکل اختیار کرے گا۔ اعجاز کہتے ہیں 'اگرچہ نوجوانوں کی مدد کرکے فی الوقت ہم رفاہی کام انجام دے رہے ہیں مگر ہمارے دماغ میں ہے کہ ایک دن سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ مختلف کاروباری اداروں کو کنسلٹنگ سروسز فراہم کرے گا، اس طرح سے ہماری کنسلٹنسی بھی ایک طرح کا اسٹارٹ اپ ہے۔ اگرچہ فی الوقت ہمارا شروعاتی مرحلہ ہے مگر ہمارے اس بزنس ماڈل کی بھی آگے چل کر کمائی ہونے والی ہے۔'
اعجاز کہتے ہیں 'بیرون ریاست زندگی کے کچھ برس گذارنے کے بعد ہم نے سوچا کہ کیوں نہ کشمیری نوجوانوں کو تجارتی مہم جوئی کے بارے میں بتایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ آپ اپنے ذاتی تجارت کو کیسے شروع کرے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے 2007 ء میں کشمیر یونیورسٹی سے ایم بی اے مکمل کیاتو یہاں لفظ تجات سے مراد اپنی دکان کھولنا تھا۔ دکانداری ایک ایسی چیز تھی جو نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرتی تھی۔ نوجوانوں کو کارپوریٹ سیکٹر میں نوکریاں اور تنخواہ اپنی طرف متوجہ کرتی تھی۔ نوجوانوں کو تجارت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہمیں پول بنانا پڑا اور پول بنانے کے لئے کامیابی کی کہانیوں کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے ہم نے یہ کام کیا کہ ہم نے چھوٹے چھوٹے تجارتی اشخاص جنہوں نے مارکیٹ میں اپنی شناخت اور ساکھ قائم کی تھی، کی فہرست بنائی اور ان سے بات کی۔ اس کے بعد ہم نے ایک ویب سائٹ دی سلک روٹ گروپ ڈاٹ کام شروع کی۔ ہم نے جموں وکشمیر بینک، ای ڈی آئی اور دوسرے اداروں کے ساتھ رابطہ کیا۔ متبادل ہفتہ اور اتواروں کو ہم نے ورکشاپوں اور سمیناروں کا اہتمام کرنا شروع کردیا۔'
اعجاز کا کہنا ہے کہ ورکشاپوں اور سمیناروں کے اہتمام سے بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اب تک اُن کی کنسلٹنسی کی وجہ سے آٹھ کاروباری ادارے قائم ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں 'آج تک تقریباً 150 سے زائد نوجوانوں نے ہمارے ورکشاپوں اور کانفرنسوں میں شرکت کی اور ہماری کنسلٹنسی کے ساتھ اپنے ناموں کا اندراج کیا۔ تاحال ہماری وجہ سے آٹھ کاروباری ادارے قائم ہوئے ہیں اور اگلے ہفتے مزید تین کاروبارے ادارے قائم ہونے جارہے ہیں۔ اور جن 150 نوجوانوں نے ہمارے ورکشاپوں اور کانفرنسوں میں شرکت کی، وہ مسلسل ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور اپنے ذاتی کاروباری ادارے قائم کرنے کے لئے ضروری لوازمات کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ جہاں جہاں انہیں مدد کی ضرورت پڑتی ہے، ہم انہیں متعلقہ افراد سے ملانے کا کام کرتے ہیں۔'
اعجاز اور سمیر نے پہلا ورکشاپ وادی کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے سیاحتی شعبے پر کیا ہے۔ کہتے ہیں 'ہم نے اپنا پہلا ورکشاپ سیاحتی شعبے پر کیا۔ ہم نے فیس بک ، اپنی ویب سائٹ اور دیگر ذرائع کے ذریعے اعلان کیا کہ جس جس کو سیاحت کے شعبے میں اپنا تجارت شروع کرنا ہے وہ اس ورکشاپ میں شرکت کرے۔ نوجوانوں نے ہماری ویب سائٹ پر رجسٹر کیا اور ورکشاپ میں بھی شرکت کے لئے آگئے۔ ہم نے مذکورہ ورکشاپ میں سیاحت کے شعبے میں منجھے ہوئے کامیاب تاجروں کو بھی بلایا تھا، ہر ایک نے سیاحت کے شعبے میں موجود کاروباری مواقعوں پر روشنی ڈالی اور اپنے تجربوں کو ورکشاپ کے شرکاء کے سامنے رکھا۔ اس ورکشاف کی وجہ سے سیاحتی شعبے میں اپنی تجارت شروع کرنے والے نوجوانوں کو نہ صرف تحریک و ترغیب ملی بلکہ انہیں کیسے اور کس طرح اپنی تجارت شروع کرنی ہے کی ہدایات بھی ملیں۔'
اعجاز اپنی کنسلٹنسی کے کام کاج کے بارے میں بتاتے ہیں 'جب کوئی نوجوان ہم سے رجوع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے بعدہمارا پاس بینک سے ایک اہلکار آتا ہے جو اسے کریڈٹ سہولیات کے بارے میں بتایا ہے۔ پھر ایک اہلکار ای ڈی آئی سے آتا ہے جو مختلف تجارتوں کے لئے موجود گورنمنٹ سبسڈیز کے بارے میں بتاتا ہے۔ اسی طرح الگ الگ لوگ کاروباری منصوبہ تیار کرنے، قانونی پہلوؤں اور ڈیجیٹل پہلوؤں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ الغرض نوجوانوں کو اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے لئے ہم انہیں ہر ایک ضروری سہولیت فراہم کرتے ہیں۔'
اعجاز اور اُن کے ساتھی سمیر زیادہ سے زیادہ نوجوانوں تک پہنچنے کے لئے ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور اخبارات کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اعجاز کا کہنا ہے 'ہم نے کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ساتھ رابطہ قائم کیا جنہوں نے ہمارے ورکشاپوں کی روداد کو اپنے تجارتی صفحوں میں شائع کرنا شروع کردیا جس سے نہ صرف ان ورکشاپوں میں مدعو کئے گئے کاروباری اشخاص بلکہ کاروباری دنیا میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پھر یونیورسٹیوں اور بزنس اسکولوں میں کچھ ورکشاپوں کا اہتمام کیا۔ اب تک تقریباً ڈیڑھ درجن ورکشاپوں کا اہتمام کیا ہے۔'
دونوں نے کشمیری نوجوانوں کو باہر کی دنیا سے جوڑنے کا 'ای مینٹرنگ' کی صورت میں ایک ہتھیار دریافت کیا ہے جس کی بدولت اپنا کاروبار شروع کرنے کی چاہ رکھنے والے نوجوان عالمی سطح کے کاروباری ماہرین سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ اعجاز ایوب کہتے ہیں'عالمی سطح کے بزنس کا منظر نامہ بہت ہی تبدیل ہوا ہے۔ اگر دہلی، بنگلور ، حیدرآباد یا دیگر میٹروپولیٹن شہروں کی طرف نظر دوڑائی جائے تو وہاں ٹیکنالوجی سے چلنے والے کاروبار جیسے اولا، فلپ کارٹ چلتے ہیں۔ ہمارے یہاں کاروبار کا پروفائل فی الوقت اُس سطح تک نہیں جاپہنچا ہے۔ ہم نے سوچا کہ اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے کی چاہ رکھنے والے نوجوانوں کو ہم باہر کی دنیا سے کیسے جوڑے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم عالمی سطح کے کاروباری ماہرین کو یہاں مدعو نہیں کرپائے۔ ہم نے اسکائپ اور گوگل ہینگ آوٹ کا استعمال کرکے نوجوانوں کی مختلف آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کے فیکلٹی ممبران، بزنس اخبارات، رسائل اور آن لائن پورٹلز کے ایڈیٹرزاور دیگر ماہرین کے ساتھ بات کرائی۔ انہوں نے ان نوجوانوں کو فنڈنگ، وینچر کیپٹل، کراؤڈ فنڈنگ اور دیگر امور کے بارے میں بتایا جس کی وجہ سے انہیں معلوم ہوا کہ بزنس کرنے کا طریقہ کتنا تبدیل ہوا ہے۔'
اعجاز کا کہنا ہے کہ کنسلٹنسی نے مختلف تجارتوں سے جڑے تاجروں اور ماہرین کا ایک نیٹ ورک قائم کرلیا ہے جس سے کاروباری زندگی میں داخل ہونے کے خواہش مند نوجوانوں کی مدد کرناہمارے لئے ایک بہت ہی آسان کام بن گیا ہے۔ کہتے ہیں 'اگر ہمارے پاس کوئی نوجوان یہ خواہش لیکر آتا ہے کہ مجھے کولڈ اسٹوریج یونٹ قائم کرنا ہے تو ہمیں اسے اُس کاروباری شخص سے ملاتے ہیں جو کولڈ اسٹوریج یونٹ چلاتا ہے۔ ایک ہی شخص کے پاس ہر طرح کی معلومات نہیں ہوتی ہیں، نیٹ ورکنگ کے ذریعے معلومات کا حصول بہت ہی آسان بن جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ نیٹ ورکنگ جتنی زیادہ مستحکم ہوگی نتائج کی شرح بھی اتنی ہی زیادہ برآمد ہوگی۔'
اعجاز اور سمیر مستقبل قریب میں کشمیر میں نئی نئی چیزیں متعاراف کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اعجاز کا کہنا ہے 'باہر کی ریاستوں میں انکیوبیشن سنٹرس ہوتے ہیں جہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کی چاہ رکھنے والے نوجوان دو سے تین مہینوں تک اپنے بزنس آئیڈیاز پر تجربہ کرتے ہیں جس دوران انہیں ہر ایک درکار سہولیت فراہم کی جاتی ہے اور مارکیٹ جیسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری ریاست کی دونوں دارالحکومتوں میں ایک بھی جگہ انکیوبیشن سنٹر نہیں ہے۔ سلک روٹ کنسلٹنسی اپنا ایک انکیوبیشن سنٹر قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جہاں نوجوان اپنے بزنس آئیڈیاز پر تجربہ کریں گے۔'
اعجاز کا کہنا ہے کہ آج کا جدید دور ٹیکنالوجی کا ہے، کشمیر میں پرانے طریقوں سے تجارت کی جارہی ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضروررت ہے۔ کہتے ہیں 'تجارت کرنے کا طریقہ کار بالکل بدل چکا ہے۔ عصر حاضر میں ہرایک تجارت کی ترقی کی کنجی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ ہے۔ میں ایک سادہ مثال دوں گا کہ پورے ہندوستان کی ایپل پروڈکشن میں ہمارا حصہ 70 فیصد سے زیاد ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری ریاست کی جی ڈی پی کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کولڈ اسٹوریج نہیں ہے۔ ہمیں مجبوراً اپنے سیب سستے داموں بلک میں فروخت کرنے پڑتے ہیں۔'
اعجاز ایوب کا کہنا ہے کہ کشمیر کے فطری ، قدرتی اور تاریخی راستے بند رہنے کی وجہ سے اس کی اقتصادی ترقی بری طرح سے متاثر ہورہی ہے۔ کہتے ہیں 'ہمارا اور دنیا کا واحد زمینی راستہ جواہر ٹنل ہے۔ یہ ہماری اقتصادی ترقی میں سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 1947 سے قبل متعدد راستے ایسے تھے جو ہمیں بیرونی دنیا سے جوڑتے تھے۔ مغل روڑ ماشاء اللہ کھل گیا۔ اسی طرح اگر دوسرے راستے بھی کھول دیے جائیں گے تو ہمارے یہاں ایک طرح کا اقتصادی انقلاب آئے گا۔ صرف جواہر ٹنل کے واحد راستے کی وجہ سے کشمیر ایک غار میں تبدیل ہوگیا ہے جس کا دورازہ جواہر ٹنل ہے۔ برف زیادہ پڑی یا بارش زیادہ ہوئی تو کشمیر کا بیرون دنیا سے رابطہ کئی دنوں تک منقطع ہوجاتا ہے۔ اگر کاروباری سرگرمیوں کے لئے کشمیر کے قدرتی راستے کھل جائیں گے تو ہماری ریاست اقتصادی لحاظ سے بہت ہی مستحکم بنے گی۔ قدرتی راستوں کے کھلنے سے ہم باآسانی چین، پاکستان، ایران، تاجکستان اور دیگر ممالک سے تجارتی روابط قائم کرسکتے ہیں۔ جواہر ٹنل کے راستے نے یہاں کے تاجروں کی سوچ ہی بند کردی ہے۔'
پرعزم اعجاز کا کہنا ہے کہ اگر کشمیر کو اپنے تجارتی پروفائل میں تبدیلی لانا ہے تو اسے گلوبل دکانیں کھولنی پڑیں گی اور کنزیومر معیشت بننے کے بجائے پروڈیوسر معیشت بننا ہوگا۔ 'کشمیر میں زیادہ تر ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ یہاں کے تاجر باہر کی ریاستوں سے اشیاء درآمد کرکے کچھ منافع کی شرح مقرر کرکے گاہکوں کو فروخت کرتے ہیں جو ٹریڈنگ کہلاتی ہے۔ اگر ہم تجارتی مہم جوئی کی بات کریں گے تو اس میں جدت طرازی اور تخلیق شامل ہوتی ہے، یعنی حل تخلیق کرکے دنیا کو پیش کرنا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہمیں اپنے تجارتی پروفائل میں تبدیلی لانی ہے تو ہمیں گلوبل دکانیں کھولنی پڑیں گی۔ گلوبل دکانوں سے مراد ای کامرس ہے۔ باہری دنیا کے پروڈکٹس حاصل کرنے کے بجائے ہمیں باہری دنیا میں اپنے پروڈکٹس بھیجنے ہوں گے۔ ہمیں پروڈیوسر معیشت بننا ہوگا نہ کہ کنزیومر معیشت ۔ اس کے لئے ہمیں اپنا برآمدی اور ای کامرس پروفائل بڑھانا ہوگا اور اپنی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔ ابھی اگر ہم دیکھیں گے تو ہمارے شال، قالین، بادام، زعفران وغیرہ دوسری ریاستوں اور دوسرے ممالک میں توقع سے بہت ہی کم فروخت ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوالٹی کنٹرول ہے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس اگر قالین کے دس کاریگر ہیں تو کوئی نہ کوئی ملاوٹ کرتا ہے جس کی وجہ سے باہر کی دنیا میں ہمارے تئیں جو اعتماد کا عنصر ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتاجارہا ہے۔ معیار کو برقرار رکھنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔'
سلک روٹ کنسلٹنگ گروپ کے اس نوجوان بانی کا کہنا ہے کہ کاروبار کا آغاز بینک سے کریڈٹ حاصل کرنے کے بجائے اکوئٹی سے کرنا چاہیے۔ کہتے ہیں۔ 'بزنس کریڈٹ سے نہیں ہوتا ہے۔ بزنس جب چل پڑتا ہے تب کریڈٹ لینا چاہیے۔ بزنس ہمیشہ اکوئٹی سے شروع ہوتا ہے۔ اکوائٹی مارکیٹوں تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ہندوستان میں متعدد ریاستوں کے پاس اپنے اسٹاک مارکیٹ ہیں، ہم خواب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا بھی ایک چھوٹا سا اسٹاک مارکیٹ ہونا چاہیے جہاں سے ہم اکوئٹی حاصل کرسکیں۔ بینک سے کریڈٹ حاصل کرنا ایک بہت ہی مہنگی چیز ہے۔'
اعجاز کا کہنا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال وادی کشمیر میں بے روزگاری ایک سنگین شکل اختیار کرچکی ہے جس کا حل صرف اور صرف نجی سیکٹر کی توسیع میں پنہاں ہے۔ 'اقتصادی سروے برائے مالی سال دوہزار گیارہ بارہ میں انکشاف ہوا ہے کہ ہمارے یہاں بے روزگاری کی شرح 5 اعشاریہ 3 فیصد تک جاپہنچی ہے اور ریاست بھر میں مختلف ایمپلائمنٹ اینڈ کونسلنگ سنٹروں میں 6 لاکھ سے زائد بے روزگار نوجوانوں نے اپنے ناموں کا اندراج کر رکھا ہے۔ ہمارے پاس روزگار کا واحد ذریعہ سرکاری نوکری سمجھا جاتا ہے۔ کتنے لوگوں کو آپ سرکاری نوکری دیں گے، پہلے سے ہی ہمارے پاس پانچ لاکھ سرکاری ملازم ہیں۔ حکومت ایک سال میں زیادہ سے زیادہ 50 ہزار لوگوں کو نوکری دے سکتی ہے جبکہ ہر سال ہمارے دو سے تین لاکھ نوجوان گریجویشن، پوسٹ گریجویشن اور دوسری ڈگریاں و ڈپلو کرکے تعلیمی اداروں سے فارغ ہوتے ہیں۔ یہ فارغین یا تو یہیںنجی سیکٹر کے ساتھ جڑ جاتے ہیں جو کہ بہت ہی محدود ہے، یا باہر کی ریاستوں میں چلے جاتے ہیں۔ باہر جانے سے برین ڈرین (ذہین اور ماہر لوگوں کا ریاست سے چلے جانا) ہوجاتا ہے اور جو یہاں رہ جاتے ہیں، اُن میں سے بیشتر بے روزگار ہیں۔ اسی بے روزگاری کی وجہ سے بعد میں طرح طرح کے سماجی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں مثال کے طور پر دیر سے شادی وغیرہ وغیرہ۔'
'بے روزگار کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آپ کے پاس نوکریاں نہیں ہیں البتہ تجارت تو ضرور شروع کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی مختلف ریاستوں، پاکستان کے کراچی یا دوبئی کو دیکھیں گے تو وہاں چھوٹے کاروبار بہت ہی کامیاب ثابت ہورہے ہیں۔ اگر ہم آج سے تیس سال پیچھے نظر دوڑائیں گے تو ہمارے یہاں کشمیر میں بھی چھوٹے چھوٹے کارخانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ذراعت و باغبانی صنعت سے ریاست کو اچھی خاصی آمدن حاصل ہوجاتی تھی لیکن بدقسمتی سے نامساعد حالات کی وجہ سے سب کچھ تبدیل ہوگیا۔'
تاہم اعجاز ایوب کا کہنا ہے کہ نوجوان کی سوچ آہستہ آہستہ تبدیل ہورہی ہے اور وہ اب اپنے ذاتی کاروبار شروع کرنے میں اچھی خاصی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ کہتے ہیں 'اب جو نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں اُن کے ذہنوں میں صرف نوکریاں نہیں ہوتی بلکہ اُن میں سے بیشتر کے ذہنوں میں اپنے ذاتی چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے خواب بھی ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے ہم اُن کی مدد کرتے ہیں۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہمارے نوجوان نوکریوں کے متلاشی رہنے کے بجائے نوکریاں فراہم کرنے والے بنے۔'
کچھ اور دلچسپ کہانیوں کے لئے FACEBOOK پر جائیں اور لائک کریں۔
یہ کہانیاں بھی ضرور پڑھیں۔۔۔
کشمیری لڑکی 'ثوبیہ امین منٹو' کا بیوٹی سیلون کھولنے کا خواب شرمندہ تعبیر
`Love Divorce & carrot juice 'کی ڈائرکٹر مالا پاشا کبھی اسی ڈرامے کی اہم کردار تھیں