کشمیری لڑکی 'ثوبیہ امین منٹو' کا بیوٹی سیلون کھولنے کا خواب شرمندہ تعبیر
زندگی میں کچھ منفرد کام کرنے کے خواب بیشتر لوگ دیکھتے ہیں۔ مگر بہت ہی کم لوگوں کے ایسے خواب شرمندہ تعبیر ہوجاتے ہیں۔ منفرد کام کرنے سے متعلق زیادہ تر خواب وسائل کی کمی، خاندانی تعاون کے فقدان اور سماجی رکاوٹوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ تاہم جب وسائل دستیاب ہو، خاندانی تعاون ساتھ ہو اور سماجی رکاوٹوں کو پس پشت ڈال دیا جائے تو کوئی بھی خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک منفرد خواب وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ لڑکی ثوبیہ امین منٹونے اپنی گریجویشن کے دوران اپنی آنکھوں میں بسا لیا تھا۔وہ یہ کہ 'وہ وادی میں اپنی نوعیت کا پہلا بیوٹی سیلون کھولنا چاہتی تھی'۔
جہاں ملک کے دیگر حصوں میں لڑکیوں کی جانب سے بیوٹی سیلونز چلانا ایک عام بات ہے, وہیں وادی کشمیر شاید ملک کی واحد ایسی جگہ ہے، جہاں لڑکیاں اس کام سے وابستہ ہونے سے کتراتی ہیں۔ آج کی وادی کشمیر سے متعلق کچھ باتیں بہت ہی انوکھی اور عجیب و غریب ہیں۔ اِن باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں شایقین ہر نئی فلم کے ریلیز ہونے کیلئے جمعہ کا انتظار اس لئے نہیں کرتے کیونکہ سنیما گھر موجود نہیں ہیں۔ جن سنیما گھروں میں 1980 کی دہائی میں فلمیں دکھائی جاتی تھیں وہ اب یا تو سیکورٹی فورسز کی زیر تصرف ہیں یا ان کی عمارتیں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ وادی کی برف سے ڈھکی پہاڑیاں، سرسبز و شاداب کھیت اور دلکش آبی ذخائر بالی ووڈ کو فلموں کی عکس بندی کیلئے یہاں کھینچ لاتے ہیں اور بیسویں صدی کی چھٹی سے لیکر آٹھویں دہائی تک بیشتر بالی ووڈ فلموں کی عکس بندی یہیں ہوئی ہیں۔
بدقسمتی سے وادی میں 1980 کی دہائی کے اواخر میں نامساعد حالات نے جنم میں لیا جس نے یہاں سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر آغا شاہد علی آج زندہ ہوتے تو وہ 'ویلی ودآوٹ ا تھیٹر'کے عنوان سے ایک نظم ضرور لکھتے۔ آغا شاہد کشمیر سے تعلق رکھنے والے انگریزی زبان کے معتبر شاعر اور نقاد تھے جنہوں نے وادی کے 1990 کی دہائی کے حالات جب یہاں قریب سات مہینوں تک تمام پوسٹ آفس بند رہے تھے، پر 'کشمیر ودآوٹ ا پوسٹ آفس' کے عنوان سے ایک مشہور نظم لکھی تھی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وادی میں نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کیلئے تھیٹر کھولنے، فلموں میں کام کرنے، ماڈلنگ کرنے اور بیوٹی سیلون یا پارلر چلانے سے متعلق خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنا آسان نہیں ہے۔ جو کوئی اس طرح کے خواب کو پورا کرکے دکھاتا ہے وہ مقدر کا سکندر کہلاتا ہے۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ڈورو شاہ آباد کی رہنے والی ثوبیہ امین منٹو اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے ایک منفرد کام شروع کرنے سے متعلق خواب کو عملی جامہ پہنانے میں اپنے والدین کا بھرپور تعاون حاصل رہا اور بالآخر گذشتہ اتوار یعنی 29 نومبر کو 'ہیف لوکس ۔ دی سٹائل کیفے' کے نام سے ثوبیہ منٹو کے بیوٹی سیلون کا سری نگر کے مصروف ترین جہانگیر چوک کے نذدیک واقع سارا سٹی سنٹرنامی شاپنگ کمپلیکس میں افتتاح عمل میں آیا ، جس کے ساتھ ہی اُن کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ ثوبیہ کے بیوٹی سیلون کا افتتاح وادی کے معروف صنعت کار مشتاق احمد چایا نے انجام دیا اور اس موقع پر نوجوان صنعت کاروں کی ایک خاصی تعداد موجود تھی۔
اپنے دلکش بیوٹی سیلون میں یور اسٹوری کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ثوبیہ منٹو نے کہا کہ وہ انتہائی خوش ہے کہ وہ اپنے والدین کے بھرپور تعاون کی بدولت اپنے خواب کو پورا کرپائی۔ انہوں نے کہا،'' جب میں نے اپنے گھر والوں بالخصوص اپنے والد سے اپنا ذاتی بیوٹی سیلون کھولنے کی بات کی تو یہ میرے لئے ایک بڑا سرپرائز تھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ جیسا آپ کرنا چاہتی ہو تم کرسکتی ہو۔ گھر کے ہر ایک فرد نے اپنا مکمل تعاون دیا۔میرے گھر والوں نے سماج کو نہیں دیکھا بلکہ میری خواہشات کو دیکھا۔ انہوں نے یہ سوچ کر مجھے مکمل تعاون دیا کہ اگریہ کچھ کرنا چاہتی ہے تو ہم اسے کیوں روکیں۔ انہوں نے مجھ پر کوئی بندش نہیں لگائی بلکہ وہ چاہتے تھے کہ میں آگے بڑھوں۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ ایک اچھا باپ ہونے کے ناطے میرا مکمل تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے مکمل تعاون دینے کا عہد کیا کہ بے شک تم لڑکی ہو لیکن تم مجھے لڑکا بن کر دکھاؤ۔ ''
ثوبیہ منٹو جنہوں نے گورنمنٹ ڈگری کالج اننت ناگ سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ممبئی کے ایک مشہور نجی انسٹی چیوٹ سے فیشن ڈئزائننگ میں ایک سالہ ڈپلومہ کیا ہے، کہتی ہیں کہ 'اگر ایک بیوٹی سیلون کو ایک لڑکی ہیڈ کرے گی تو وہ زیادہ کامیاب ثابت ہوگا'۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بیوٹی سیلون میں آنے والے گاہکوں کو ایک سرپرائز دینا چاہتی ہے۔ 'میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ میں یہاں اپنے گاہکوں کے اطمینان کیلئے کام کروں گی۔ میں خود گاہکوں کو دیکھتی ہوں۔ اُن کے ساتھ بات چیت کرتی ہوں۔ گاہکوں کو خوشی ہوتی ہے کہ سیلون کی مالکہ خود ان سے بات کرتی ہے'۔ انہوں نے کہا کہ 'میں اپنے سیلون میں طالب علموں کو پچاس فیصد کی چھوٹ دے رہی ہوں۔ جبکہ افتتاح کے موقع پر ہم نے یہاں پورے ایک ہفتے کیلئے پچاس فیصد کی چھوٹ دینے کا اعلان کر رکھا تھا جس پر عمل درآمد جاری ہے'۔
ثوبیہ منٹو جو ماڈلنگ اور ممبئی میں بننے والے سیریلز میں کام کرنے کا شوق رکھتی ہے، کہتی ہیں کہ 'میں ماڈلنگ کرنا چاہتی ہوں جس کیلئے میں اگلے سال آڈیشن دوں گی۔ اس کے علاوہ ممبئی میں مشہور پروڈکشن ہاوسز کے بینر تلے بننے والے سیریلز میں بھی کام کرنا چاہتی ہوں'۔
اپنے بیوٹی سیلون 'ہیف لوکس۔ دی سٹائل کیفے' کے بارے میں وہ کہتی ہیں ، 'یہ میرا ذاتی برانڈ ہے اور میرا سیلون کسی باہر کے سیلون کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ یہ سیلون دونوں صنفوں کے علاوہ بچوں کیلئے بھی ہے۔ فی الوقت ہمارے پاس 9 لوگوں پر مشتمل عملہ ہے جن میں ہیرسٹائلسٹس، میک اپ آرٹسٹس اور بیوٹیشنز شامل ہیں۔ ثوبیہ کہتی ہیں کہ 'میں نے اس سیلون کیلئے بذات خود قابل اور بہترین اسٹائل ماہرین کا انتخاب کیا ہے'۔
بیوٹی سیلون کھولنا ثوبیہ منٹو کا خواب کب اور کیسے بن گیا، کے بارے میں وہ کہتی ہیں ' گریجویشن کے دوران اور اس کے بعد میرا کشمیر کے باہر اپنے والد کے ساتھ جانا رہتا تھا۔ تو اپنے دورے کے دوران میں کسی نہ کسی سیلون پر ضرور جاتی تھی۔ اس طرح سے ملک کے بڑے بڑے شہروں خاص طور پر میٹروپولیٹن شہروں میں جو مشہور بیوٹی سیلونز ہیں جیسے کہ جاوید حبیب، ٹانی اینڈ گایے اور انفینٹی میں ان سب میں گئی ہوں۔ میں ان بیوٹی سیلونز میں اس لئے جاتی تھی کیونکہ میں اپنے بالوں اور چہرے کو لیکر بہت حساس ہوں۔ جب میں وہاں جاتی گئی اور دیکھتی گئی۔ میں نے سوچا کہ جب میں وہاں جاکر اتنا خرچہ کرتی ہوں۔ کیونکہ جب بھی جاتی تھی تو بیس سے تیس ہزار روپے کا خرچہ آتا ہی تھا۔ آخر مجھے یہ لگا کہ کیوں نہ میں یہ خود کروں۔ مجھے اتنا شوق ہے تو وادی میں کسی دوسری لڑکی کو بھی اتنا ہی شوق ہوگا مگر وہ اتنا خرچہ برداشت نہیں کرتی ہوں گی۔ بہت ساری لڑکیاں ایسی ہیں جن کا خواب ہوتا ہے کہ میںاچھی لگوں مگر وہ باہر نہیں جاپاتی ہیں۔اس کے بعد میں نے تہیہ کرلیا کہ میں کشمیر میں اپنا ایک بیوٹی سیلون کھولوں گی۔ خاص کر ان کے لئے جو میری طرح ہر وقت اچھی لگنا چاہتی ہیں۔ ان کیلئے جو اچھی لگنی کیلئے باہر کی ریاستوں کا رخ کرتی ہیں۔ وہ بھی اس ارادے کے ساتھ کہ میں انہیں یہاں باہر کے بیوٹی سیلونز سے زیادہ بہتر سروس دوں گی'۔
ثوبیہ منٹو کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بیوٹی سیلون کے ذریعے کشمیری نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کو سرپرائز دینا چاہتی تھی اور وہ اس میں اپنے آپ کو کامیاب سمجھتی ہیں۔ 'بیوٹی سیلون کھولنے کا باضابطہ فیصلہ میں نے اسی سال کے اپریل میں لیا۔ میں نے معماروں اور دیگر متعلقین سے بات کی۔ سب کے ساتھ میٹنگ بلائی۔ اُن کے ساتھ مشورہ کیا۔ اس پر کیا کیا خرچہ آئے گا، آرٹسٹ کہاں سے لائیں گے۔ اس پر غوروخوض ہوا۔ یہ سب کرنے کے بعد میں نے جون کے مہینے میں اس جگہ کا انتخاب کیا اور آج پانچ مہینوں کے بعد ایک دلکش بیوٹی سیلون آپ کے سامنے ہیں'۔
ثوبیہ منٹو نے کہا کہ اگرچہ فی الوقت میں اپنے گاہکوں کو سروسز پر چھوٹ دے رہی ہوں لیکن مستقبل قریب میں یہاں گاہکوں کےلئے وائی فائی ، کافی، سنیکس اور پڑھنے کےلئے کتابوں کی سہولیات دستیاب رہیں گی اور دولہا دلہن کےلئے خصوصی پیکیجوں کا اعلان کیا جائے گا۔