دیہاتیوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں مصروف 'هاروا' کا کامیاب نسخہ
کہتے ہیں خواہش کو کبھی نہیں مارنا چاہئے، خود کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہئے- اورزندگی ہمیشہ بامقصد ہونا چاہئے- اگر کوئی شخص ان باتوں پر توجہ دے تو اسے کامیابی کی اونچائیوں تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا- ایسا شخص کامیابی کی چوٹی کو چھوتا ہے اور اپنے لئے سب کے دل میں ایک مختلف مقام بناتا ہے- ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں اجئے چترویدی- اجئے تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک بھی گئے، لیکن جب بات اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی آئی تو وہ ہندوستان لوٹ آئے- اس وقت اجئےملک کے دیہی علاقوں میں کام کر رہے ہیں اور اپنے کام کے ذریعے وہ دیہاتیوں کی زندگی کو آسان بنا رہے ہیں-
اجئے نے بٹس پلانی (bits pilani)سے انجینئرنگ کرنے کے بعد پینسلوینیا (pennsilvania) کی ایک یونیورسٹی سے مینجمنٹ ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کی- اس کے بعد انہوں نے سٹی بینک میں کام کرنا شروع کیا لیکن ذہن میں ہمیشہ ایک ہی خیال رہتا تھا کہ کس طرح وہ بھارت کے غریب لوگوں کے لئے کچھ بامقصد کام کریں- ایک بار وہ ہمالیہ کی طرف سیاحت کے لئے گئے ،اس ٹور نے ان کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی ، جیسے انھیں زندگی کا مقصد مل گیا ہو - اس کے بعد اجئے نے نوکری چھوڑ دی اور اگلے 6 ماہ انہیں وادیوں میں گزارے- اجئے نے یہاں رہ کر زندگی کو کافی قریب سے جاننے کی کوشش کی- کچھ وقت کے بعد اجئے کو واضح ہو گیا کہ اب انہیں کیا کرنا ہے-
2010 میں انھوں نے ملک کو مضبوط بنانے کی سمت میں اپنی طرف سے ایک کوشش کی- اپنی اس کوشش کو انہوں نے نام دیا 'هاروا'- اجئے نے پایا کہ دیہاتیوں کو بااختیار کرنے کی کوشش تو حکومتیں بھی کر رہی ہیں لیکن زمینی سطح پر سرکاری کوششیں نظر نہیں آ رہی ہیں- پھر اجئے نے طے کیا کہ وہ لوگوں کے غیر مستحکم کام کاج کو استحکام بخشیں گے- وہ دیہی لوگوں کے اسکل ڈیولپمنٹ کا کام تو کریں گے ہی ساتھ ہی کچھ ایسا بھی کریں گےجس سے ان کی آمدنی کے ذرائع بھی بڑھ سکیں-
''هاروا' لفظ ہارویسٹنگ ویلو ( harvesting value ) سے بنا ہے اور یہ اسکل ڈیولپمنٹ کا کام کرتا ہے- اجئے نے گاؤں میں ایک بی پی او، کمیونٹی بیسڈ فارمنگ اور مائیکروفنانس (finance micro)کی شروعات کی- اجئے کے بی پی او میں خواتین ہی کام کرتی ہیں-انہوں نے گاؤں گاؤں جا کر خواتین کو بی پی او میں کام کرنے کی دعوت دی- جو بھی خواتین تھوڑا بہت پڑھی لکھی تھیں انہیں کمپیوٹر ٹریننگ کرائی گئی اور کام پر لگایا گیا- یہاں کام کرنے والی خواتین کو تنخواہ دی جاتی ہے اس سے ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی ہے -
'هاروا سرکشا' کی حال ہی میں شروعات کی گئی ہے- اس پروجیکٹ کو بجاج فنانس سے بھی مدد ملی ہے جو کہ دیہاتیوں کو مائیکروفنانس دے رہا ہے- هاروا اس وقت ایکس پی او (.X.P.O) کی 20 هاروا ڈیجیٹل ہٹس چلا رہا ہے- جس میں سے 5 هاروا کی ہیں جبکہ باقی فرنچائزز ماڈل پر کام کر رہی ہیں- یہ ہندوستان کی 14 ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں70 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں- تقریباً ہزار خاندانوں کو اس پروجیکٹ سے فائدہ ہو رہا ہے- یہاں پر ملازمین کو ان کی محنت کی واجب تنخواہ صحیح وقت پر دی جاتی ہے- یہاں کام کرنے والے زیادہ تر غریب خاندان کے لوگ ہیں-
تیزی سے بڑھنے کی چاہ میں هاروا شراکت ماڈل ( partnership model) پر بھی کام کر رہا ہے- اجئے بتاتے ہیں کہ انہیں قلیل مدّت (short term) کے لئے مڈل لیول مینجمنٹ ( Middle Level Management) کو بہتر بنانے ہوں گے تاکہ کام رفتار کے ساتھ مختلف ریاستوں میں پھیلے، وہیں مختلف ممالک میں طویل عرصےکے لئے پہنچنا اجئے کا مقصد ہے-
دیہات میں نیٹ ورک کافی خراب ہوتا ہے ساتھ میں وہاں کی کنیکٹوٹی بھی درست نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اجئے کو کام کرنے اور کام کی تفصیل میں خاصی دقت آتی ہے- اجئے مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر کسی گاؤں میں سوکھا پڑے تو دوسرے گاؤں سے پانی کے کین لاکر لاکھوں لوگوں کی پیاس تو بجھائی جا سکتی ہے لیکن یہ حل مستقل نہیں ہے- مستقل حل تبھی ممکن ہے جب ہم پانی کی پائپ بچھا ئیں - اس طرح ہمیں مسائل کا ایسا حل تلاش کرنا چاہئے جو مستقل ہوں- اسی سوچ کے ساتھ اجئے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کے کام کو سراہا جا رہا ہے- عالمی اقتصادی فورم نے اجئے کے بہترین کاموں کو دیکھتے ہوئے سن 2013 میں انہیں ینگ گلوبل لیڈر ایوارڈ(Young Global Leader Award) سے نوازا-
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں....
حجاب میں رہنے والی شہناز سدرت ہندوستان کی تیسری طاقتور خاتون منتخب
ملٹی نیشنل کمپنی کی ملازمت چھوڑ کراکیلی لڑکی نے بدل دی گاؤں اور پنچایت کی تقدیر
گڑگاؤں کا ایک اسٹارٹ اپ جواعتماد بحال کررہا ہے آٹو ورکشاپ کے ساتھ