صنوبرکے درختوں اور چاول کی بھوسی نے 500دیہاتوں کو روشن کردیا
ہمالیائی علاقہ میں نقل مکانی کرنے والے ایک جوڑے کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سنہرے بھورے صنوبر کے طویل قامت درخت گذشتہ سے زیادہ درخشاں اور شاندار ہیں جو ان کی نئی زندگی میں انتہائی دلکش و دلفریب منظر پیش کررہے ہیں ۔وہ اس حیرت انگیز منظر کو دیکھ کر دم بخود ہیں ۔انہیں اس بات پر یقین نہیں ہورہا ہے کہ یہ صورتحال کس طرح یکسر تبدیل ہوسکتی ہے جب ان درختوں کے ذریعہ ہی جنگل میں آگ لگ جاتی ہے اور زندگیوں میں سب کچھ جل کر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ جبکہ یہی درخت مفید و کارآمد بھی ہوتے ہیں ۔
دوسری طرف بہار کے مشرقی علاقہ کے رہنے والے ایک لڑکے نے مشہور یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور اپنے گھر ومقام سے دور نیویارک سٹی میں ایسے حالات میں زندگی گذار رہا ہے جہاں وہ بڑی تنخواہ کے ساتھ آرام و آسائش کی زندگی کے خواب دیکھ رہا ہے جو نہ صرف اس کیلئے اچھی بلکہ اس کی پسند بھی ہو۔لیکن نیویارک سٹی کا برقی قمقموں اور روشنیوں سے چمکتا دمکتا‘چنددھیا دینے والا ٹائمز اسکوائر اس الکٹریکل انجینئر کے ذہن سے ہندوستان کے اپنے گاوں کے اس منظر بھلا نہیں سکا جو مکمل طور پر تاریکی میں ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسے کئی دیہات ہیں جو بجلی سے محروم ہیں ۔مذکورہ بالا دونوں صورتوں نے اس جوڑے اور اس نوجوان کو مجبور کردیا کہ وہ ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیکر کچھ کردکھائیں شائد کوئی اختراع یا کوئی جدت تاکہ وہ تبدیلی لائی جا سکے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔اس طرح ہمالیائی خوفناک کہانی کا خوشگوار اختتام ہوا ۔
رجنیش جین اور ان کی اہلیہ او ایس ایچ او میں رہتے ہیں ۔ ایک مرحلہ پر انہیں اپنی زندگیوں کو با مقصد اور با معنیٰ بنانے کا خیال آیا۔ 1996ء میں وہ ہمالیائی علاقہ میں مقیم ہوگئے۔کم آمدنی والے دیہاتوں میں روزمرہ زندگی کے مسائل سے وہ کافی پریشان تھے ۔ 2005ء میں اتراکھنڈ کے تقریباً 85فیصد دیہاتوں کو اسٹیٹ الکٹریکل گرڈ کی سہولت حاصل تھی لیکن بجلی کی ترسیل کے ناقص انفرا سٹرکچر نے پہاڑی علاقوں کو اس سے الگ تھک کردیا تھا ۔بجلی کی مسلسل مسدودی اور قلت کے باعث اس علاقہ میں بجلی کی سربراہی غیر یقینی ہوگئی تھی۔
21ویں صدی میں زندگی کی انتہائی اہم ضرورتوں میں شامل بجلی کی قلت کو محسوس کرتے ہوئے اس جوڑنے نے اوانی(AVANI)نامی تنظیم کی مدد حاصل کی جو سماج کو درپیش مختلف مسائل کا حل تلاش کرنے میں لوگوں کی مدد کرتی ہے ۔اس طرح دونوں نے شمسی توانائی کے ذریعہ 25دیہاتوں کو بجلی فراہم کرنے کا آغاز کیا۔دونوں کا احساس ہے کہ اس کے لئے کچھ مختلف کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت شمسی توانائی کے شعبہ میں بھاری رقم خرچ کررہی ہے لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے ۔دونوں کچھ ایسا کرنا چاہ رہے تھے جہاں عوام کو شخصی اور مالی اعتبار سے اس کام میں حصہ دار بننے کا موقع حاصل ہوسکے ۔ صنوبر کے درختوں سے گھیرے ہوئے گھنے جنگلات میں رہتے ہوئے اس جوڑے نے محسوس کیا کہ گرتے ہوئے صنوبر کے درختوں کی رگڑسے جنگل میں آگ لگ سکتی ہے جس سے بھاری جانی اور مالی نقصان ہوتاہے۔
پانی‘ چارہ ‘لکڑی اور جھاڑیاں سب تباہ ہوجاتے ہیں جبکہ ان تمام چیزوں پر ہی دیہاتیوں کی زندگی کا انحصار ہے۔لہذا کوئی ایسا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں صنوبر کے یہ درخت تباہی و بربادی کے بجائے مفید و کار آمد ثابت ہوجائیں ۔اس مقصد کے حصول کیلئے گیاس کے استعمال سے ایک ایسی ٹکنالوجی تیار کی گئی جس کے ذریعہ صنوبر کے درختوں سے بجلی پیدا کی گئی۔ یہ ایک ایسی اختراع تھی جس پر کسی کو یقین نہیں آیا کہ وہ لوگ ایسا کرسکتے ہیں ۔انہوں نے 9KWکا پائلٹ شروع کیا جو کامیاب ثابت ہوا اور اب وہ مکمل طور پر کارکرد ہے۔اس پراجکٹ کے ذریعہ 9KWبجلی پیدا کی جارہی ہے جن کے منجملہ1.5KWبجلی اس سسٹم کو چلانے کے لئے استعمال کی جارہی ہے ۔مجموعی طور پر 7.5KWبجلی استعمال کیلئے دستیاب ہے ۔
ہری جھنڈی ملتے ہی انہوں نے 120KWکے کمرشیل پائلٹ کا بھی قیام عمل میں لایا۔اس طرح بجلی کے فوائد کئی گنا بڑ ھ گئے اور مختلف طریقوں سے کاربن کے اخراج کو کم کیا جارہا ہے ۔ پہلی بات صاف ستھرے فیول کا استعمال کیا جارہا ہے ۔دوسری بات صنوبر کے درختوں کو بروقت حاصل کرتے ہوئے جنگل میں آگ لگنے کو روکا جارہا ہے ۔تیسری بات کیروسین اور ڈیزل جیسے فیول کے استعمال کو کم کیا جارہا ہے جن سے نہ صرف آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ مہینگے بھی ہیں ۔
علاقہ کے 7,500کسانوں کواس سے اب فائدہ ہورہا ہے اور ان کے لئے جنگل کی آگ کا خطرہ بھی کم ہوگیاہے ۔مقامی افراد کو آمدنی کا موثر ذریعہ مل گیا ہے اور وہ 20تا25ہزار کمارہے ہیں جو اس آمدنی سے بہت زیادہ ہے جو وہ (MNAREGA) جیسی سرکاری اسکیمات کے ذریعہ کمارہے تھے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بائیو ماس سے بچنے والے چارکول کا بھی مصرف ہورہا ہے جس کو چھوٹی اینٹوں میں تبدیل کرکے پکوان کے لئے گھروں کو سربراہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔خواتین کو پکوان کیلئے لکڑیاں جمع کرنے چار کیلو میٹر چل کرجانا پڑتا تھا اب انہیں گھر کی دہلیز پر ایندھن حاصل ہورہا ہے ۔اکیومین انوسٹمنٹ نے فنڈنگ کے ذریعہ اوانی گیاسیفکیشن پلانٹ کی اس تنظیم کو اجازت دے دی ۔ اس طرح اوانی نے علاقہ میں 120KWکے20پاور پلانٹس قائم کئے جن کے ذریعہ تقریباً 3ہزار افراد کو سہولت حاصل ہورہی ہے ۔
بہار سے تعلق رکھنے والے الکٹریکل انجینئر منوج سنہا نیویارک ‘ امریکہ میں مقیم ہیں لیکن بجلی سے محروم ان کے گاوں کا اندھیرا انہیں وہاں چین سے سونے نہیں دے رہا تھا ۔منوج سنہا نے بتا یا کہ ہندوستان میں بجلی پیداکرنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہے اور فاصل بجلی بھی میسر نہیں ہے ۔ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان کے ایک لاکھ25 ہزار دیہات اب بھی بجلی سے محروم ہیں ۔ اس طرح ایک بڑی آبادی اس سہولت سے استفادہ کرنے سے قاصر ہے جس کا 20فیصد بہارمیں ہے ۔دوسری طرف بجلی کی سربراہی کے توازن میں بھی خامی ہے۔ ریاست کی 85فیصد آبادی کو اسٹیٹ الکٹرک گرڈ سے جوڑا نہیں گیا ہے ۔جن کو بجلی سربراہ کی جارہی ہے وہ اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مفت میں آرہی ہے ۔اگر سربراہ کرنے والا اپنے بقایاجات کے حصول کے بغیر بجلی فراہم کررہا ہے تو اسے روکنے کا بھی اختیار حاصل ہے لیکن یہ غلط طریقہ کار جاری ہے ۔
ان حالات میں منوج سنہا نے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس دوران اس کے شریک بانی گیانیش پانڈے نے کمپنی کے سی ای او کی حیثیت سے اپنی ملازمت چھوڑدی تھی ۔ منوج نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کیلئے پانڈے کو اپنے ساتھ رکھنے کافیصلہ کیا جو اہم موڑ ثابت ہوا ۔اسی کے ساتھ منوج نے واپسی کا فیصلہ کیا ۔ وہ جانتا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے اگر موت بھی آجائے تو وہ پر سکون ہوگی ۔ایک اور شریک بانی رتنیش یادو کو ساتھ لیکر تینوں نے مختلف ٹکنالوجیز کا مشاہدہ کرنا شروع کردیا جبکہ انہیں اس کا زیادہ علم بھی نہیں تھا ۔بالاخر ان کی نظریں گیاسیفکیشن پر رک گئیں ۔عوام نے اس کی چند خامیوں کے باعث اسے مسترد کردیاتھا۔ یہ لوگ مسئلہ کی اصل وجہ کا پتہ چلانے اور اس کے مطابق گیاسفیکشن کے استعمال کو موثر و کارکرد بنانے کیلئے عوام سے ایک اور موقع چا ہتے تھے ۔ منوج نے بتا یا کہ ابتداء میں انہوں نے دل بہلانے کے طور پر شمسی توانائی کا تجربہ کیاجو کافی مہنگا ثابت ہوا ۔ لہذا انہوں نے مقا می وسائل کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا اور بائیو ماس کی صورت میں نتیجہ برآمد ہوا ۔اب اس کے لئے ایک ایسے آسان پلانٹ کی ضرورت تھی جس کو مقامی عوام اپنے طور پر چلا سکیں کیونکہ شہروں سے قابل انجینئرس کو پاور پلانٹس چلانے کے لئے طلب کرنا آسان نہیں تھا ۔بائیو ماس کیلئے ان کے آس پاس جو سب سے اچھی چیز دستیاب تھی وہ چاول کا بھوسا تھا ۔چاول‘ بہار کی خاص پیداوار اور غذا ہے ۔چاول کا چھلکا اتارنے والوں سے فاضل شئے کی صورت میں یہ بھوسا حاصل ہورہا تھا ۔ اس طرح گیہوں اور مکئی کا بھوسا بھی حاصل کیا گیا اور ان کا تجربہ توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب ہوا۔ اس کامیابی کے ساتھ انہوں نے 25KWکے 84دیسی ساختہ پاور پلانٹس قائم کئے اور اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی ۔اس طرح سال میں 340دنوں کے لئے یومیہ 6گھنٹے بجلی پیدا کی گئی ۔ہر پلانٹ سے 400گھروں کو بجلی کی سہولت حاصل ہورہی ہے ۔اس ٹیم نے اپنے کامیاب تجربہ سے 300دیہاتوں کو برقیایا اور 2لاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیوں کو روشن کردیا۔ان کی اس کامیابی سے سالانہ 215ٹن کاربن کے اخراج کو روکنے‘ 18ہزار لیٹر ڈیزل اور 42ہزار لیٹر کیروسین کے استعمال کو ختم کرتے ہوئے آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملی جس کے لئے انہیں UNFCCCسرٹیفیکٹ عطا کیا گیا۔ان کے اس تجربہ سے گھروں کے اندر بھی آلودگی میں کمی ہوئی اور دیہی علاقوں میں صحت کی صورتحال میں بہتری پیدا ہوئی ۔
منی پاورگرڈ کے شعبہ کو اس وقت کافی نظرانداز کیا گیا تھا جب انہوں نے اس کی شروعات کی تھی ۔اس ٹیم نے عوام کو وہ سہولت فراہم کی جو حکومت دور دراز علاقوں میں فراہم نہیں کرسکتی تھی ۔اب عوام مستقل طور پر اپنے بجلی کے بلز ادا کررہے ہیں ۔ حکومت کے ساتھ اس معاملہ میں ان کی کوتاہیاں ہوتی تھیں ۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ٹیم عوام کو وہی مہیا کروارہی ہے جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔اب عوام کو صبح8بجے اور رات10بجے کے درمیان 95فیصد وقت تک بجلی حاصل ہورہی ہے ۔قیمتوں میں کمی کے ساتھ وہ دوبارہ شمسی توانائی کی مارکٹ میں داخل ہورہے ہیں ۔ اس طرح دوہری ٹکنالوجی کے ساتھ یہ پہلی ایسی کمپنی ہوگی جو چوبیس گھنٹے دیہی علاقوں میں دو طریقوں سے صاف ستھری بجلی سربراہ کرے گی ۔دن میں شمسی توانائی تو راست میں بائیو ماس سے پیدا کی جانے والی بجلی کی سربراہی عمل میں لائی جائے گی ۔
بائیو ماس کی پروسیسنگ کے بعد جو فاضل اشیاء باقی رہ جاتی ہیں یہ ان سے بھی فائدہ حاصل کررہے ہیں ۔ ہر پلانٹ پر 50خواتین کی بھرتی کی گئی ہے اور ان س فاضل اشیاء سے اگربتی کی چھڑیاں بنانے کا کام لیا جارہا ہے ۔اس اگربتی کو گنگا اگربتی کے برانڈ کے تحت بہار کے مختلف شہروں میں فروخت بھی کیا جارہا ہے ۔اس طرح شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کو آمدنی حاصل ہورہی ہے ۔دیہی علاقوں میں خواتین کو ان کے گذربسر کا ذریعہ فراہم کرتے ہوئے بنیادی طور پر ان کے خاندانوں اور زندگیوں میں بہتر تبدیلی لائی جارہی ہے ۔ جب ایک خاتوں کو اس کے خاندان کی حفاظت کے لئے با اختیار بنایا جاتا ہے تووہ زیادہ سے زیادہ قابل احترام اور زیادہ طاقتور ہوتی ہے ۔
قلمکار -شرکا نائر
مترجم- سید اکبر علی خان
کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں...
آپ کی کہانیوں کے درمیان میری اپنی ایک کہانی.... شردھا شرما
سڑک حادثے میں بیٹے کی موت کے بعد ...'یوتھ اگینسٹ اسپیڈ' مہم سے شعور بیدار کرنے والے خلیق الرحمٰن
خواتین بہتریں پروگرامرس ، ٹیکنالوجی میں مزید خواتین کی ضرورت"سیمالال گلاب رانی۔"