کشمیر کے روایتی لباس 'پھیرن'کو امریکہ پہنچانے والی مفتی سعدیہ کی کہانی
ارادہ پختہ اور حوصلہ بلند ہے تو مقصد کوئی بھی ہو، بہ آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا ہے 24 سالہ کشمیری فیشن ڈیزائنر مفتی سعدیہ کا جنہوں نے روایتی کشمیری لباس 'پھیرن' کو عالمی سطح پر شناخت دینے کی ٹھان لی ہے۔ 'پھیرن' کشمیر کی ثقافت کا ایک اٹوٹ انگ ہے جس کا زیادہ تر استعمال سردیوں کے موسم میں کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا لباس جو انسانی بدن کو گردن سے ٹخنوں تک ڈھانپتا ہے۔ تاہم وادی میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں پھیرن کا استعمال کثریت سے کرتی ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول اس کو ایک مہذب اور شرم و حیا کا لباس سمجھا جاتا ہے۔ دوم اس کے پہننے کے بعد عورتوں کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
سعدیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک تجربے کے طور پر اپنے ڈیزائن کئے ہوئے روایتی کشمیری پھیرنوں کو ای کامرس ویب سائٹ 'کشمیر باکس ڈاٹ کام' پر دستیاب کرایا تھا اور انہیں اُس وقت بے انتہا مسرت ہوئی جب انہیں باضابطہ طور پر ملک اور بیرون ملک سے آڈرس موصول ہونے لگے۔ کہتی ہیں 'جب مجھے امریکہ سے روایتی کشمیری پھیرن کا پہلا آڈر موصول ہوا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ اور میری خوشی اُس وقت دوگنی ہوگئی جب پھیرن ملنے پر اُسی امریکی خاتون نے مزید دو پھیرنوں کے لئے آڈر بک کیا۔'
نوجوان فیشن ڈیزائنر سعدیہ جنہوں ایک سال ایک ماہ قبل سری نگر کے مصروف ترین تجارتی مرکز جہانگیر چوک کے نذدیک واقع شاپنگ کمپلیکس 'سارا سٹی سنٹر' میں 'ہینگرز ۔۔۔دی کلو سیٹ'کے نام سے خواتین کے ملبوسات کا ایک جامع اسٹور کھول کر کاروباری زندگی میں قدم رکھا ہے، کا کہنا ہے 'میں چاہتی ہوں کہ میرے اسٹور کے بنائے ہوئے کشمیری پھیرنوں کو بین الاقوامی سطح پر شناخت ملے جس کے لئے میں کوشاں ہوں۔ حقیقت بیان کروں تو میرا کشمیری پھیرنوں کو دنیا کے مختلف کونوں تک پہنچانے کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے ۔ جو پھیرن میں آن لائن فروخت کرتی ہوں اُن میں منافع کی شرح میں نے بہت ہی کم رکھی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیری پھیرن ایک خوبصورت اور دلکش لباس ہے جس کو کشمیری شال کی طرح بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے کی ضرورت ہے۔'
سعدیہ کا کہنا ہے کہ تجارت کے کچھ اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ایک انسان کامیاب ترین تاجر ثابت ہوسکتا ہے۔ 'سب سے اہم یہ ہے کہ ایک تاجر اپنے پروڈکٹ کے معیار پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیں۔ آج کے زمانے کے گاہک بہت ہی ہوشیار ہیں۔ وہ معیاری اور غیر معیاری چیزوں کی پہچان رکھتے ہیں۔' اس نوجوان فیشن ڈیزائنر نے اپنی اسٹور میں تیار ہونے والے ملبوسات بشمول روایتی کشمیری پھیرن کو 'ہینگرز ۔۔۔دی کلو سیٹ'کے برانڈ نام سے فروغ دینے کا قدم اٹھایا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر کشمیری پھیرن کو احسن طریقے سے فروغ دیا جائے تو یہ اُن ممالک میں بھی استعمال کیا جانے لگے گا جہاں کا موسم وادی کشمیر سے میل کھاتا ہے۔
'ہینگرز ۔۔۔دی کلو سیٹ' اسٹور میں فی الوقت چار افراد سعدیہ کا ہاتھ بٹاتے ہیں، جن میں دو لڑکیاں کڑھائی کے کام کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ ایک مرد درزی ہے۔اپنے ملبوسات کے کولیکشن میں روایتی کشمیری پھیرن کو شامل کرنے کے تجربے کے بارے میں وہ کہتی ہیں 'سال 2015 ء کے اواخر میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی میں نے تجربے کے طور پر اپنے اسٹور میں تقریباً 60 کشمیری روایتی پھیرن دستیاب رکھے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرا تجربہ کامیاب ثابت ہوا۔ اُن پھیرنوں میں سے تقریباً 90 فیصد فروخت ہوگئے ہیں۔ یہ سب پھیرن میں نے خود ڈیزائن کئے تھے۔ اِن پر کڑھائی، دبکہ اور تلہ کا خوبصورت کام ہوا تھا۔اور دلکش دکھنے کے لئے ان کو میں نے مخصوص کشمیری اور ویسٹرن ٹچ دیا تھا۔پھیرنوں کو آن لائن دستیاب کرانا میرا دوسرا تجربہ تھا جس کی کامیابی نے مجھے بے انتہا خوش کردیا۔ اور ما شاء اللہ پھیرنوں کی آن لائن فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔'
مفتی سعدیہ جنہوں نے گورنمنٹ وومنز کالج سری نگر سے سائنسی مضامین میں گریجویشن کی ہے اور فی الوقت اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) کے فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے انٹرنیشنل بزنس میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کررہی ہے، کا ماننا ہے کہ ایک فیشن ڈیزائنر بننے کے لئے کسی مخصوص ڈگری کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک تخلیقی سوچ انسان کو فیشن ڈیزائنر بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے ملبوسات کی اسٹور کا نام 'ہینگرز ۔۔۔دی کلو سیٹ' کیا سوچ کر رکھا ہے، کے بارے میں وہ کہتی ہیں
'میں چاہتی ہوں کہ میرے جو ڈیزائنز ہیں وہ ہر ایک عورت کی الماری میں موجود ہینگرز پر آویزاں رہے، بس یہ نام رکھنے کے پیچھے یہی ایک راز ہے۔' سعدیہ کے اسٹور میں خواتین کے ملبوسات کی کولیکشن میں ڈیزائنر ویئر، نسلیاتی و روایتی کشمیری ڈیزائنزاور سٹولز شامل ہیں۔'
سعدیہ کے اسٹور پر خواتین کے لئے ریڈیمیڈ ملبوسات دستیاب ہونے کے علاوہ گاہکوں کی مرضی کے مطابق من پسند ملبوسات تیار کئے جاتے ہیں۔ 'میرے گاہک گاؤن ، دلہن کے لئے خاص لہنگا اور روایتی کشمیری پھیرن بنوانے کے لئے حسب ضرورت آڈر دے دیتے ہیں۔ میں اور میری ٹیم اپنی مہارتوں سے گاہکوں کو سرپرائز دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے۔ میرے پاس ایسے بھی گاہک ہیں جو تصویر ساتھ لاکر کہتے ہیں کہ میڈم مجھے ایسا لباس چاہیے۔ میں انہیں برابر ویسا ہی بناکر دے دیتی ہوں۔' مارکیٹ میں ملبوسات پر کڑھائی، تلہ اور دبکے کے کام کی ڈیمانڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے سعدیہ نے اس کے لئے ماہر افراد کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ کہتی ہیں 'میرے اسٹور پر روایتی کشمیری سلائی کڑھائی کا کام ہوتا ہے، پھیرنوں پر تلہ کا کام کیا جاتا ہے (تلہ پھیرن کشمیری عورتوں خاص طور پر شادی شدہ عورتوں کے پہناوے کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے)، گاہکوں کی مانگ کے مطابق ملبوسات پر دبکے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔'
یہ پوچھے جانے پر کہ خواتین کے فیشنی ملبوسات کی اسٹور کھولنے کا خیال اُن کے ذہن میں کب اور کیسے آیا، تو سعدیہ کا جواب تھا 'گریجویشن مکمل کرنے کے بعد میں نے انٹرنیشنل بزنس میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنا شروع کی جو فی الوقت آخری مرحلے میں ہے۔ اگرچہ پوسٹ گریجویشن کے دوران میں نے نجی سیکٹر میں نوکری اختیار کرلی تھی لیکن میں ہمیشہ خودمختار رہنا چاہتی تھی اور مجھے لگتا تھا کہ میں کسی کے ماتحت کام نہیں کرسکوں گی۔ اپنا خود کا کاروبار شروع کرنے کا جذبہ بھی موجود تھا اور فیشن ڈیزائنگ کا شوق آہستہ آہستہ جنون میں بدل رہا تھا، اور اس خودمختاری، جذبے اور شوق کا ماحاصل ہی 'ہینگرز دی کلوسیٹ' ہے۔'
بزنس سٹیڈیز کی طالبہ سعدیہ کے مطابق تجارت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں ایک تاجر کو سب سے پہلے اپنے پروڈکٹ کی شناخت اور ساکھ قائم کرنی پڑتی ہے اور شروعات میںبہت ہی کم منافع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ 'اگر کوئی شخص سوچنے گا کہ میں نے تجارت شروع کی اور مجھے تجارت میں لگایا ہوا پیسہ صرف ایک سال میں واپس کمانا ہے تووہ تاجر حقیقی کاروباری شخص نہیں کہلائے گااور نہ اُس شخص کا کاروبار دیرپا ثابت ہوگا۔' یہ پوچھے جانے پر کہ فیشن کے لئے کشمیر میں کیسا مارکیٹ ہے، سعدیہ نے کہا کہ بہت ساری لڑکیاں ایسی ہیں جو میری مستقل گاہک بن چکی ہیں۔ وہ مارکیٹ میں ملبوسات کے آنے والے ہر ایک نئے ڈیزائن کو استعمال کرنا پسند کرتی ہیںاور خاص طور پر کشمیر میں استعمال کئے جانے والے ملبوسات کے نئے ڈیزائن کی خریداری میں انتہائی دلچسپی دکھاتی ہیں۔
سعدیہ جو اپنے اسٹور پر ملک اور بیرون ملک خاص طور پر پاکستان سے درآمد ہونے والے کپڑے کو ملبوسات کی تیاری کے لئے استعمال کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ کشمیری لڑکیوں میں پاکستان سے درآمد ہونے والے کپڑے کو لیکر بڑا کریز ہے۔ کہتی ہیں 'پاکستان سے ہمارے پاس غیر سلے کپڑے آتے ہیں۔ ہم یہاں بعد میں پاکستانی کپڑے کو اپنے طریقے اور گاہکوں کے آڈرس کے مطابق ڈیزائن کرتے ہیں۔ میں آپ کو ایک نہایت دلچسپ بات بتاتی ہوں کہ کشمیری لڑکیاں پاکستانی کپڑوں کی بڑی دیوانی ہیں۔'
بالائی سری نگر کے راولپورہ کی رہنے والی اس نوجوان فیشن ڈیزائنر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ترقی کی راہ پکڑلی ہے اور اپنے برانڈ کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے انہیں استقامت کا مظاہر کرنا ہوگا۔ اپنے تجارتی سفر کے بارے میں وہ کہتی ہیں 'میں نے نجی سیکٹر کی نوکری چھوڑنے کے بعد چھوٹے بجٹ کے ساتھ خواتین کے ملبوسات کا ایک اسٹورسری نگر کے مضافاتی علاقہ میں قائم کیا تھا جہاں ایک ٹیلر میری مدد کرتا تھا۔ میں تب مارکیٹ کو سمجھنا چاہتی تھی ۔ تب میں نے پروموشنل سرگرمیاں بالکل بروئے کار نہیں لائی تھیں۔ جب آہستہ آہستہ میرے گاہکوں کی تعداد بڑھنے لگی تو مجھے احساس ہوا کہ بڑے بجٹ کے ساتھ شروع کرنے کا وقت آچکا ہے ۔'
سعدیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے اسٹور 'ہینگرز ۔۔۔دی کلو سیٹ' کے پروموشن کے لئے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں خاص طور پر فیس بک کا بھرپور استعمال کیا۔ 'میں نے اخباری اشتہاروں کا بہت کم استعمال کیا کیونکہ وہ اسٹارٹ اپس کے لئے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کا ایک مہنگا ذریعہ ہے۔' یہ پوچھے جانے پر کہ جب انہوں نے ملبوسات کی اسٹور کھولنے کی بات اپنے گھر والوں کے ساتھ اٹھائی تو اُن کا کیسا ردعمل تھا، سعدیہ نے جواب میں کہا 'حقیقت بیان کروں تو شروعات میں پاپامیراساتھ نہیں دے رہے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ میں الجھن کا شکار ہوں۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں محسوس ہوا کہ بیٹی محنت کررہی ہے تو انہوں نے اپنا بھرپور تعاون دینا شروع کردیا۔اپنے دیگر افراد خانہ کی بات کروں تو اُن کی حمایت شروعات سے ہی مجھے حاصل تھی۔'
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے فیصلے اور اپنی تجارت سے مطمئن ہیں، سعدیہ نے کہا 'اس اسٹور کو کھولے ہوئے ایک سال ایک مہینہ ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اس عرصہ کے دوران اپنے مستقل گاہک بنانے میں کامیاب ہوگئی اور مطمئن ہوں کہ میرا فیصلہ بالکل درست تھا۔ پھر بھی میں ایک بات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گی وہ یہ ہے کہ کشمیر کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ نئی دہلی اور ملک کے دیگر میٹروپولیٹن شہروں میں سری نگر کے مقابلے میں چیزیں سستی ملتی ہیںجبکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔ میرے اسٹور میں کوئی لباس ایک ہزار روپے میں دستیاب ہے، گاہک میرے پاس آکر مجھ سے کہتا ہے کہ نہیں جی مجھے تو یہ نئی دہلی میں بہت ہی سستی قیمت پر ملے گا اور جب اُسی گاہک کو نئی دہلی میں وہ لباس 12 سو روپے میں ملتا ہے تو وہ خرید لیتا ہے۔'
اپنے مستقل کے منصوبوں اور ارادوں کے بارے میں سعدیہ کہتی ہیں 'ایک خاتون تاجر کی حیثیت سے میری ایک خواہش ہے کہ میں لڑکیوں کی مدد کروں۔ میں اگلے سال کے مارچ میں الگ سے ایک ٹیلرنگ ڈیپارٹمنٹ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہوں جہاں صرف اور صرف لڑکیاں ہی کام کریں گی۔ میں چاہتی ہوں کہ جو لڑکیاں ناخواندہ لیکن باصلاحیت ہیں میرے ذریعے اُن کی مدد ہو۔ میں مستقبل میں جنوبی کشمیر میں ایک اسٹور کھولنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔'