سلم آبادی میں رہنے والے بچوں کی بیرنگ زندگی میں رنگ بھرنے کا نام ہے'اڑان'

سلم آبادی میں رہنے والے بچوں کی بیرنگ زندگی میں رنگ بھرنے کا نام ہے'اڑان'

Friday November 04, 2016,

7 min Read

کبھی آپ نے ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ یا سڑک کنارے کوڑا بينتے ہوئے ان بچوں کے بارے میں سوچا ہے جو اسکول نہیں جاتے؟ زیادہ تر لوگوں کے پاس اس سوال کا جواب نہ میں ہو گا، لیکن ایک شخص نے جب ایسے بچوں کو دیکھا، تو نہ صرف ان بچوں کے بارے میں سوچا بلکہ وہ ایسے بچوں کو زندگی تعلیم سے سنوارنے میں مصروف ہو گیا۔ آج اس شخص کی بدلوت اتر پردیش کے سہارنپور میں رہنے والے سینکڑوں بچے نہ صرف پڑھنا لکھنا سیکھ رہے ہیں، بلکہ ان میں سے بہت سے بچوں نے باقاعدہ اسکولوں میں جانا شروع کر دیا ہے۔ سہارنپور میں رہنے والے اجے سنگھل ایل آائی سی کے لئے کام کرتے ہیں انہوں اپنی اس مہم کو نام دیا ہے 'اڑان'۔ وہ نہ صرف سلم آبادی میں رہنے والے بچوں کو ہی خواندہ نہیں کر رہے بلکہ وہاں رہنے والی لڑکیوں اور خواتین کو خود کفیل بنانے کے لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ سلائی اور بيوٹشين کا کورس بھی کروا رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہیں اجے پڑھائی لکھائی کے علاوہ ووکیشنل ٹریننگ دینے کا کام مفت میں کرتے ہیں۔

image


اجے نے تقریبا چھ سال پہلے ایک بلاگ لکھا تھا۔ وہ بلاگ انہوں نے ان بچوں پر لکھا تھا جو چھوٹے بڑا کام دھندہ کر گزارا کرتے ہیں۔ جیسے چائے کی دکان پر کام کرتے ہیں، سڑک کنارے کوڑا بينتے ہیں یا اجرت کرتے ہیں۔ انہوں اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ اکثر ہم ایسے بچوں کو دیکھتے تو ہیں لیکن کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کی یہ بچے اسکول کیوں نہیں جاتے۔ جس کے بعد اجے کے ایک دوست ایسے بچوں کی مدد کے لیے آگے آئے اور انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ایسے پانچ بچوں کی فیس دینے کو تیار ہیں۔ بشرطیکہ ایسے بچے اسکول جانے کو تیار ہوں۔ اجے سنگھل کے مطابق، "میں ایسے بچوں کی تلاش میں اندرا کیمپ نامی ایک سلم بستی میں گیا۔ یہ ایسی بستی تھی جہاں رہنے والے بچے ردی چنا کرتے تھے۔ یہ بچے صبح 5 بجے اپنے گھروں سے نکل جاتے تھے اور دوپہر 3 بجے تک یہ کام کرتے تھے اور یہی وقت اسکول کا بھی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ بچے اسکول نہیں جا پاتے تھے اور کام سے واپس آنے کے بعد خالی گھوما کرتے تھے۔ "اندرا کیمپ میں تقریبا ڈھائی ہزار لوگ رہتے ہیں۔ اس بستی میں بچوں کی تعداد 4 سو کے قریب ہے۔ بچوں کی اتنی تعداد کو دیکھتے ہوئے اجے سنگھل نے طے کیا کہ کیوں نہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم دی جائے۔ اس کے لئے ضرورت تھی جگہ کی۔ جہاں پر ان بچوں کو پڑھانے کا کام کیا جائے۔ اس لئے علاقے میں موجود ایک مندر کی چھت پر انہونے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر قریب سات سال پہلے بچوں کو پڑھانے کا کام شروع کیا اور اپنی اس مہم کو نام دیا 'اڑان'۔

اجے نے اس کام کا آغاز 32 بچوں کے ساتھ تھا، لیکن آج یہاں پر 252 بچے پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ ان میں 70 فیصد لڑکیاں ہیں۔ آج یہ اسکول شام 4 بجے سے 6 بجے تک چلتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے یہاں آنے والے بچے اپنے کام پر جاتے ہیں۔ اجے نے دیکھا کی یہاں آنے والے کئی بچے پڑھائی میں ہوشیار تھے اس لئے انہوں نے ان بچوں کے لیے تعلیم کا حق (آر ٹی ای) کا استعمال کرتے ہوئے اسکولوں میں داخلہ کرانا شروع کر دیا۔ اس طرح یہ اب تک سلم آبادی میں رہنے والے 44 بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرا چکے ہیں۔ یہ تمام بچے چھٹی سے لے کر 8 ویں کلاس تک میں پڑھ رہے ہیں۔ آج ان تمام بچوں کو اسکول کے بعد یہاں پڑھنے کے لئے آنا ہوتا ہے جہاں پر ان کو ہوم ورک کرایا جاتا ہے اور پڑھنے لکھنے میں ان کی مدد کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان 44 بچوں میں سے 9 بچوں نے حال ہی میں اپنے اسکول کے امتحان میں اول سے تین رینک حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اجے بتاتے ہیں۔ "ہم نے جب یہاں پر بچوں کو پڑھانے کا کام شروع کیا تھا تو اس وقت ہم چاہتے تھے کہ یہ تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں، لیکن آہستہ آہستہ اب ہم 5 ویں کلاس کا نصاب ان بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری یہ مہم ایک کلاس روم کے ماحول میں بدل گئی ہے۔ ہم ان بچوں کو ہندی، انگریزی، سائنس، ریاضی کے علاوہ اخلاقی تعلیم کا متن بھی پڑھاتے ہیں۔ "آج ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ نرسری کلاس میں جہاں 5 سال کا بچہ ہے تو وہیں 13 سال کا بچہ بھی ہے۔ ایسے میں ان بچوں کے درمیان تال میل بٹھانا مشکل ہوتا ہے۔

image


اجے کی اس مہم میں 18 اور لوگ بھی جڑ چکے ہیں جو مالی طور پر ہر ماہ مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس والٹير کی ایک ٹیم بھی ہے۔ یہاں پر ان بچوں کو نہ صرف پڑھایا جاتا ہے بلکہ پڑھنے کے لئے کتابیں بھی مفت میں دی جاتی ہیں۔ اس کام میں ان کی مالی مدد دوسری تنظیمیں بھی کر رہی ہیں۔ ان میں لاینس گروپ، بھارت وکاس پریشد جیسی تنظیمیں ہیں۔ وہیں سہارنپور کے کئی اسکول بھی ان کی مختلف طریقے سے مدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گجرات کے 'آشرئے فاؤنڈیشن' کو جب ان کے کام کے بارے میں پتہ چلا تو وہ ان کی مدد کو آگے آئے۔ جس کے بعد 'آشرئے فاؤنڈیشن' کی مدد سے ان لوگوں نے نہ صرف جگہ خریدی بلکہ اس جگہ پر ایک ہال تیار کرایا اور بعد میں مقامی لوگوں کی مدد سے پہلی منزل کی تعمیر کرائی گئی۔ اس وجہ سے جہاں پہلے بچوں کو کھلے آسمان کے نیچے پڑھنا ہوتا تھا، وہیں گزشتہ 2 سالوں سے اب 'اڑان' کے پاس اپنی ایک عمارت ہو گئی ہے۔

image


سلم میں رہنے والے بچوں کو پڑھانے کے دوران اجے نے محسوس کیا کہ وہاں رہنے والی ایسی کئی خواتین اور لڑکیاں ہیں جو پڑھنا چاہتی ہیں اور کچھ کام سیکھنا چاہتی ہیں۔ اس لئے انہوں نے تقریبا 3 سال پہلے اندرا کیمپ نام کی سلم بستی میں رہنے والی خواتین کو خواندہ بنانے کے بارے میں سوچا اور ان کو دوپہر 2 بجے سے 4 بجے تک پڑھانے کا کام شروع کیا۔ آج یہاں پر بچوں اور عورتوں کو سکھانے کے لئے 10 ٹیچروں کا تقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو خود کفیل بنانے کے لئے انہونے ایک سلائی سینٹر کی شروعات کی۔ اس سینٹر میں 30 خواتین کا ایک بیچ ہوتا ہے۔ ہر بیچ کی عورتوں کو چھ ماہ کی سلائی کورس کرایا جاتا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سلائی کا یہ کورس مفت کرایا جاتا ہے۔ خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کورس مکمل کرنے کے بعد ان کے درمیان مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے اور جو 5 خواتین اس مقابلہ میں جیت اول آتی ہیں ان کو سلائی مشین بھی دی جاتی ہے۔ خواتین کے اس طرف بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں نے 2 ماہ پہلے بيوٹشين کا کورس بھی شروع کیا ہے۔ جس نوجوان لڑکیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس میں بھی 30 خواتین اور لڑکیوں کا ایک بیچ ہوتا ہے۔

image


پڑھائی اور روزگار کے ذرائع فراہم کرنے کے علاوہ اجے نے سلم آبادی میں رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی زور دینا شروع کیا۔ اس کے لئے انہوں نے 'اڑان' کی بلڈنگ میں ہی ایک ڈسپنسری کا اہتمام کیا ہے۔ 'اڑان چیرٹیبل ڈسپنسری میں باقاعدہ طور پر ڈاکٹر سریندر دیو شرما ایم بی بی ایس ڈاکٹر بیٹھتے ہیں۔ جو کسی طرح کی کوئی فیس نہیں لیتے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر لوگوں کو صرف جینرك دوائیں ہی دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سلم میں رہنے والا کوئی بھی شخص یہاں پر 10 روپے کی فیس دے کر اپنا علاج کرا سکتا ہے۔ اس فیس میں دواوں کی قیمت بھی شامل ہوتا ہے۔ اجے بتاتے ہیں کہ وہ یہ سارا کام 'کریزی گرین' نامی ایک تنظیم کے ذریعے کرتے ہیں۔ جس میں ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی فوج ہے۔ ان کی ٹیم میں ہر رکن کو مختلف ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس لئے آج وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی مدد سے اس کام کو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔