پڑھو گے لکھو گے تو ہونگے نواب - جئے مشرا کی دلچسپ کہانی
جئے مشرا نے اپنی زندگی کے ابتدائی 16 سال بہت زیادہ مفلسی میں گزارے- اس دوران وہ جھونپڑی میں بھی رہے- جئے کا خاندان اتنا غریب تھا کہ زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے کھانا پینا، کپڑے اور چھت تک مناسب طریقے سے میسر نہیں تھی-باوجود اس کے جئے کے والد کی خواہش رہتی تھی کہ وہ بچوں کو اچھی تعلیم دیں- جئے اپنے والد کو اپنا رول ماڈل مانتے ہیں- ان کے والد نے ہمیشہ جئے کی تعلیم پر زور دیا - سخت غربت کے باوجود انہوں نے جئے کے اندر ہمیشہ یہ امید جگائے رکھی کہ آپ عمل پر یقین رکھو اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھو - انہوں نے ہمیشہ جئے کو صحیح سمت دکھانے کا کام کیا - جئے کے والد نے پی ڈبلو ڈي میں اپنے کیریئر کی شروعات ایک چپراسی کے طور پر کی اور اپنی محنت کے بل بوتے وہ دیہی بینک کے منیجر کے عہدے تک پہنچے- انہوں نے جئے کو ہمیشہ ایک سیکھ دی کہ تعلیم ہی واحد ایسا آلہ ہے جو ایک انسان کی زندگی کو بدل سکتا ہے- یہ بات جئے کے ذہن میں ہمیشہ کے لئے بیٹھ گئی-
جئے نے 'ٹيچ فار انڈیا' کلب میں بطور ٹیچرپڑھانا شروع کیا- اتر پردیش کے جون پور میں جئے پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی- پیسے کی تنگی بھی جھیلی لیکن وہ کمزور نہیں پڑے ، ڈٹے رہے- جئے نے مکینیکل انجینئرنگ 89 فیصد نمبرات کے ساتھ پاس کی اور کالج میں تیسرے مقام پر رہے- اتنے اچھے نمبر حاصل کرنے کے باوجود جئے کو نوکری نہیں ملی- کیونکہ ان کے 10 ویں جماعت میں اچھے نمبر نہیں تھے- ایک عام آدمی کے لئے انجینئرنگ کرنے کے بعد بھی کام نہ مل پانا بہت تکلیف دہ تجربہ ہو سکتا ہے لیکن جئے نے اسے مثبت طور پر لیا- زندگی کی ہر چیلنج انہیں ایک راہ دکھاتی ہے-جئے ہمیشہ سے ملک کے لئے اور ہم وطنوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے- وہ لوگوں کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کی مثبت سوچ کی وجہ بھی رہی -
جئے جب انجینئرنگ کے آخری سال میں تھے تب انہیں 'ٹيچ فار انڈیا' کے بارے میں پتہ چلا- جئے کو اس وژن کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا- اس مشن کا وژن تھا ایک دن بھارت کے تمام بچے بہت اچھی تعلیم حاصل کریں گے- جئے اس وقت ایک ریسرچ پروجیکٹ 'کوالٹی آف ہائر ایجوکیشن ان انڈیا' پر کام کر رہے تھے- جئے نے جب اس موضوع پر سوچا تو پایا کہ یہ ممکن ہے لیکن اس کے لئے خود پر انحصار اور کمٹمنٹ ہونا ضروری ہے- ٹھیک اسی وقت جئے نے 'ٹيچ فار انڈیا' وژن کے لئے اپنی طرف سے کچھ تعاون کرنے کا من بنایا-جئے بتاتے ہیں کہ وہ خود غریب تھے صرف یہی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس پروجیکٹ سے جڑ کر کچھ کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ ملک کا ہر بچہ بہترین تعلیم حاصل کرے -
جئے نے 'ٹيچ فار انڈیا' کلب میں بطور ٹیچرپڑھانا شروع کیا-اس طرح سن 2013 میں جئے 'ٹيچ فار انڈیا' سے جڑ گئے- جئے مانتے ہیں کہ بہت جلد ایک دن ایسا آئے گا جب ہر بچہ بہت اچھی تعلیم حاصل کرے گا- 'ٹيچ فار انڈیا' پروجیکٹ سے جڑ کر جئے بہت فخر محسوس کر رہے ہیں- وہ اس سمت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ مشن کامیاب ہو- وہ اس پروجیکٹ میں بطور پروجیکٹ منیجر کام کر رہے ہیں- جئے کے اس کام سے ان کے والد جو کہ ہمیشہ تعلیم پر زور دیا کرتے تھے، بہت خوش ہیں-
جئے مانتے ہیں انہوں نے کسی بڑی کمپنی میں جاب کرنے کو ترجیح نہ دے کر غریب بچوں کے لئے کام کرنے کا من بنایا یہ ان کا بہت اچھا فیصلہ تھا- ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی جاب بینک بیلنس تو بڑھا سکتی تھی، بہترین طرز زندگی بھی دے سکتی تھی لیکن جو خوشی اور تسکین جئے کو یہاں کام کرکے حاصل ہو رہی ہے اس سے وہ بہت زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں- جب وہ چھوٹے -چھوٹے بچوں سے ملتے ہیں، انہیں پڑھاتے ہیں، ان سے باتیں کرتے ہیں- ان کا لنچ شیئر کرتے ہیں تو یہ وقت ان کے لئے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں- ان لمحات کا جئے بہت مزہ لیتے ہیں-
جئے مانتے ہیں کہ ہر بچہ مختلف ہوتا ہے- ہر بچے میں انفرادی خصوصیت ہوتی ہے لیکن جب وہ ساتھ مل جاتے ہیں تو ایک خوبصورت دنیا بنتی ہے- جئے نے اپنے ادارے کی شروعات 32 بچوں کے ساتھ کی اور آج 360 سے زیادہ بچے ان کے ساتھ ہیں- ان بچوں کو جئے اپنا اچھا دوست بھی مانتے ہیں- یہ بچے بہت غریب ہیں- ان بچوں کے لئے زندگی کی بنیادی چیزیں پانا بھی مشکل ہوتا ہے- ان میں سے زیادہ تر بچے مڈ ڈے میل کے بھروسے رہتے ہیں- کئی بار چھوٹے چھوٹے بچے اس کھانے کو پیک کرکے اپنے گھر کے لئے بھی لے جاتے ہیں کیونکہ ان کے گھر میں کھانا نہیں ہوتا- ان بچوں کو محبت اور دیکھ بھال بھی اتنی نہیں ملتی جتنا انہیں درکار ہے - کیونکہ ان کے والدین گھر چلانے کے لئے دن رات کام میں لگے رہتے ہیں تو ان کے پاس بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی فرصت ہی نہیں ہے- نہ ہی وہ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ وقت بتانا کتنا ضروری ہے-
بچوں کی بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اچھی چیزوں سے بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں تو بری چیزوں سے بھی- اس لئے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بچوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ اچھی مثالیں پیش کریں -
یہ بچے جئے کے ساتھ اپنی خوشی اور اپنے دکھ بانٹتے ہیں- اپنے روز مرہ کی زندگی سے لے کر اپنے دوستوں اور اپنے گھر کے مسائل کو بھی بانٹتے ہیں- جس کا سبب یہ ہے کہ جئے صرف ان کے ٹیوٹر ہی نہیں بلکہ ان کے دوست بن کر بھی ان کی باتیں سنتے ہیں اور مدد کرتے ہیں- جئے اس بات کا بھی خیال رہتے ہیں کہ یہاں بچوں کا ذہنی نشونما بھی ہو- ان کے اندر سمجھ پیدا ہو-
مستقبل میں جئے اپنے گاؤں میں ایک اسکول کھولنا چاہتے ہیں- ساتھ ہی جئے سیاست بھی جوائن کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بچوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کر سکیں- فیلوشپ کے دوران جئے نے پونے میں 'پریورتن' نام کے ادارے کی شروعات کی- یہ ادارہ بچوں کے لئے کام کرتی ہے'پریورتن' کے تحت وہ ایک ماہانہ جلسہ کرتے ہیں جس کا نام انہوں نے 'بات چیت' رکھا ہے- جس میں وہ بچوں کے والدین سے بات چیت کرتے ہیں- فیلوشپ کے دوران انہوں نے بات چیت کے 'پانچ ایونٹس' منعقد کئے جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی-