دسویں پاس کشمیری نوجوان مشتاق احمد نے بنائی اخروٹ توڑنے والی مشین
دسویں پاس ہیں اننت ناگ ، کشمیر کے متوطن مشتاق احمد...ایک گھنٹے میں 150 کلو اخروٹ توڑتی ہے یہ مشین....'پورٹیبل کلائمبر' کے ذریعےدرخت اور کھمبوں پر چڑھنا ہوا آسان
اپنی سوچ کو حقیقت میں بدلنے کا ہنر مشتاق احمد سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ مشتاق احمد ایک کشمیری نوجوان ہیں لیکن ان کی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف دسویں جماعت پاس ہونے کا باوجود وہ کام کر دکھا یا ہے جس کی توقع آپ کسی انجنئرنگ کے شعبے سے جڑے کسی شخص سے ہی کرسکتے ہیں۔ کشمیر کے اننت ناگ علاقے کے رہنے والے مشتاق احمد ڈار نے ایسی مشین ایجاد کی ہے جو اخروٹ توڑنے کا کام کرتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے ایک ایسے 'پورٹیبل کلائمبر' کا ڈزائن بھی تیار کیا ہے جس کے ذریعے آسانی سے نہ صرف اونچے کھمبوں پر چڑھا جاسکتا ہے بلکہ درختوں پر چڑھنے کے لئے بھی یہ بہت کار آمد ہے۔
مشتاق کو بچپن ہی سے لکڑی کے کھلونے بنانے کا شوق تھا۔ وہ اپنے بنائے گئے ان کھلونوں کا استعمال اپنے گھر کی سجاوٹ کے لئے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے استاد کی نظر ان کے بنائے ہوئے کھلونوں پر پڑی تو انہوں نے مشتاق سے ایک کھلونا مانگ لیا۔ اپنے معلم کی اس طلب کی وجہ سے مشتاق کے اندر ایک عجیب قسم کی خود اعتمادی پید ا ہوگئی جس کے بعد انہوں نے کھلونوں کے علاوہ دوسری چیزوں پر بھی اپنی صلاحیت کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور اسی سمت انہوں نے کوششیں بھی شروع کردیں۔ مشتاق کا خاندان اخروٹ توڑنے کے کاروبار سے جُڑا ہوا تھا۔ جب وہ دسویں جماعت میں تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی اور اپنے گھر کے کاروبار کا کاروبار چلانے کے علاوہ دیگر گھریلو ذمہ داریاں بھی ان کے کندھوں پر آن پڑیں۔
مشتاق نے دیکھا کہ اخروٹ توڑنے میں کافی محنت درکار ہوتی تھی اور وقت بھی کافی لگتا تھا۔ واضح طور پر یہ ایک مشکل کام تھا۔ ایک گھنٹے میں بمشکل دس کلو اخروٹ توڑے جاسکتے تھے۔ تب ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ایسی مشین ایجاد کی جائے جو 6-5 افراد کا کام اکیلے کر سکے اور کسی کو چوٹ بھی نہ پہنچے؟ مشتاق کا کہنا ہے کہ "اخروٹ توڑنے میں کافی وقت برباد ہوتا تھا اور کئی مرتبہ اخروٹ توڑنے والے افراد کے ہاتھوں میں چوٹ لگ جاتی تھی۔ اس لئے میں نے مشین بنانے کا کام شروع کیا اور اسے بنانے میں لوگوں کی رائے بھی لی۔ " مشتاق کے ساتھیوں نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے وہ دن رات اس مشین کی ایجاد میں جُٹے رہے۔ انہیں کئی مرتبہ اپنی اس زیرِ ایجاد مشین میں تبدیلیاں بھی کرنی پڑیں لیکن تین برس کی مسلسل محنت اور لگن کے بعد آخر کار وہ اخروٹ توڑنے والی مشین بنانے میں کامیاب ہوہی گئے۔
مشتاق علی کا کہتے ہیں،"یہ کام بہت مشکل تھا کیونکہ مجھے ایسی مشین بنانی تھی جو نہ صرف اخروٹ کو توڑے بلکہ اس کے مغز کو بھی سلامت رکھے۔"
آج یہ مشین الگ الگ شکل اور حجم کے اخروٹوں کو نہ صرف آسانی سے توڑتی ہے بلکہ اس کے مغز کو بھی صحیح سلامت رکھتی ہے۔ اس مشین میں لکڑی کا رولر، موٹر اور پُلی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس مشین کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ مشین بجلی سے اور بغیر بجلی ،دونوں طرح استعمال کی جاسکتی ہے۔ اگر اس مشین کو بجلی سے چلایا جائے تو یہ ایک گھنٹے میں تقریباً 150 کلو اخروٹ توڑدیتی ہے۔ مشین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے اس کے نیچے پہئے لگے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں اخروٹ کا کاروبار ایک اہم صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں ہر سال ایک لاکھ میٹرک ٹن اخروٹ پیدا ہوتا ہے جو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی در آمد کیا جاتا ہے۔ مشتاق احمد ڈار کی اس ایجاد کی باعث ، ظاہر سی بات ہے ، کہ اس کاروبار کو پنکھ لگ جائیں گے۔
آج مشتاق کی ایجاد کردہ اس مشین کا استعمال کشمیر کے علاوہ حیدر آباد اور نیپال میں بھی ہورہاہ ے۔ اس کی قیمت کے بارے میں مشتاق کا کہنا ہے کہ یہ صرف 30 ہزار روپئے میں خریدی جاسکتی ہے۔
مشتاق کے نام صرف یہی ایک کامیابی درج نہیں ہے بلکہ انہوں نے ایک ایسے پورٹیبل کلائمبر کا ڈزائن بھی تیار کیا ہے جس کے ذریعے آسانی سے نہ صرف اونچے اونچے کھمبوں پر چڑھا جاسکتا ہے بلکہ اونچے درختوں پر چڑھنے کے لئے بھی یہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس بارے میں مشتاق بتاتے ہیں،" میں اپنے آس پاس دیکھتا تھا کہ بجلی کے اونچے اونچے کھمبوں پر چڑھنے کے لئے لوگ سیڑھیاں استعمال کرتے تھے جو نہ صرف کافی بھاری ہوتی تھیں بلکہ ان سیڑھیوں کو اُٹھانے کے لئے دو لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی ایسی چیز بنائی جائے جس سے اس پریشانی سے نجات مل سکے۔" آج مشتاق کے ذریعے ڈزائن کئے ہوئے'پورٹیبل کلائمبر' کو کوئی بھی شخص نہایت آسانی سے استعمال کرکے حفاظت کے ساتھ اونچے اونچے کھمبوں اور درختوں پر چڑھ سکتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ مشین وزن میں بھی کافی ہلکی ہے۔ تقریباً چار کلو وزن والی اس مشین کو ایک بیگ میں رکھ کر ادھر سے اُدھر لے جاتا جا سکتا ہے۔ مشتاق احمد ڈار کے ڈزائن کردہ 'پورٹیبل کلائمبر' کی ڈیمانڈ ملیشیاء میں کافی زیادہ ہے۔ ہندوستان میں اس میشن کے جلد ہی بازار میں آنے کی امید ہے۔ اس مشین کو احمد آباد کی ایک کمپنی تیار کر رہی ہے۔
مشتاق احمد بھلے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن انہوں نے اپنی اختراعی صلاحیتوں سے ثابت کردیا کہ اگر موقع ملے تو اپنی سوچ کو حقیقت میں بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
(یہ ہریش بشٹ کی ہندی کہانی کا ترجمہ ہے.)