کٹھن سفر کے ثابت قدم مسافر... باڈی بلڈرشہاب صدیقی
کہاجاتاہے کہ جو مضبوط ارادے رکھتے ہیں زندگی کی کٹھنائیاں انھیں مزید مضبوط بنادیتی ہیں۔ایسی ہی مثال پرانہ شہرحیدرآبادکے ایک حوصلہ مندنوجوان شہاب صدیقی کی ہے ،جو بلڈرشہاب سے معروف ہیں۔ شہرمیں ان کے دوفٹنس جم ہیں۔پرانہ شہرکے مرکزی اوراہم تجارتی علاقہ پتھرگٹی میں عبدالمقتدرصدیقی کے گھرشہاب الدین صدیقی اکٹوبر؍1984میں پیداہوئے۔ شہاب صدیقی کا تعلق ایک صوفی مشائخ گھرانے سے ہے ان کے داداجاگیردارمنصب داراورمتمول شخص تھے، لیکن سقوط حیدرآباد (1948)اور اس کے بعد ان کے داداکے انتقال نے شہاب صدیقی کے والدسے سب کچھ چھین لیااور غربت اورمصائب کے تنگ دائرے نے انھیں گھیرلیا۔
اپنے دس بھائیوں بہنوں میں ایک شہاب صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد گھرکی معاشی ضروریات کی تکمیل کےلئے اپنے کم عمر کاندھوں پرباراٹھالیاتھا۔ان کاکہناہے کہ وہ نہ صرف کمسن تھے بلکہ کافی دبلے بھی تھے۔ان کے دبلے پن پراکثرانھیں مزاحیہ طورپرستایابھی جاتاتھا۔لیکن یہ مذاق اور ستایاجانا شہاب صدیقی کےلئے ایک ایسا جوش اور ولولہ ثابت ہوا جس کے بعد انھوں نے یہ ٹھان لیاکہ وہ ایک بہترین باڈی بلڈر بنیں گے۔شہاب صدیقی نے ارادہ توکرلیاتھا لیکن وہ ایک ایسے وقت سے گزررہے تھے، جب کہ ان کے کاندھوں پرنہ صرف اپنے گھرکی ذمہ داریاں تھیں بلکہ انھوں نے مدینہ مارکٹ میں واقع قدیرکیاپ مارٹ میں بحیثیت سیلزمین ملازمت اختیارکرلی تھی۔
شہاب صدیقی اپنے جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے کہتے ہیں ،
''جب ہفتہ بھرکافی محنت کے بعد 250روپئے ملے تو خوشی کی انتہاء نہیں تھی۔اپنی ملازمت سے جڑچکا تاتھا ، کافی محنت ومشقت کے باوجود یہ اجرت کم تھی ،لیکن اس وقت یہ رقم بھی میرےلئے کافی اہم تھی۔زندگی کی گاڑی آگے بڑھنے لگی وقت آہستہ آہستہ گزرتاگیا، میری دبلےپن کو لےکر بے چینی بھی بڑھنے لگی۔میرے اندرایک جوش تھا جو امجھےبے چین رکھتاتھا۔میں ایک بہترین باڈی بلڈربنناچاہتاتھا۔''
ان کاکہناہے کہ وسائل فراہم ہوں اور اگرکوئی کچھ بنناچاہے تو یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ لیکن جب آپ کےلئے ایسا ماحول یا ایسی سہولیات فراہم ہی نہ ہوں کے آپ اپنے مقصدکو حاصل کریں تب اس طرح کے حالات آپ کے مقصدکے حصول کیلئے ایک چیلنج بن جاتے ہیں ۔ایسی ہی صورتحال کا سامناشہاب صدیقی کو تھا۔ مقوی غذاء، اچھی نیندوضروری آرام اور ان سب کےلئے درکاروقت واخراجات ایک باڈی بلڈربننے کے تقاضے میں شامل ہیں۔چنانچہ ان دنوں شہاب صدیقی اس موقف میں نہیں تھے کہ وہ تقاضوں کی تکمیل کرسکیں۔ان کاکہناہے کہ وہ دن بھرکیاپ مارٹ میں محنت کے بعد جب گھرلوٹتے تو ان کا جسم تھکاہوا اور پیرسوجے ہوئے ہوتے تھے۔اس کیفیت میں رات کاکھانہ اور اس کے بعد نیندکے علاوہ کچھ بھی نہ سوجھتا۔
اسی طرح شہاب صدیقی کے شب وروز گزرتے گئے اور تین چاربرس کب نکل گئے پتہ ہی نہ چلا۔اس دوران ان کی اجرت میں بھی اضافہ ہوالیکن اس کے باوجودگھرکی ذمہ داریوں کے تحت یہ ناکافی تھا۔ اس دوران انھوں نے ملازمت کے علاوہ قدیرکیاپ مارٹ سے چارہزار روپئے کامال حاصل کیاتاکہ وہ دینی جلسوں میں اپنا اسٹال لگاسکیں اور آمدنی میں کچھ اضافہ ہوسکے۔شہاب صدیقی کہتے ہیں کہ ایک جانب وہ دن میں دکان پرملازمت کرتے تو دوسری جانب عشاء کی نمازکے بعد نماز کی ٹوپیوں، مسواک،شال، تسبیح وغیرسامان کا دینی جلسوں میں اسٹال لگاتے۔ چونکہ دینی جلسے ہرروز نہیں ہوتے مگر شہاب صدیقی شہرومضافات کے ہرچھوٹے بڑے دینی اجتماع کی تلاش میں رہتے اورمہینے میں کم ازکم پندرہ روزکہیں نہ کہیں اپنے اسٹالس لگایاکرتے۔
شہاب کی محنت ومشقت نے ان کی آمدنی میں اضافہ ضرورکردیاتھا لیکن اب بھی وہ اس سے مطمئین نہیں تھے۔ایک جانب اپنے گھرکی معاشی ضروریات کی تکمیل کیلئے آمدنی میں اضافہ کرنا ان کا مقصدتھا تو دوسری جانب باڈی بلڈربنے کا خواب زندگی کے شب وروز میں دھندلاہورہاتھا۔ شہاب صدیقی کہتے ہیں کہ ان دنوں میں انھوں نے یہ ٹھان لیاکہ اب وہ نہ صرف خود اپنا بزنس شروع کریں گے بلکہ باڈی بلڈربنے کی بھی تیاری کریں گے۔انھوں نے ارادہ کرلیاکہ وہ مشکلات کے باوجود فٹنس جم میں داخلہ لیں گے اور ایک بلڈربنتے ہوئے خودکا فٹنس جم کھولیں گے۔
''یہ وہ وقت تھا جب مرےے پاس اپنے اسٹال کے چھہ آٹھ ہزار روپئے کے مال کے علاوہ کچھ نہیں تھا جبکہ ایک جم کھولنے کےلئے لاکھوں روپئے درکارتھے۔اس وقت لاکھوں روپئے کی فراہمی ان کےلئے آسمان سے تارے توڑلینے سے کم نہ تھا۔ میں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی کہ میرے پاس جم کھولنے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن میں نے یہ مضبوط ارادہ کرلیاکہ میں پہلے خودایک باڈی بلڈربنوں گا اور ضرورایک فٹنس جم بھی کھولوں گا، میں نے اللہ پربھروسہ کیااور اپنے مقصدکو پانے کے لیے محنت کا آغازکردیا۔''
ایک برس کے وقفہ میں ایک دبلا پتلا نوجوان بغیرکسی سپلیمنٹ کے ایک باڈی بلڈربن گیا جس کو اب باڈی بلڈنگ کے مقابلوں میں مدعو کیاجانے لگا۔شہاب صدیقی جس فٹنس جم میں اکسائز کیاکرتے تھے وہیں پرانھیں کوچ کے طورپرملازمت مل گئی۔اب شہاب صدیقی پرروزانہ تین ذمہ داریاں تھیں۔ کیاپ مارٹ کی ملازمت، اسٹالس لگانا اور فٹنس جم پرکوچ کی خدمات اداکرنا۔
اپنے مقصدکو حاصل کرنے کےلئے ایک حوصلہ لیے اس نوجوان کاکہناہے کہ تین ذمہ داریوں کی ادائیگی ان کے لیے بہت مشکل تھی لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔دوتین برس ایسے ہی انھوں نے لگن اور جستجوسے کام کیا اور کچھ رقم جمع کرلی اب وہ چاہتے تھے کہ ایک جم کھولیں لیکن رقم بہت ہی کم تھی۔اس دوران ان کے ایک ساتھی نے ان کی مددکی اور شہاب صدیقی نے انس فٹنس جم کے نام سے پرانہ شہرمیں اپنا ایک چھوٹاساجم کھول لیا۔شہاب صدیقی نے نہ صرف ایک جم کا آغازکیا بلکہ وہ شہرکے بہترین باڈی بلڈرس میں شماربھی کیے جانے لگے ۔شہاب صدیقی نے 2008ء میں 100پلس کے ذمرے میں مسٹرسکندرآبادکاٹائٹل جیتا، 2009ء میں مسٹرگریٹرحیدرآباد ، اس کے بعد مسٹرتلنگانہ میں دوسرامقام حاصل کیااور2012ء میں مسٹرایم آئی ایم کا ٹائٹل انھوں نے حاصل کیا، اس کے بعد مسٹرراجیوگاندھی باڈی بلڈنگ مقابلہ میں پہلامقام حاصل کیا۔ان ٹائٹلس کے علاوہ انھوں نے کئی ایک مقابلوں میں اعزازحاصل کیے۔
شہاب صدیقی آج دوفٹنس جم کے مالک ہیں۔ایک میرعالم ٹینک روڈ پرواقع ہے اور دوسراحسینی عالم میں انس فٹنس جم کے نام سے واقع ہے، اس کے علاوہ شہرکے کئی جموں میں بطوراسپیشل کوچ وزٹ بھی کرتے ہیں۔ڈھائی سوروپے ہفتہ واراجرت حاصل کرنے والے ایک کم عمرنوجوان نے اپنی منزل تلاش کرلی اور آج وہ نہ صرف ایک خوبروبہترین باڈی بلڈرہے بلکہ وہ لاکھوں روپئے کے بزنس کا مالک بھی ہے۔
شہاب صدیقی شہرت اور ٹائٹل حاصل کرنے کو اہمیت نہیں دیتے ۔وہ کہتے ہیں کہ خودنمائی کیلئے بے ضرورت تشہیر انسان کو مغرورکردیتی ہے اور غروراکثرانسان کو اپنے ماضی سے دورکردیتاہے اور لوگ اس سے دورہونے لگتے ہیں اور یہ انسان کے گرجانے کی نشانی ہوتی ہے۔اپنے دونوں فٹنس جمس میں شہاب صدیقی باڈی بلڈنگ کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کواکسائز کی ماہرانہ تربیت فراہم کرتے ہیں اور انھیں باڈی بلڈنگ مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے ضروری رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ نوجوان اس میدان میں بھی آگے بڑھیں جس کے ذریعہ ریاست اور ملک کانام روشن کیاجاسکے ۔
یقیناًشہرحیدرآبادکے بلڈرشہاب صدیقی نے یہ ثابت کردیاہے کہ اگرجستجواور لگن سچی ہو تولاکھ مشکلیں اور پریشانیاں بھی انسان کو اس کی منزل مقصودپانے سے روک نہیں سکتیں اورجو محنت کرتاہے وہ اپنی زندگی میں کامیابی ضرورحاصل کرتاہے۔
کچھ اور دلچسپ کہانیوں کے لئے FACEBOOK پر جائیں اور لائک کریں۔
یہ کہانیاں بھی ضرور پڑھیں۔
سبحان بیکرس نئی اڑان کے لئےتیار۔۔۔ گھر اور بچے ہی ہیں کامیابی کی تجربہ گاہ