اپنا تو پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے... آرٹ کو عام لوگوں تک پہنچاتا ایک جوڑا
مہاتما گاندھی کہتے تھے کہ اپنے ملک کو جاننے کے لئے ملک بھر میں گھوما کرو اور اس دور میں لوگوں نے ان کی بات مان بھی لی- یہ بات گزشتہ صدی کی ہے - اکیسویں صدی میں نوجوانوں نے اس میں ایک بات اور جوڑ دی - ملک ہی نہیں بلکہ خود کو بہتر طریقے سے جاننے اور اپنے فن کو بہتر بنانے کے لئے سیروسیاحت کرنا- گھوم گھوم کر آرٹ کو نیا طول و عرض دینے والے ایسے ہی ایک جوڑے میناکشی اور سشیل ان دنوں دہلی میں فن شناس اشخاص سے لے کر فن کے قدر دانوں تک کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں -
عام ہندوستانی کی دلچسپی سے لے کر کیریئر کے موضوع تک سے آرٹ بھلے ہی باہر ہو گئی ہو، لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ ایسےبھی ہیں جو آرٹ کو بڑے گھروں کے مہمان خانوں سے غریب کی چوکھٹ تک پہنچانے کا بیڑا اٹھاۓ ہوئے ہیں - ایسے ہی لوگوں میں ایک ہیں جو بلیٹ کی سواری کرتے ہیں - گھروں، اسکولوں، جیلوں اور دیہات میں جا کر فن کو عام لوگوں کے درمیان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں - جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں میناکشی اور سشیل جئے کی -
فن کے بدلتے ہوئے معنی اور کروڑوں روپیوں کے فن پاروں کی خبروں کے بیچ بھی یہ جوڑا فن کو نہ صرف عام لوگوں تک پہنچا رہا ہے بلکہ آرٹ کو ان سے منسلک بھی کر رہا ہے - دہلی کے ہبٹیٹ سینٹر( centre habitat ) میں میناکشی اور سشیل جئے نے اپنی پہلی نمائش لگائی ہے - اس نمائش میں انہوں نے نہ صرف کینوس بلکہ روزمرہ میں استعمال ہونے والا سامان بھی رکھا ہے، جسے میناکشی نے ایک فنکارانہ انداز دے دیا ہے - روز مرہ کے ان سامانوں کو اس جوڑے نے ان سے لیا ہے جن کے یہاں سیروسیاحت کے دوران رک کر انہوں نے پینٹنگ کی - چاہے وہ ایک جھاڑو ہو، بانسری ہو، پرانے کیمرے ہوں، کرشن کی ٹوٹی ہوئی مورتی ہو یا پھر ایک ڈی ایس پی کی ٹوپی ہو- ہر چیز کی اپنی ایک کہانی ہے - اس منفرد کانسپٹ کے بارے میں میناکشی بتاتی ہیں کہ فن کے لئے کوئی خاص قسم نہیں ہے اور نہ ہی آرٹسٹ بننے کے لئے کسی خاص قابلیت کی ضرورت ہے - فن سب کے لئے ہے اور سب میں ایک فن کار ہے - میناکشی کے مطابق 'آ رٹولاگ کا کانسپٹ' یہ ہے کہ ہر شخص فنکار ہے یا اس میں آرٹسٹ بننے کے ا مکانات ہیں - آرٹ صرف پینٹ کرنا نہیں ہے بلکہ کوئی اگر اچھا کھانا پکاتا ہے تو وہ بھی آرٹسٹ ہے - ایک سرجن جو آپریشن کرتا ہے، اس میں بھی ایک آرٹ ہے - ہم سب آرٹسٹ ہیں اگر ہم کوشش کریں -
ہم سب آرٹسٹ
میناکشی کہتی ہیں کہ ایک سوچ بن گئی ہے کہ عام لوگ آرٹ نہیں سمجھتے ہیں یا آرٹ صرف کچھ لوگ سمجھ سکتے ہیں - اس متھ (غلط عقیدہ )کو توڑنے کے لئے ہم نے اپنا کانسپٹ رکھا "آرٹ فار آل" یعنی فن سب کے لئے - سشیل اور میناکشی یعنی ہماری جوڑی اس کی اچّھی مثال ہے -سشیل پیشے سے صحافی ہیں اور انہیں پڑھنا لکھنا، بلیٹ موٹر سائیکل ہری بھری کے ساتھ گھومنا پسند ہے - (یہ نام بلیٹ کے سبز رنگ کی وجہ سے پڑا ہے) تو وہیں میناکشی کو رنگوں کے ساتھ نئے-نئے تجربات کرنے میں انتہائی لطف آتا ہے - برش اور رنگ کے ساتھ میناکشی اپنے تصورات دیواروں پر، کینوس پراکیرتی ہیں - میناکشی کے ساتھ رہتے رہتے سشیل نے بھی پینٹنگ کی سمجھ حاصل کر لی ہے - سشیل کہتے ہیں کہ، میں پینٹر نہیں ہوں لیکن مجھے میناکشی کی پینٹنگز میں دلچسپی تھی کیونکہ وہ مجھے رنگ کے بارے میں بتاتی آئی ہے - مجھے لگا جب میں آرٹ سمجھ سکتا ہوں تو ہر انسان اسے سمجھ سکتا ہے۔
دلچسپ آغاز
اپنے آپ کو آرٹ والے لوگ بتانے والی اس جوڑے کی شروعات بھی بڑی دلچسپ رہی - سشیل کے مطابق اس کی شروعات ایک رومانٹک بلیٹ سواری سے ہوئی - وہ دونوں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے اپنی ہری بھری بلیٹ سے کھانا کھا کر واپس آ رہے تھے - سواری کے دوران ہی میناکشی نے کہا کہ وہ ایسی کوئی فیلو شپ چاہتی ہے جس میں صرف گھوم گھوم کر پینٹ کرنا ہو - اس کے جواب میں سشیل نے کہا کہ ایسی فیلوشپ تو ضرور ہے لیکن ایسی کوئی فیلو شپ نہیں جہاں بلیٹ سے گھومنے کے لئے پیسے ملتے ہوں ان کے مطابق اس بات کو کچھ دن گزر جانے کے بعد دوبارہ دونوں نے اس موضوع پر بات چیت کی - دونوں کو یہ خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے دوستوں کے گھر ملنے جائیں - وہاں جاکر پینٹنگ کریں اور ان کے اندر پینٹنگ کی سمجھ پیدا کریں - اس طرح ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام ہو جاۓ گا اور ایک نیا شہر بھی گھوم لیں گے - سشیل کہتے ہیں، مجھے کسی شہر میں جا کر تصویر کھینچنے کا شوق نہیں ہے - مجھے لوگوں سے ملنا اور بات کرنا پسند ہے - مجھے لگا کہ یہ خیال ٹھیک ہے - میناکشی پینٹ کرے گی - میں لوگوں سے باتیں کروں گا - اس کے بعد ہم نے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا اور سب سے پہلا کام ممبئی اور گوا میں کیا - اس کے بعد تو قطار لگ گئی - اسی خیال کے ساتھ سشیل اور میناکشی اب تک 12 ریاستوں میں جا کر 40 سے زائد پینٹنگ بنا چکے ہیں - سشیل، میناکشی اور ہری بھری کئی ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں- ان کے ٹھہرنے کی جگہوں میں خاندانوں کے گھر تو شامل ہیں ہی - اس کے ساتھ سرکاری اسکول، نجی اسکول، یتیم خانے، جیل، پولیس تھانہ، قبائلی گاؤں سے لے کر' اسپاانل انجری سینٹر' (ایسے لوگوں کا مرکز جہاں ریڑھ کی ہڈی کے مسئلہ سے دوچار مریض رہتے ہیں) سے لے کر اسپیشلی ایبلڈ کڈز تک شامل ہیں - سشیل کو موٹر سائیکل چلانا اور نظمیں لکھنا پسند ہے وہ پینٹنگ کے لئے نئے -نئے تصورات بھی پیش کرتے ہیں، جسے میناکشی کینوس پر اتار دیتی ہیں-
'انڈیا ہیبی ٹیٹ سینٹر' میں ان کی پہلی نمائش کو لوگوں نے کافی سراہا ساتھ ہی ان کے سیاحت کی لوگوں نے خوب تعریف کی - خاص طور پر ان کے اوپن کینوس کے خیال کو اچّھا رسپونس ملا - اس طرح کے رد عمل کے بعد میناکشی کہتی ہیں، 'دہلی میں ہمارے بہت سارے دوست ہیں اور جان پہچان کے لوگ بھی ہیں جو ہمارے کام کے بارے میں جانتے تھے - وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم ان کے گھر جائیں - اب یہ ممکن نہیں کہ ہم ہر گھر میں جائیں - اصل میں دہلی میں لوگوں کے پاس وقت نہیں کے برابر ہے - وہ بس کہہ دیتے ہیں لیکن ہمیں لگا کہ کچھ لوگ واقعی اس سے جڑنا چاہتے ہی - اسی وجہ سے ہم نے اپنی نمائش میں بھی کینوس رکھا تاکہ لوگ آئیں پینٹ کریں اور محسوس کریں کہ ہم کیا کرتے ہیں - پہلے ہم نے 25 فٹ کا کینوس رکھا تھا - ہمیں لگا کہ یہ ایک ماہ چل جائے گا لیکن وہ کینوس دس دن میں بھر گیا تو ہمیں نیا کینوس خریدنا پڑا - دوسرا بھی تقریبا نصف بھر گیا ہے - نمائش کو غیر ممولی مثبت ردعمل حاصل ہو رہی ہے - کچھ لوگ آکر گلے لگا کر جاتے ہیں- بچے پینٹ کر کے شکریہ بولتے ہیں - مجھے لگتا ہے کہ ہم اور لوگوں سے جڑ رہے ہیں-
میناکشی اور سشیل آگے بھی اس پروجیکٹ کو اسی طرح سے چلانا چاہتے ہیں لیکن انہیں ایسی فیلوشپ کا انتظار جس میں انہیں دنیا بھر میں گھوم -پھر کر پینٹنگ کرنے کا موقع ملے - میناکشی کافلسطین اور واگھابارڈر پر پینٹ کرنے کا خواب ہے - میناکشی اور سشیل کہتے ہیں ،کسی بھی علاقے کے آرٹ اور ثقافت کے بارے میں جاننے کا بہترین طریقہ سیاحت ہے - ساتھ ہی ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ نئی جگہ گھومنے سے وہ ایک بہتر انسان اور بہتر آرٹسٹ بن پائیں گے - دونوں مانتے ہیں کہ فی الحال انہیں کسی طرح کی مالی مدد نہیں مل رہی ہے لیکن اگر کسی کے یہاں پینٹنگ کے بدلے کچھ پیسے مل جاتے ہیں تو وہ انکار نہیں کرتے-