قومی ایوارڈ یافتہ کشمیری پیپر ماشی کاریگر سید مقبول حسین میں اپنی خاندانی وراثت سے محبت کا انوکھا جذبہ
وادی کشمیر کی صدیوں پرانی اور عالمی شہرت یافتہ دستکاریاں جیسے پیپر ماشی، شالبافی، قالین بافی، ہینڈ لوم، ختم بند، ووڈ کارونگ، نمدہ سازی اور گبہ سازی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں اور موجودہ وقت میں جو کاریگر اِن دستکاریوں سے وابستہ ہیں، اُن میں سے بیشتراس لئے اپنی وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ 'اِن دستکاریوں سے وابستگی انہیں اپنے اباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہے'۔ اِن ہی ہم خیال کاریگر میں ایک سری نگر کے شہر خاص کے علمگری بازار کے رہنے والے سید مقبول حسین رضوی ہیں ۔ وہ گذشتہ تیس برسوں سے پیپر ماشی کے فن سے وابستہ ہیں جبکہ مقبول حسین کے بقول پیرماشی کا فن اُن کی کئی پیڑیوں سے منتقل ہوکر اُن تک پہنچا ہے۔ مقبول حسین نے اب تک 20 افراد کو پیپر ماشی کا فن سکھایا ہے اور جنہیں سکھایا ہے وہ بھی اس فن میں ماہر بن گئے ہیں۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ اس فن کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے انہیں مسلسل پیسوں کی تنگی کا سامنا رہا ہے اور سینکڑوں بار ایسی صورتحال سامنے آئی جہاں انہیں لگا کہ کنارہ کش ہونا ہی بہتر ہے۔ کہتے ہیں 'اس فن کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے گھر کا چالو جلانا بہت مشکل ہے کیونکہ ایک ماہر پیپر ماشی کاریگر کی ایک دن کی آمدنی اڑھائی سو روپے سے زیادہ نہیں ہوگی'۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں 'چونکہ خاندانی وراثت ہے، اس لئے میں چھوڑ بھی نہیں سکتا ۔'
تاہم مسلسل کئی برسوں تک مشکل وقت دیکھنے کے بعد سید مقبول حسین نے گذشتہ چند برسوں کے دوران بڑے اچھے دن بھی دیکھے۔ انہیں سال 2015 کے دسمبر میں ملک کے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے اپنے ہاتھوں سے پیپر ماشی کے فن میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر قومی ایوارڈ برائے سال 2014 پیش کیا۔ نئی دہلی کے وگیان بھون میں منعقدہ اس تقریب میں سال 2012ء، 2013 ء اور 2014 ء کے لئے 21 ماہر دستکاروں کو شلپ گرو ایوارڈاور 59 ماہر دستکاروں کو قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پریس انفارمیشن بیورو کی ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ ایوارڈ دینے کا مقصد ماہر دستکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ مقبول حسین کو یہ قومی ایوارڈ ایک خوبصورت و دلکش فلاور واس (گلدان) بنانے کے لئے دیا گیاجس کو تیار کرنے میں انہیں کم از کم چار ماہ کا عرصہ لگا تھا۔ قومی ایوارڈ کے علاوہ مقبول حسین کو پیپر ماشی کے فن میں ریاستی سطح کا ایوارڈ بھی ملا ہے۔ مقبول حسین نے گذشتہ تین برسوں کے دوران تقریباً 15 سے 20 نوجوانوں کو پیپر ماشی کا فن سکھایا ہے۔ اور اُن کا کہنا ہے 'جنہیں سکھایا وہ اس وقت اس فن میں بہت ہی ماہر ہیں۔'
قومی ایوارڈ کا سبب بننے والا گلدان
سید مقبول حسین پیپر ماشی کے فن کے استاد ہونے کے علاوہ ایک ماہر مصوراور خطاط بھی ہیں۔ انہوں نے قومی ایوارڈ کا باعث بننے والے گلدان کی تخلیق کرتے وقت پیپر ماشی کے فن کے ساتھ ساتھ انہیں حاصل مصوری اور خطاطی کی مہارت کو بھی موثر طریقے سے بروئے کار لایا ہے۔ انہوں نے کیسے اور کتنے وقت میں ایوارڈ کا باعث بننے والے گلدان کو تیار کیا، کے بارے میں وہ تفصیل سے کہتے ہیں
'میں نے اُسے پیپر پلپ (کاغذوں کے گودے) سے بنایا ہے۔ پیپر پلپ سے مراد ہے کہ پرنٹنگ پریس میں کاغذوں کی کٹنگ کے دوران جو فضلہ باہر نکلتا ہے ، اسے میں نے دو سے تین دنوں تک پانی میں بھگوئے رکھا، اس کے بعد اس کے ساتھ ابلے ہوئے چاول کا پانی ملایا، صحیح سے گوندھنے کے بعد سانچے پر لگاکر فلاور واپس کی شکل دی۔ اس کے بعد گلدان پر موجود چکناہٹ کو دور کرنے کے لئے چاک مٹی کا استعمال کیا اور بالآخر پینٹنگ برش سے فن کا مظاہرہ کرنے سے قبل گلدان پر روغن چڑھایا۔'
مذکورہ گلدان پر خوبصورت اور دلکش رنگ بکھیرنے اور اسے فنشنگ ٹچ دینے کے بارے میں وہ کہتے ہیں 'میں نے اس گلدان کو ایرانی طریقے سے ڈیزائن کیا اور ساتھ ہی مغل پینٹنگس بھی بنائیں۔ اس پر میں نے مغل خاندان کو امیر تیمور سے بہادر شاہ ظفر تک دکھایا۔ اس پر میں نے خطاطی کے ہنر کا بھی استعمال کیا۔ اس فلورل واس (گلدان) کو میں نے کم از کم چار ماہ میں تیار کیا۔ میں ہر روز دو سے تین گھنٹے اس فلورل واس پر صرف کرتا تھا۔'
قومی ایوارڈ کے لئے نامزدگی
سید مقبول حسین کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ بارہ برسوں سے مسلسل اس ایوارڈ کے لئے اپنے تیار کردہ ماسٹر پیسز (کرتیوں) کو جمع کراتا آیا تھا اور بالآخر انہیں سال 2014 میں کامیابی نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں,
'یہاں سری نگر میں وزارت ٹیکسٹائل (ہینڈی کرافٹس) ہر سال پیپر ماشی کے فن اور دیگر دستکاریوں میں ماسٹرس پیسز (کرتیاں) رکھنے والے کاریگروں کو قومی ایوارڈ کے لئے نامزدگیاں داخل کرنے کو کہتی ہے۔ قومی ایوارڈ برائے سال 2014 کے لئے کم از کم 130 نامزدگیاں داخل کی گئی تھیں جن میں سے صرف پانچ کاریگروں کے ماسٹر پیسز (کرتیوں) کو معیار کی بنیاد پر نئی دہلی میں مرکزی وزارت کو بھیجا گیا تھا جہاں میرے ماسٹر پیس کو قومی ایوارڈ کے لئے چنا گیا۔'
مقبول حسین نے پیپر ماشی، مصوری اور خطاطی کے ساتھ جڑے اپنے تیس سالہ سفر کے دوران کل 15 ماسٹر پیسز (کرتیاں) تیار کئے ہیں جن میں سے کچھ انہوں نے پیسوں کی تنگی کی وجہ سے فروخت کئے ہیں۔ 'میں نے اب تک قریب 15 ماسٹر پیسز (کرتیاں) تیار کئے جن میں سے میں نے کچھ فروخت کئے ہیں۔ فی الوقت میرے پاس پانچ سے چھ ماسٹر پیسز موجود ہیں۔ میرے پاس ایک بہت ہی دلکش ماسٹر پیس تھا جس کو میں پیسوں کی ضرورت کی وجہ سے تیس ہزار روپے کی معمولی رقم میں فروخت کردیا۔ تاہم ایک قابل بیان بات ہے کہ اُس کے بعد میں نے اپنے ماسٹر پیسز کو فروخت کرنا بالکل بند کردیا۔ اب میرے پاس جتنے بھی ماسٹر پیسز ہیں یہ ناٹ فار سیل ہیں۔'
مقبول حسین کو ملنے والا قومی ایوارڈ ایک دستکاری کاریگر کو زندگی میں صرف ایک بار دیا جاتا ہے۔ انہیں اس ایوارڈ میں ایک لاکھ روپے، تانبے کا میڈل اور ایک سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں 'یہ قومی ایوارڈ ہر سال دیا جاتا ہے تاہم کشمیر میں کس دستکاری کے کاریگر کو دیا جائے گا، کا فیصلہ مرکزی وزارت کرتی ہے۔ یہ ایوارڈ ایک کاریگر کو زندگی میں صرف ایک بار دیا جاتا ہے۔ ایوارڈ میں ہمیں ایک لاکھ روپے مالیت کی چیک، تانبے کا میڈل اور ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ مجھے اسٹیٹ ایوارڈ بھی ملا ہے جس میں مجھے پچاس ہزار روپے مالیت کی چیک اور ایک سرٹیفکیٹ ملی ہے۔'
خاندانی وراثت
سید مقبول حسین کا کہنا ہے کہ انہیں اور اُن کے دیگر اہل خانہ کو پیپر ماشی کا فن وراثت میں ملا ہے جبکہ خاندان میں چھوٹے بچوں سے لیکر بڑوں تک ہر ایک اس فن میں مہارت رکھتا ہے۔ انہوں نے خود صرف میٹرک (دسویں جماعت) تک پڑھا ہے اور اب پیپر ماشی کا فن گذشتہ 30 برسوں سے اُن کی روزی روٹی کا ذریعہ بنا رہا ہے۔ کہتے ہیں 'مجھے یہ فن وراثت میں ملا ہے۔ میرے والد مرحوم سید ابوالحسن رضوی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔ وہ وادی کے ایک مشہور خطاط تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پیپر ماشی کے فن کے واقف کار استاد تھے۔ اُن سے سینکڑوں کی تعداد میں کاریگروں نے پیپرماشی اور خطاطی کے فنون سیکھے ہیں۔ وہ انتہائی سادہ لوح، شریف النفس ، خدا دوست اور محنتی انسان تھے۔ وہ عربی اور فارسی زبانوں کے مایہ ناز خطاط تھے اور پیپر ماشی کے فن میں اُن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے کم از کم ڈیڑھ سو لوگوں کو پیر ماشی کا فن سکھایا تھا۔ آج کل مارکیٹ میں پیپر ماشی کے جو ڈیزائن ہیں، اُن میں سے بیشتر اُن ہی کے تخلیق کردہ ہیں۔ اس کے علاوہ میرے والد صاحب کشمیر کی ایک معروف روحانی شخصیت بھی تھی اور وادی کے اطراف واکناف سے لوگ فیض حاصل کرنے کے لئے اُن سے رجوع ہوتے تھے۔ انہیں انتقال کئے ہوئے آٹھ سال گذر گئے ہیں۔'
مقبول حسین کے پر دادا سید علی رضوی جو ایک مشہور خطاط اور پیپر ماشی کے کاریگر تھے، نے ایران کے مشہور شاعر ابوالقاسم فردوسی کی تخلیق کردہ 'شاہ نامہ فردوسی' کو اپنے قلم سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ تحریر کیاہے۔ اڑھائی سو سال قبل تحریر کی گئی اس 'شاہ نامہ'جو اس وقت مقبول حسین کے پاس موجود ہے، کو دیکھنے کے لئے بہت سے لوگ اُن کے پاس آتے ہیں۔ 'میرے پاس شاہ نامہ فردوسی ہیں۔ یہ میرے پر دادا سید علی رضوی جو ایک مشہور خطاط تھے، نے اڑھائی سو سال قبل اپنے ہاتھ سے تحریر کی ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے کشمیر یونیورسٹی اور دوسرے اداروں سے لوگ آتے رہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں میرے والد صاحب سید ابوالحسن رضوی نے بھی صحیفہ سجادیہ نامی مذہبی کتاب کو اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ہے۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اس پر نقشہ نگاری کا کام کروں، جو میں انشااللہ بہت جلد شروع کروں گا۔ میں یہ دونوں کتابیں ہر ایک کو دیکھنے کے لئے دیتا ہوں مگر جب کوئی ساتھ لے جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو میں معذرت ظاہر کرتا ہوں۔'
خاندانی وراثت کی منتقلی کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقبول حسین کے گھر کا ہر ایک فرد پیپر ماشی کے فن سے آشنا ہے۔ کہتے ہیں 'ہم چار بھائی ہیں اور چاروں پیپر ماشی کا کام جانتے ہیں، عورتوں میں میری بیوی اور میرے بھائی کی بیوی پیپر ماشی کے آرٹ میں بہت ہی ماہر ہیں۔' مقبول حسین کے دو بچے ہیں جن میں اُن کی 10 سالہ لڑکی سید پاکیزہ رضوی پانچویں جماعت جبکہ 8 سالہ لڑکا سید معظم حسین رضوی تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں اور دونوں پینٹنگ کا فن بخوبی جانتے ہیں۔
آمدنی کا مسئلہ
مقبول حسین پیپر ماشی مصنوعات تیارکرنے کے بعد خود ہی فروخت کرتے ہیں، گاہک اور اس فن سے جڑے تاجر براہ راست اُن سے رجوع ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر میں ہی اپنی تخلیقات کا ایک خوبصورت شو روم بنا رکھا ہے۔ تاہم مقبول حسین کے بقول اس فن کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے گھر کا چالو جلانا بہت ہی مشکل ہے۔ کہتے ہیں 'میری ماہانہ آمدنی آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ پیسوں کی تنگی کی وجہ سے میں ہر روز سوچتا ہوں کہ مجھے اس کام سے دستبردار ہونا چاہیے۔ چونکہ خاندانی وراثت ہے، اس لئے میں اس کام کو چھوڑنے کا حتمی فیصلہ نہیں لے پایا ہوں۔ مجھے بار بار یہ افسوس ہوتا ہے کہ میں نے زیادہ پڑھا کیوں نہیں ہے، کیونکہ جو اسکول میں میرے ہم جماعت تھے، وہ اس وقت بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ میں پہلے پہلے لائیو خاکے بناتا تھا لیکن جب قدردان نہیں ملے تو میں نے وہ بنانے بھی چھوڑ دیے۔ اب صرف وہی چیزیں بناتا ہوں جو مارکیٹ میں چلتی ہیں۔ مارکیٹ میں زیادہ تر بوکس، کشتیاں، کشمیری سماوار، قلمدان وغیرہ وغیرہ فروخت ہیں کیونکہ ان کی قیمت بہت ہی کم ہوتی ہے۔'
نوجوان اس فن سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں مگر!
پیپر ماشی کے فن میں قومی ایوارڈ یافتہ مقبول حسین کا کہنا ہے کہ وادی بالخصوص سری نگر میں آج بھی بہت سے نوجوان اس فن سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس فن سے وابستہ ہوتے ہوئے محنت کے مقابلے میں اجرت بہت ہی قلیل ہے۔ 'بہت سارے نوجوان کے دل اس آرٹ کے لئے دھڑکتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس فن کے ساتھ وابستہ ہوجائیں۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس فن کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعدضروریات زندگی کو پورا کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اگر کوئی نوجوان اس فن کو اپنا پیشہ اختیار کرتا ہے اور اس میں ایک ماہر استاد بن جاتا ہے تو بھی اُس کے ایک دن کی آمدنی دو سو سے اڑھائی سو روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔'
مقبول حسین کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں بھی وادی کشمیر میں کم از کم دو سے تین ہزار کاریگر اس فن سے وابستہ ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں ' اس فن سے جڑا ہوا کوئی بھی کاریگر اپنی آمدنی سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ تو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ کاریگر اس فن سے علیحدگی اختیار کررہے ہیں۔ اپنی بات کروں تو یہ میرا وراثتی کام تھا، میری اس کے ساتھ بچپن سے ہی دلچسپی رہی ہے اور یہی ایک وجہ ہے کہ میں اس کے ساتھ جڑا ہوں۔ اب میں اس کام کو چھوڑ بھی نہیں سکتا ہوں۔ کوئی دوسرا راستہ ہے بھی نہیں۔'
جب مقبول حسین نے اپنی بھانجی کو روکا!
یہ پوچھے جانے پر کیا 'سری نگر کا شہر خاص اور ڈاؤن ٹاؤن' جو ایک زمانے میں پیپرماشی سمیت دیگر دستکاریاں کا مرکز ہوا کرتا تھا، میں پیپرماشی کا فن آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے، تو اُن کا جواب تھا 'ہاں بالکل۔۔۔ کاریگر آہستہ آہستہ اس فن سے علیحدگی اختیار کررہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فن کے ساتھ جڑے کاریگروں کی مالی مدد کرکے اس فن کو ختم ہونے سے بچائیں ۔ انہیں نمائشوں میں اپنی تخلیقات کی نمائش کا موقع دیا جائے۔ میں مثال دوں گا، میری ایک بھانجی بارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہے، اس نے اپنے اسکول میں دو تین دفعہ ڈرائنگ میں اولین پوزیشن حاصل کی، آپ اُس کی ڈرائنگ دیکھیں گے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا بلکہ لگے گا کہ مشین کے ذریعے بنائی گئی ہے۔ مسلسل اولین پوزیشنیں حاصل کرنے کے بعد وہ مصوری کے کام سے دلی طور پر وابستہ ہوئی تھی۔ مگر میں نے اسے روکا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مصوری، پیپر ماشی اور دیگر دستکارویوں سے وابستہ کاریگروں کی حالت زار کیسی ہے۔ خاندانی وراثت کا اثر دیکھئے۔ میری دس سالہ بچی جو کسی ڈرائنگ انسٹی چیوٹ میں نہیں گئی ہے، بھی ڈرائنگ کے مقابلوں میں اولین پوزیشنیں حاصل کرتی ہے۔ ہمارے خاندان کا ہر ایک فرد پیپرماشی، مصوری اور خطاطی کا فن جانتا ہے۔ میری دوسری بھانجی حیاتیاتی کیمیاء میں پی ایچ ڈی کررہی ہے، میں ایک بار اُس کے اسکول گیا تھا جہاں اساتذہ نے بتایا کہ ہم اس کی ہینڈ رائٹنگ سے بہت ہی متاثر ہیں، میرا جواب یہی تھا کہ یہ چیز ہمیں وارثت میں ملی ہے۔'
حکومت سے گذارش، جموں وکشمیر بینک کا شکریہ
مقبول حسین کا کہنا ہے جموں وکشمیر بینک نے پیپر ماشی اور دیگر دستکاروں سے وابستہ کاریگروں کو قرضہ فراہم کرکے کشمیر کی عالمی شہرت یافتہ دستکاریوں کو پھر سے زندہ کرنے کی جانب ایک اچھا قدم اٹھایا۔ ساتھ ساتھ انہوں نے ریاستی حکومت سے گذارش کی کہ ہر ایک کاریگر کو ملک کے مختلف کونوں اور بیرون ملک منعقد ہونے والی نمائشوں میں اپنی تخلیقات کی نمائش کا موقعہ دیا جانا چاہیے۔ کہتے ہیں 'ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔جموں وکشمیر بینک نے اس فن کے ساتھ وابستہ کاریگر کی بہت مدد کی۔ انہوں نے اس فن سے وابستہ تقریباً ہر ایک کاریگر کو معمولی شرح سود پر ایک ایک لاکھ روپے کا قرضہ دیا۔ تاہم کشمیر میں گذشتہ سال کے ستمبر میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے دیگر طبقوں کے ساتھ ساتھ پیپر ماشی کے آرٹ سے وابستہ کاریگروں کو بھی زبردست نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ انہیں وہ قرضہ اب معاف کرنا چاہیے کیونکہ بیشتر کاریگر واپس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔ میری حکومت سے گذارش ہے کہ ہر ایک کاریگر کو ملک کے مختلف کونوں اور بیرون ملک منعقد ہونے والی نمائشوں میں اپنی تخلیقات کی نمائش کا موقعہ دیا جانا چاہیے۔ اثرورسوخ استعمال کرنے والے تاجروں کو ایسی نمائشوں میں شرکت کا موقع دیاجاتا ہے جبکہ اس فن کے اصل کاریگر اپنے گھروں کی چار دیواریوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔'
پیپر ماشی کا فن کشمیر تک کیسے پہنچا؟
مقبول حسین کے بقول اگرچہ تاریخ کے صفحات میں پیپر ماشی کے فن کا ایران سے کشمیر پہنچنے کے بارے میں بہت ساری دلیلیں موجود ہیں لیکن اصل دلیل یہی ہے کہ یہ فن بلند پایہ ولی کامل حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رح) کی بدولت کشمیر تک پہنچا۔ کہتے ہیں 'اپنے بذرگوں و پیپر ماشی کے استادوں سے سنا ہے اور تواریخ کی کتابوں میں بھی پڑھا ہے کہ یہ فن حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رح) کی بدولت ایران سے کشمیر پہنچا۔ حضرت امیر کبیر (رح) نے اپنے ساتھ مختلف دستکاریوں جیسے پیپر ماشی، شالبافی، قالین باقی، ووڈ کارونگ، نمدہ سازی اور گبہ سازی کے ماہر ترین استاد لائے تھے جنہوں نے یہاں لوگوں کو یہ دستکاریاں سکھائیں۔ آپ کو وادی کشمیر کے تقریباً تمام تاریخی اہمیت کے حامل زیارت گاہوں ، خانقاہوں اور مساجد خاص طور پر خانقاہ معلی کی زیارت گاہ میں پیپر ماشی کی ہوئی ملے گی۔' مقبول حسین کے بقول اس وقت دنیا میں صرف دو جگہوں پر پیپر ماشی کا کام سرگرمی کے ساتھ ہوتا ہے، ایک ایران اور دوم کشمیر۔