ترقی کے نام پر ماحولیات کو نقصان نہ ہو– كاچی
ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہرشعبہ ترقی کا حصہ دار بنے۔ سب کو ساتھ لے کر چلںے کا جذبہ کارفرما ہو۔ کسی ایک شعبے کو آگے بڑھانے کے لئے دوسری چیزوں کو نقصان نہ پہنچا یا جاۓ۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیر تک تو سب کچھ اچھا لگے، لیکن اس کے دیرپہ نتائج اچھے نہ نکلیں اور وہ کوئی دوسرا بڑا مسئلہ پیدا ہو۔ کاٹے گئے۔ زیر زمین آب کی مقداردن بہ دن نیچے ہوتی جا رہی ہے۔ کئی علاقوں میں سطح آب میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ دریاؤں کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے اور وہ اب کافی آلودہ ہو چکے ہیں۔
كاچی کوہلی ایک رسرچ اسکالر اورادیب ہیں۔ ماحولیات پر کئی برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ وہ ملک کی ترقی پرخوش تو ہیں، لیکن ان کے دل میں بہت سے سوالات ہیں، جہاں حالات اطمنان بخش نہیں ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں ملک نے کافی ترقی کی ہے، لیکن اس ترقی کو حاصل کرنے میں ماحولیات کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ جنگلات
كاچی نے ممبئی کے ٹی آئی ایس ایس سے سوشل ورک میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ ماحولیات میں انہیں بچپن سے ہی دلچسپی تھی۔ یقیناً ان کی والدہ کا کافی اثر ان پر رہا۔ سوشل ورک میں ایم اے کرنے کے بعد۔ انہوں نے ماحولیاتی تحفظ کی سمت میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
كاچی نے ابتداء کرناٹک کے اوتر كنڑا ضلع سے کی۔ یہاں انہوں نے ویسٹرن گھاٹ کے علاقے میں زمینی سطح پر کام کیا اور چیزوں کو قریب سے سمجھا۔ یہاں انہوں نے 2 سال گزارے اور انڈسٹری اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ سے ماحولیات اور عام لوگوں کی زندگی پر ہونے والے منفی اثرات کی معلومات حاصل کی۔ انہیں ان اس وقت کافی دکھ ہوا، جب پتہ چلا کہ ماحولیات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
دوسال کرناٹک میں گزارنے کے بعد وہ دہلی آ گئیں اور یہاں پر 'كلپ وركش' نام کے ادارے کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ یہ ادارہ ماحولیات کی تعلیم و تحقیق کا کام کر رہاہے، اور مہمیں چلائی جا رہی ہیں۔ یہاں انہوں نے 3 سال کام کیا۔ یہ کام كاچی کو کافی پسند آیا، کیونکہ یہاں پر زمینی سطح پر کام ہو رہا تھا۔ كاچی بتاتی ہیں کہ ہندوستان میں ماحولیات کے قانون تو ہیں مگر وہ کافی ٹیکنیکل ہیں اور ان کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے۔ كاچی نے چھتیس گڑھ، گجرات اور ساحلی علاقوں میں کافی کام کیا اور پایا کہ موجودہ قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ قانون سے ان ماحولیات میں اور گرواٹ کیوں آئی جبکہ قانون تو اس کی حفاظت کے لئے بنے ہیں۔ ان قوانین کو اور سخت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحولیات کو اور نقصان نہ ہو. ریاست اور مرکزی حکومتوں کو ماہرین کی رائے لے کر جلد ہی کچھ اقدامات کرنا چاہئے۔
چھتیس گڑھ ریاست کے رائے گڑھ میں كاچی نے وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ کام کیا، جنہوں نے کچھ ماحولیاتی ضروری قوانین کی معلومات فراہم کیں۔ یہاں ان لوگوں کی زندگی کو متاثر ہو رہی تھی۔ كاچی نے بھی ان لوگوں کی ہر ممکنہ مدد کی۔ انہوں نے بہت سے ضروری مسائل پر لوگوں کی مدد کی اور لوگوں کی اور ماحولیات کی حفاظت کے لئے ان کی کوششیں جاری ہیں۔
اپنے کام کے علاوہ كاچی 'سینٹر فار پالیسی ریسرچ- نماتی اینوايرنمینٹ جسٹس پروگرام' کے قانونی ریسرچ پروگرام سے بھی منسلک ہیں۔ انہوں نے اینوائرنمنٹل قوانین اور متعلقہ موضوعات میں کئی کتابیں، رپورٹیں اور مضامین لکھے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس موضوع پر کام کرنے کی ترغیب انہیں اپنے گھر سے ہی ملی اور اپنی کامیابی کا سہرا وہ اپنے خاندان کو ہی دیتی ہیں۔ ان کا خاندان گاندھی جی کے نظریات سے کافی متاثر ہے۔ گاندھی جی کی طرح وہ بھی لوگوں کے درمیان میں رہ کر ہی کام کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔
كاچی مرکز کی طرف سے بنائے جانے والے پالیسی میکنگ کے طریقوں کو درست نہیں مانتی وہ کہتی ہیں کہ پالیسیاں الگ الگ علاقے کی ضروریات کے مطابق بننی چاہئے۔ اس میں مقامی لوگوں کی شرکت ہونی چاہئے، جنہیں زمینی حقیقت معلوم ہے اور جو چیزوں کو اور بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں اور ان کی مدد سے رہنمائانہ خطوط پر کام کیا جا سکتا ہے۔
كاچی مستقبل میں بھی لوگوں کے ساتھ رہ کر ہی کام کرنا چاہتی ہیں اور انہیں آگاہ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ ایک ایسا ماڈل بنانا چاہتیں ہیں جس میں مقامی شراکتداری کو یقینی بنایا جا سکے اور ملک کی تعمیرنو کےلئےاہم رول ادا کیا جا سکے۔