منزل پر پہنچنے کے لئے خود کو وقف کردو، کامیابی لازمی ہے۔ سہواگ
کرکٹ کی دنیا میں نجف گڑھ کے نواب کے نام سے مشہور ویریندر سہواگ سےیوئر سٹوری ٹیم کی لیڑرشردھا شرما کی ملاقات ایک ایسا تجربہ ہے، جسے بھلایا نہیں جا سکتا ۔یہ تحریر انہی کی زبانی پیش ہے۔
' بے حد منکسرالمزاج اور ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنے والے نرم گفتار سہواگ اپنے دم پر کامیابی کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے کی ایک بہترین مثال ہیں۔
ان سے ملاقات سے قبل میں سوچ رہی تھی کہ شائد کامیابی کی اونچائیوں پر کھڑا یہ شخص مغرور تو ضرور ہوگا یا پھر اس کے طرزِ عمل سے کامیابی کی اکڑ کا احساس ضرور ہوتا ہوگا، لیکن ان سے ملنے کے بعد میں نے انہیں ایک بالکل عام انسان پایا ۔ جس کی وجہ سے میں حیرت میں پڑگئی ۔
سہواگ صحیح معنوں میں ملک کے نمائندے اور 'میڈ ان انڈیا' کا ایک بہترین نمونہ ہیں۔ ساتھ ہی میں اُوو ایپ" کا بھی شکر ادا کرنا چاہوں گی، جس کی وجہ سے میری ان سے ملاقات ممکن ہوسکی۔ مخصوص صلاحیتوں سے مالامال اور دنیا کے صفِ اول کے بلّے بازوں میں شمار ہونے والے سہواگ کے ساتھ کی گئی اس دلچسپ گفتگو کے کچھ حصے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
سہواگ کی باتیں جتنی سیدھی سادی اور سہل دکھائی دیتی ہیں ، اتنی ہی گہرائی وہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ بڑے خوابوں کا تعاقب کرنے والے شجیع اور جراءت مندوں کی طرح آپ بھی اپنی زندگی میں کامیابی کے ان رازوں کو پا سکتے ہیں، جنہیں نے انہونے حاصل کیا۔ اپنی کامیابی کے راز کے بارے میں بات کرتے ہوئے سہواگ کہتے ہیں کہ اپنی منزل پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرنے کے بعد ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں،" جب میں اسکول میں تھا تو روزانہ لگ بھگ چار سے پانچ قسم کے کھیلوں میں حصہ لینا پسند کرتا تھا۔ آپ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں ان سبھی کھیلوں کی اچھی سمجھ رکھتا تھا۔ لیکن دسویں جماعت میں پہنچنے کے بعد میں نے کرکٹ کے علاوہ باقی تمام کھیلوں کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کرلیا، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ مجھے اپنا سارا دھیان ، ساری توانائی اور وفاداری کسی ایک ہی کھیل کے تئیں رکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس کھیل کے لئے وقف کردینا ہوگا۔ مجھے ایک ہی کھیل میں مزید بہتری حاصل کرنے کے لئے ہر گھڑی کڑی محنت کرنے کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنا مقصد حیات طے کرکے اسی پر اپنی توجہ مرکوز کردی اور مجھے فخر ہے کہ میں ہندوستانی قومی ٹیم کی نمائندگی کر پایا۔ یوں میں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرپانے میں کامیاب ہوسکا۔ یہ سب محض ایک ہی وجہ سے ممکن ہوسکا۔
سب سے پہلے اپنی زندگی میں ایک مخصوص ہدف کا انتخاب کرلیجئے، چاہے وہ پڑھائی ہو یا پھر کھیل یا پھر اسی قسم کا کوئی اور جنون۔ چاہے آپ ایک کھلاڑی بننا چاہتے ہوں یا پھر ڈاکٹر، انجینئر ، کامیاب صنعت کار یا پھر کچھ اور۔ اس کے بعد اپنے طے کردہ ہدف اور اس مقصد کے حصول پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرتے ہوئے آگے بڑھئے اور اپنی ساری توانائی اور صلاحیت اس میں جھونک دیجئے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کڑی محنت اور یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو مستحکم پائیں گے۔ یوں آپ کامیابی کی بلندی کو چھونے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کی حالت میں پہنچ جاتے ہیں۔"
اس کے بعد سہواگ مزید کہتے ہیں کہ کسی شخص کو اپنی زندگی مٰیں حاصل ہونے والی ناکامیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ناکامی ہمیں اپنے آپ میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے تحریک دلاتی ہے۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔" اگر ناکامی نہ ہو تو ملک کا ہر شہری وزیرِ اعظم اور صدرِ جمہوریہ بن جائے۔ ناکامی دراصل ہمیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتی ہے کیوں کہ زندگی میں صر ف ایک ہی چیز ہے جس کی ہم مسلسل اصلاح کرسکتے ہیں وہ ہیں 'ہم خود'۔ میں بھی اپنی زندگی میں کئی موقعوں پر ناکام ہوا لیکن، میں نے کبھی اس ناکامی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ میں صرف اپنے کھیل کو بہتر کرنے کا نشانہ طے کرکے اس پر کڑی محنت کرتا رہا اور اس طرح ان ناکامیوں نے مجھے خود میں بہتری لانے کے لئے تحریک دلائی۔ میرے ذہن میں ہر وقت محض ایک ہی سوال گردش کرتا رہتا تھا کہ میں اپنے کھیل کو کیسے بہتر بناؤں، چاہے بلّے بازی ہو، گیند بازی ہو یا پھر فیلڈنگ۔
چونکہ میرے والدین نے مجھے حصولِ تعلیم کے دوران ہی کھیل پر توجہ مرکوز کرنے کی مہلت دے رکھی تھی لہذا میرے پاس وقت بہت کم تھا۔ یہ ایک باہمی سمجھوتے جیسی بات تھی کہ میں اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاؤں گا۔ اس لئے میرے پاس خود کو ثابت کرنے کے لئے گریجویشن کے تین یا چار سال تھے۔ یعنی مجھے جو کچھ کرنا تھا وہ اسی عرصے میں کرنا تھا۔ میں نے اپنی ساری توجہ اور توانائی صرف کرکٹ پر مرکوز کرتے ہوئے خود کو اسی کے لئے وقف کردیا، کیونکہ میں اپنے والد کے کاروبار کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں نے اپنا گریجویشن مکمل ہونے سے پہلے ہی ریاستِ دہلی، رنجی اور پھر اپنے ملک کے لئے کھیلنے کا سنہرا موقع حاصل کرلیا۔ خوش قسمتی سے میں نے گریجویشن کے پہلے ہی سال میں ہندوستان کے لئے کھیلنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن جلد ہی میں ٹیم سے باہر ہوگیا۔ یہ میرے لئے ایک زبردست دھچکہ تھا، لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور فرسٹ کلاس کرکٹ پر دھیان مرکوز کرتے ہوئے کڑی محنت کی اور دوبارہ ہندوستانی قومی کرکٹ ٹیم میں واپسی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ "
سہواگ مزید کہتے ہیں کہ ان کا ہمیشہ سے یہی ماننا ہے کہ اگر آپ خوش رہیں گے تو دنیا بھی آپ کی طرف خوشی سے دیکھے گی۔ وہ کہتے ہیں،" جب میں بچہ تھا تبھی سے میرے والد مجھ سے مسلسل کہتے تھے کہ 'بچے، اگر تم مسکراتے رہوگے اور خوش رہوگے تو تمہار نصیب بھی ضرور بدلے گا'، اور میں ہمیشہ اپنی زندگی میں اپنے والد کے ان الفاظ کو یاد رکھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔
میں نےاور میرے خاندان نے کبھی دوسرے لوگوں کے کہنے کی پرواہ نہیں کی۔ نہ ہی کبھی ہم یہ سوچ کر پریشان ہوئے کہ دوسرے کیا کہہ رہے ہیں یا کیا کر رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ خود پر ہی دھیان مرکوز رکھا ہے۔ ہمارا خاندان ایک خوش حال اور خوش باش خاندان ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمیں ایک بہتر زندگی دینے کے لئے کتنی کڑی محنت کی اور آج ہم جس مقام پر ہیں، وہ ان کی ہی کڑی محنت کا نتیجہ ہے۔ میں اپنی موجودہ زندگی سے بے حد مطمئن اور خوش ہوں کیونکہ میں ایک صحنت مند اور خوشحال خاندان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں اپنی اس کامیابی کے لئے بہت شکرگزار ہوں اور میرے پاس فکر کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کبھی اس بات کو لے کر پریشان نہیں ہوتا کہ میں نے دس ہزار رنوں کا ہندسہ کیوں پار نہیں کیا یا پھر میں دو سو ٹسٹ میچ کیوں نہیں کھیل پایا۔ میں اس بات سے بہت خوش ہوں کہ میں نے 100 سے زائدہ ٹسٹ میچ کھیل کر آٹھ ہزار سے زیادہ رن بنانے میں کامیابی حاصل کی اور 250 یکروزہ میچوں میں ملک کی نمائندگی کرنے میں کامیاب رہا۔ میں اپنی ان کامیابیوں کے ساتھ ہی بہت خوش ہوں۔ نہایت کم عمری سے ہی میں نے اپنا دھیان ان چیزوں پر مرتکز کرنے کی کوشش کی ہے، جن پر میرا اختیار ہوتا تھا۔ میں نے کبھی اپنے اختیار سے باہر کی باتوں اور چیزوں کی پرواہ نہیں کی۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ میرا دماغ صرف اپنے کھیل کو بہتر بنانے کی سمت کڑی محنت کرنے پر ہی مرکوز رہتا ہے۔ میں خود کو ترو تازہ اور صحت مند بنائے رکھنے کے لئے بلاناغہ کسرت کرتا ہوں۔ اپنے دل و دماغ کو یکسو رکھنے کے لئے یوگا بھی کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں کبھی اس بات کے لئے فکر مند نہیں ہوتا کہ مجھے ایک تیز گیند باز یا اسپنر کے خلاف کیسے کھیلنا ہے۔؛ میں ایک خوش حال اور صحتمند زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ اگر میں اپنی زندگی میں کروڑوں روپیوں کی دولت رکھنے کے باوجود جسمانی یا نفسیاتی طور پر صحتمند نہیں ہوں تو میری یہ دولت اور شہرت کسی کام کی نہیں۔ اسی لئے میں اس کا پیچھا کرنے کے بجائے ایک خوش باش اور صحتمند خاندان کی خواہش کرتا ہوں۔ مجھ پر بزرگوں کی دعاؤں کا سایہ قائم ہے اور یہی میرے لئے سب سے بڑی کامیابی ہے۔ "
اور ہاں، آخر میں ویریندر سہواگ اپنے مداحوں سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ 'اوو ایپ ' کے توسط سے ان کے درمیان لگاتار آتے رہیں گے اور ان سے بات چیت کرتے رہیں گے۔
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
نئی دنیا کے ساتھ جینے کا فارمولا ہے مولانا جہانگیر کا ادارہ ... اسلامی ماڈل یونیورسٹی
ڈیڑھ متوالے بابا کا نیا کمال، پیش کریں گےڈجِٹل خاکے
'ممبئی کا ہائسٹ ریٹیڈ ریستوراں' ... جہاں کام کرنے والے سبھی خواتین و مرد ویٹر گونگے اور بہرے ہیں