بلڈ بنک کے زریعہ زندگیوں کو بچانے ميں مصروف علیم بیگ
گزشتہ23 سال سے خدمت خلق کرتے ہوئے مثالی کردار ادا کر رہے ہیں
دوسروں کی خدمت کی زندگی کا مقصد بنا لینے والے شخص کی دلچسپ داستاں
ہندی فلم کا مشہور گیت ہے "اپنے لئے جیے تو کیا جیے اے دل تو جی زمانے کے لیے"یہ گیت علیم بیگ کی زنگی پر صد فیصد صادق آتا ہے۔ علیم بیگ کا تعلق حیدرآباد کے پرانے شہر سے ہے۔ان کی جدوجہد کا 23 سال قبل آغاز ہوا جب ان کے گھر دوسری لڑکی پیدا ہوی۔ لڑکی ازراء کی پیدایش سے ہی تھلسیمیا سے متاثر پائی گیی، جس کا مطلب تھا کہ اس معصوم کو عمر بھر سلائن سے صاف کردہ خون ہر پندرہ دنوں میں ایک بار چڈھانا پڑےگا۔
علیم بیگ اس مرض سے ناواقف تھے نے انہوں نے ازراء کا بہت جگہ علاج کرایا تاہم کہیں صحیع طور پر مرض کی تشخیص نہیں ہو سکی۔ ایک ڈاکٹر نے علیم بیگ کو ہیماٹولوجسٹ ڈاکٹر کرشنا کماری سے رجوع ہونے کا مشورہ دیا، جو حیدرآباد تھلسیمیا اینڈ سکل سوسایٹی کی تاسیسی سکریٹری بھی تھیں۔ ڈاکٹر کرشنا کماری نے کافی ٹسٹس کروائے اور اس نتیجہ پر پہنچی کہ ازراء تھلسیمیا سے متاثر ہے۔ یہ لمحات ازراء کے والدین کے لیے آزمایش بھرے تھے ، ازراء کےعلاج کا آغاز ہوا 15 بلڈ ٹرانشفوزنس کے بعد ازراء کو جسم سے اضفی آئرن کے اخراج کے لیے چیلیٹنگ کے عمل سے گزرنا پڑا،اس دن سے آج تک ازراء پابندی کے ساتھ تھلسیمیا ائنڈ سکل سوسائٹی جاتی ہے۔
وقت گزرتا رہا علیم بیگ کی مشکلات کم ہونے کے بجائے مزید اس وقت برھ گئیں، جب ان کے گھر ایک اور ننہی پری نے جنم لیا۔ ازراء سے پانچ سال چھوٹی ہیں۔عرشیں بھی تھلسیمیا سے متاثر پائی گئیں والدین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا عرشیں کی والدہ بتاتی ہے کہ جس دن پہلی بار عرشیں کو بلڈ ٹرانسفیوز کیا جا رہا تھا اس وت ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں تھے۔
تب پانچ سال کی ازراء نے اپنی والدہ کے انسو صاف کرتے ہوئے بہن کی صحت یابی کے لیے اللہ سے دعا کرنے کی تلقین کی، وہ بتاتی ہے کہ یہ لمحات وہ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ازراء اور عرشیں بڑے ہوتے گئے ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب عرشیں کے جسم میں مسلسل بلڈ ٹرانسفیوزن کی وجہ سے اینٹی رڈ ریسل باڈیس کی شرح ميں اضافہ ہو گیا ۔ کافی مہنگا علاج جاری رہا۔ دونون بہنوں کا کہنا ہے کے اس مرض نے ان کے افراد خاندان کو بہت زیادہ قریب کر دیا ہے۔
ان واقعات نے علیم بیگ کو ایک نئی تحریک دی انہوں نے غور کیا کے اس مرض کا علاج کافی مہنگا ہے اور متوسط و غریب طبقہ کی دست رست سے باہر ہے۔ انہون نے طے کر لیاکہ وہ کچھ ایسا کام کرینگے کہ اس مرض سے متاثر افراد کو علاج میں آسانی ہو۔اس کام میں سب سے بڑا مسئلہ بلڈ بنک قائم کرنا تھا۔ علیم بیگ سب سے پہلے تھلسیمیا ائنڈ سکل سوساٹی کے رکن بنے ۔ان کی کوشش محنت ار جستجو رنگ لائی ایک صاحبِ خیرو ہمدرد شخص سری پردیپ اپالہ نے پرانے شہر کے مصروف تجارتی علاقہ چھتہ بازار میں اپی تن منزلہ امارت جس کی مالیت کروڈہا روپیوں پر مشتمل تھی، بلڈ بنک اور تھلسیمیا ائنڈ سکل سوسایٹی کو عطیہ کر دیی۔
علیم بیگ کہتے ہیں کی اس کے بعد مشنری حاصل کی گئیی۔ خون حاصل کرنے بلڈ ڈونیشن کیمپس منعقد کیے جانے لگے۔عوام میں تھلسیمیا کے متعلق شعور بیدار کر پروگاس منعقد کئے گئے۔ وہ کہتے ہیں کے تھلسیمیا کے متعلق عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہت کم کام کیا جا رہا ہے، جب کہ ایک اندازے کے مطابق ملک کی پانچ فیصد آبادی اس مرض سے متاثر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک قبرض ہے جہاں بھی 98 فیصد عوام تھلسیمیا سے متاثر تھے تاہم آج وہاں یہ مرض برائے نام رہ گیا ہے۔
حکومت ہند کو بھی اس مرض کے خاتمہ کے لیے جارحانہ اور اثردار مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔علیم بیگ کہتے ہیں، ''تھلسیمیا ائنڈ سکل سوایٹی کی مسلسل کوشش کی وجہ سے اس مرض کو حکومت تلنگانہ نے اپنی آروگیہ شری اسکیم ميں شامل کر دیاہے، جس کا مطلب ہے کہ سطح غربت س نیچے زندگی بسر کرنے والے طبقات کو اس مہنگے علاج کی سہولت مفت دستیاب ہوگی۔اس کے علاوہ سوسایٹی کی جانب سے بلڈ چینجنگ کے لیے درکار ادویات کو 30 تا 40 فیصد ریاعت پر فراہم کیا جاتا ہے۔''
آج تھلسیمیا ائند سکل سوسایٹی کی جانب سے روزانہ 40 تا45 افراد کو بلڈ ٹرانسفیوز کیا جاتا ہے۔یور اسٹوری ٹیم علیم بیگ اور ان کے ساتھیوں کی انسانیت نوازی اور جذبہء خدمت خلق کو سلام کرتی ہے۔
ویب سائٹ : http://tscs.in/
.... اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے FACEBOOK پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
قوّتِ سماعت و گویائی سے محروم انسانوں کے لئے فرشتہ ہیں ’گیانیندرپروہت‘
ایک اسٹیشن ماسٹر ... گاؤں کے بچوں کی تعلیم پر وقف کی تنخواہ اور پینشن