نوٹ بندی کے بعد ہندوستان
حکومت ملک میں جب بھی کوئی بڑا فیصلہ لیتی ہے تو اس کو کسی بھی قسم کے فیصلے سے پہلے وہ عام آدمی متاثر ہوتا ہے، جس کے پاس صبح کے کھانے کا تو انتظام ہوتا ہے، لیکن شام کے کھانے کا نہیں اور اگر شام کے کھانے کا جگاڑ ہوجائے تو صبح کے کھانے کا نہیں. یہاں پڑھیں ہندوستان میں اس خاص طبقے کے مسائل کا ایک چھوٹا سا حصہ ...
رنجنا ترپاٹھی کی قلم سے
مودی حکومت کی نوٹ بندی کے فیصلے کے 50 دن پورے ہونے والے ہیں اور اپوزیشن کی بحث اب بھی جوں کے توں بنی ہوئی ہے۔ حامی اس کےفوائد کو شمار کر رہے ہیں تو مخالف نقصان۔ معیشت کے ماہرین کی رائے بھی اس بارے میں منقسم ہے۔ کسی کو صحیح لگ رہا ہے، تو کسی کو غلط۔ کچھ اس ملک کے لئے فائدہ مند بتا رہے ہیں تو کچھ نقصان دہ۔ لیکن عام عوام اب مکمل طور پر حکومت کے اس فیصلے کو اپنا چکی ہے اور اپنی زندگی کو نقد سے آزاد کرنے کو تیار ہے۔ تاہم، اب بھی ایک بڑا طبقہ پریشانیاں جھیل رہا ہے، لیکن آہستہ آہستہ زندگی پہلے جیسی ہونی شروع ہو گئی ہے۔
حکومت ملک میں جب بھی کوئی بڑا فیصلہ لیتی ہے تو اس کو کسی بھی قسم کے فیصلے سے پہلے عام آدمی متاثر ہوتا ہے، جس کے پاس صبح کے کھانے کا تو انتظام ہوتا ہے، لیکن شام کے کھانے کا نہیں اور اگر شام کے کھانے کا ہو، تو صبح کے کھانے کا نہیں۔ اس طبقے میں وہ لوگ آتے ہیں جن کے بینک اکاونٹس نہیں ہے جو ان کے گھروں کے گدے-رضائيو میں کالا دھن چھپا کر نہیں رکھتے۔ جن کے بچے انگریزی اسکولوں میں نہیں جاتے اور جو نہ ہی اپنا ویکینڈ ملٹی پلیکس میں سنیما کے بعد شاپنگ کرکے مناتے ہیں۔ بلکہ یہ وہ آبادی ہے جو اپنے پشینہ بہا کر کچھ کماتے اور كھرچ کرتے ہیں ۔ پھر وہ کولکتہ سے بنگلور کام کی تلاش میں آئی كاموالی بائی، ریحانہ ہو یا پھر دہلی روهڑی میں سبزیوں کے ٹھیلا کھیںچو والا سرویش ہو۔ یہ ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جو اپنے منہ میں جانے والے ہر نوالے کے لئے کئی طرح کے جی توٹ محنت کرتا ہے۔
الگ الگ شہروں کے الگ الگ علاقوں میں کام کرنے والی لوور کلاس آبادی سے جب ہم نے بات کی تو معلوم ہوا کہ ان کی زندگی میں نوٹ بندی کا طوفان آیا تھا اور طوفان گزرنے کے بعد زندگی پھر سے پہلے کی طرح معمول پر آنے کی کوشش میں لگی ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تمام خود کو ڈیجیٹل بنانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے ہیں، لیکن کچھ جگہوں پر مسائل بنےہوئے ہیں۔
ٹھیلہ بنڈیوں سے اپنی چیزیں خریدنے والی عوام اتنی جدید نہیں ہے، کہ وہ پیٹيیم سے پیسہ دے۔ اپنے شہر میں تو لوگوں کو نقد سے آزاد ہونے میں طویل وقت لگے گا:( عرفان، آگرہ)
آگرہ کی راجامنڈی علاقے میں ٹیھلے پر لپسٹك، چوڑیاں، کنگن فروخت کرنے والے عرفان کا کہنا ہے ک، "مودی جی کی نوٹ بندی کی وجہ سے بہت دقت ہو رہی ہے۔" پےٹيےم کے بارے میں پوچھنے پر عرفان کے کہا کہ "ہاں اس کے بارے میں سنا تو ہے، لیکن پےٹيےم سے پہلے ٹچ سکرین موبائیل چاہئے، موبائیل کے لئے پیسہ کہاں سے آئیں گے۔ ٹچ سکرین موبائیل ہو، تو 24 گھنٹے والا نیٹ کنکشن لینا پڑے گا اور اگر میں نے دونوں چیزیں کسی طرح جگاڑ لگا کر کر بھی لیں تو ہمارے آگرہ میں میرے ٹھےل پر آکر نقطہ-لپسٹك خریدنے والی عوام اتنی جدید نہیں ہے، کہ وہ پےٹيےم سے پیسہ دے۔ آپ کے شہر میں تو لوگوں کو نقدہین ہونے میں طویل وقت لگے گا۔ "
میری دکان پر چائے پینے آنے والے کچھ لڑکوں نے ہی مجھے ٹچ سکرین فون لے کر پےٹيےم ڈاؤن لوڈ کرنے کا مشورہ دیا۔ پےٹيےم کے بعد بہت آرام ہو گیا ہے: نریش، دہلی۔
وہیں دوسری طرف دہلی میں چائے کی دکان لگانے والے نریش پیٹیم کا تیزی سے استعمال کر رہے ہیں، یور اسٹوری سے بات کرنے پر انہوں نے بتایا کہ "نوٹ بندی کے بعد پندرہ بیس دن تک تو بہت دقت ہوئی، لیکن میری دکان پر چائے پینے آنے والے کچھ لڑکوں نے ہی مجھے ٹچ اسکرین فون لے کر پےٹيےم ڈاؤن لوڈ کرنے کا مشورہ دیا۔ پےٹيےم کے بعد بہت آرام ہو گیا ہے۔ چائے سے پہلے لوگ یہی پوچھتے ہیں، کہ پیٹيم ہے کیا؟ اب میں نے دکان کے باہر بورڈ بھی لکھ دیا ہے کہ یہاں پیٹيیم چلتا ہے۔ میں خود سبزی، راشن خریدنے سے لے کر میٹرو تک کا سفر پیٹيم کی مدد سے ہی کر رہا ہوں۔ " وہیں دہلی میں سبزیوں کے دکرکا ھیںچو والے سرویش نے پيٹيم کا استعمال زوروں سے شروع کر دیا ہے۔ سرویش کہتے ہیں کہ "ٹچ اسکرین فون تو میرے پاس پہلے سے تھا اور نوٹ بندی کے بعد میں نے پیٹیم بھی ڈاؤن لوڈ کر لیا۔ کوئی دقت نہیں ہوتی۔ سارے کام آسانی سے ہو رہے ہیں۔"
نوٹ بندی کے بعد دقت تو ہوئی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ طویل مدت کے لئے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے: سونم، کانپور۔
کانپور میں ایک بيوٹي پارلر چلانے والی سونم کہتی ہیں کہ "مودی جی کے فیصلے کے بعد دھندہ مندا تو ہوا ہے لیکن چل رہا ہے۔ کوئی پیٹيم استعمال کرتا ہے، کوئی نہیں۔ شادی / پارٹی والے سارے ارڈرس اب ہم بینک میں پیسے ٹرانسفر کروا کے لے رہے ہیں۔ کچھ لوگ چھوٹے موٹے کام یہ کہہ کر کروا لے رہے ہیں، بعد میں دے جائیں گے۔ اب کیش نہیں ہے۔ نےٹبدي کے بعد دقت تو ہوئی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ طویل مدتی کے لئے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ "
1 دسمبر کو ملنے والی تنخواہ 20 دسمبر تک ملی اور جو ملی وہ دو دو ہزار کے نوٹ تھے۔ کوئی دکان والا چھٹٹے بھی نہیں دیتا: (ریحانہ، بنگلور)