"اسمارٹ فونس ابتداء میں نہایت مہنگے ہوا کرتے تھے۔ کسی زمانے میں ریلائنس کمیونی کیشنس نے نعرہ دیا تھا ،"کرلو دنیا مٹھی میں۔۔" اور کہا تھا کہ ہماری کمپنی ہر غریب کے ہاتھ میں موبائل دے گی۔ اس وقت کسی کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن آج نہ صرف یہ کہ ہر غریب کے پاس موبائل فونس ہیں بلکہ ہر بچے کے پاس کسی زمانے میں نہایت مہنگے لیکن اب کافی سستے اسمارٹ فونس بھی ہیں۔ اسے ہم نئی ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی تو کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے طلباء کا تعلیمی نقصان ہورہا ہے۔"
موبائل ہاتھوں میں لئے اسکولی بچے مسلسل موبائل گیمس کھیلتے رہتے ہیں۔ اپنی پڑھائی کو بالائے طاق رکھ کر موبائل گیمس کو مکمل کرتے ہیں۔ نہ ہی مطالعہ ہوتا ہے اور نہ ہی میدانی کھیل ۔۔ دوستوں اور سہیلیوں سے مل جُل کر گپ شپ کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ بس ایک ہی دھُن لگی رہتی ہے۔۔ موبائل گیمس اور گیمس ۔۔ بس۔ "
آج کل نئی ٹکنالوجی نے سائنسی ایجادات کو الہ دین کا چراغ بناکر رکھ دیا ہے۔ الہ دین کا جادوئی چراغ بھی تو صرف الہ دین کے پاس تھا لیکن نئی ایجادات تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے بس میں اور اختیار میں ہیں۔ کوئی بھی ان ایجادات کو رقم کے بدلے خرید سکتا ہے۔ ہم موبائل کی بات کریں تو اب بچے بھی موبائل فونس میں اسمارٹ فونس کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ کیوں ؟ وجہ صاف ہے۔ اسمارٹ فونس میں ہی گیمس ہوتے ہیں جنہیں کھیلنے میں ان بچوں کو مزہ آتا ہے۔ لیکن بچوں کا یہ مزہ والدین کے لئے سزا بن گیا ہے ۔ کیونکہ یہ بچے ان موبائل گیمس کے عادی ہوگئے ہیں یعنی انہیں ان گیمس کی لت لگ گئی ہے۔ والدین پریشان ہیں کہ کیسے ان بچوں کو اس لَت سے نجات دلوائی جائے۔
گورنمنٹ اسکول میں معلمہ اور بچوں کی نفسیات کی ماہر مہہ جبین صاحبہ نے یوراسٹوری سے بات چیت میں اس مسئلہ پر تفصیلی بات چیت کی۔ مہہ جبین صاحبہ کہتی ہیں،" بچے حقیقی دنیا میں رہنے کے مقابلے میں تصوراتی دنیا میں سانس لینا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔ نئی ٹکنالوجی نے ان کے ذہن کو تیز تو کِیا ہے لیکن ان کی دیگر صلاحیتوں کا تناسب کم کردیا ہے۔ "
یوراسٹوری نے جب ان سے بچوں کے موبائل گیمس کھیلنے کی لَت پر روشنی ڈالنے کی خواہش کی تو انہوں نے کہا کہ دراصل اس مسئلے کے دو پہلو ہیں جو مندرجہ ذیل کے مطابق سمجھے جاسکتے ہیں۔
بچے ان گیمس سے خوش ہیں کیونکہ :
1۔ اسکول کے امتحانات میں ملنے والے نمبرات کے مقابلے میں گیمس میں ہمیشہ زیادہ نمبرات یعنی پوائنٹس ملتے ہیں۔
2۔ یہ بچے ان پوائنٹس کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
3۔ موبائل گیمس کہیں بھی بیٹھ کر کھیلےجاسکتے ہیں جب کہ دیگر کھیلوں کے لئے میدان کی شرط ہوتی ہے۔
4۔ موبائل گیمس کھیلتےہوئے سرفنگ بھی کی جاسکتی ہے۔
5۔ روز نئے گیمس کھیلے جاسکتے ہیں۔
لیکن والدین پریشان ہیں کیونکہ:
1۔ موبائل گیمس کی وجہ سے کم عمری میں ہی بچے کورچشم ہوجاتے ہیں اور انہیں چشمے لگ جاتے ہیں۔
2۔ مسلسل ایک ہی جگہ بیٹھ کر موبائل گیمس کھیلنے کی وجہ سے یہ بچے تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔
3۔ جب سے اسمارٹ فونس بچوں کے ہاتھ میں آئے ہیں، 'پڑھنے والے ' بچوں کی تعداد کم اور 'دیکھنے والے 'بچوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
4۔ کھانا کھاتے وقت بھی بچوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہوتا ہے۔
5۔ مطالعہ کی جانب سے مکمل بے نیازی برتتے ہیں۔
6۔ بچوں کا اپنے بڑوں اور سرپرستوں سے رابطہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے۔
7۔ بچے ماں باپ کا کہنا بالکل نہیں مانتے۔
8۔ بچوں کی ساری ضد، سارے جھگڑے ان اسمارٹ فونس تک آکر رکتی ہیں۔
ہم نے جب مہہ جبین صاحبہ سے اس مسئلے کے حل کے تعلق سے بات کی تو انہوں نے کچھ تجاویز پیش کیں جو یقیناً قابلِ عمل ہیں۔
اب اس صورت میں ہم کچھ تجاویز سرپرستوں کے سامنے رکھتے ہیں جو اس مسئلےکے حل کے تئیں کار آمد ہوسکتی ہیں۔
1۔ بچوں کو اس بات کا احساس دلائیے کہ موبائل گیمس میں جیتنے پر حاصل ہونے والے نمبرات یا پوائنٹس ایک دھوکہ اور ایک سَراب ہیں، حقیقت نہیں۔
2۔ گیم کی اصطلاح بچے کے ساتھ مل کے طے کیجئے۔ اس سے پوچھئے کہ کیا محض چار انگلیوں کو حرکت دینے والی کسی سرگرمی کو کھیل کہاجاسکتا ہے؟ اور اگر ایسی سرگرمی جس سے جسمائی اور ذہنی نشو و نما نہ ہوتی ہو، اسے گیم کس طرح کہاجاسکتا ہے؟
3۔ اسکول کے بعد مطالعہ کرنے کا، میدان میں کھیلنے کا اور پھر وہاں سے گھر واپس آکر کچھ دیر موبائل گیم کھیلنے کا ٹائم ٹیبل تیار کیجئے۔
4۔ اسکول، مطالعہ، میدانی کھیل اور پھر موبائل گیمز ، ان سب کے لئے طے کردہ نظام الاوقات کی پابندی سب کے لئے لازمی کیجئے۔
5۔ دن بھر موبائل گیم کھیلنے والے بچوں کے لئے دن بھر موبائل پر کوئی بھی گیم نہ کھیلنے پر بچوں کو اضافی پوائنٹس دیجئے اور مہینہ بھر کے یوں حاصل شدہ پوائنٹس کو جمع کرکے ان کے مساوی روپیوں سے ان کے لئے کچھ مفید چیز خرید کر تحفہ دیجئے ۔ یہ ترکیب یقیناً اپنا اثر دکھائے گی۔
6۔ بچوں کو مسلسل مطالعہ کرتے رہنے کا کہئے اور پھر روز شام یا رات کھانا کھانے کے دوران بچوں سے مطالعہ کی ہوئی کہانی یا کتاب کے بارے میں مفصل گفتگو کیجئے۔ اگر والدین یہ نئی عادت خود اپنائیں اور اپنے بچوں کو اس کا عادی بنائیں تو بچوں کی توجہ موبائل گیمس کی لَت سے یقیناً ہٹ جائے گی۔ یہ کچھ تراکیب اور تجاویز ہیں جو موبائل گیمز کی لَت سے بچوں کو نجات دلانے میں یقیناً کارآمد ہوسکتی ہیں۔
تحریر: خان حسنین عاقبؔ