فلمی دنیا میں کامیابی کا راز: جدوجہد، محنت، صبر، استقامت اور قسمت کا امتزاج
فلمی دنیا چکاچوند کی دنیا ہے۔
یہاں روز ہزاروں نوجوان اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔
بہت سے آنے والے درمیان سے لوٹ جاتے ہیں۔
"فلمی دنیا ایک جادوئی دنیا لگتی ہے۔ ہم اپنی نظروں سے اسے ایک چمتکار کی طرح دیکھتےہیں کہ کس طرح ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی ایک فلم میں دکھائی دیتےہی راتوں رات اسٹار بن جاتا ہے یا جاتی ہے۔ ملک کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان ان راتوں رات کامیاب ہونے والے اداکاروں کی تقلید اور پیروی کرنا شروع کردیتے ہیں اور کچھ دیوانے تو ایسے ہوتے ہیں جو ان کی کامیابی سے اس قدر متاثر ہوجاتے ہیں کہ وہ ان جیسا بننے کا خواب سجائے فلمی دنیا کی طرف بنا کچھ سوچے سمجھے روانہ ہوجاتے ہیں۔"
آج ہم اس فلمی دنیا کی چکاچوند بھری محفل کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دنیا میں دو قسم کی زندگیاں جی جاتی ہیں۔ ایک وہ زندگی جو پردے پر دکھائی دیتی ہے۔ دوسری وہ زندگی جو پردے کے پیچھے ہوتی ہے۔ پردے پر دکھائی دینے والی زندگی بناوٹی اور مصنوعی ہوتی ہے جس کی تیاری میں پردے کے پیچھے موجود لوگ اپنا کردار ادا کرتےہیں۔ لیکن لوگ تقلید اور پیروی اس کی کرتے ہیں جو پردے پر ہوتا ہے۔ پردے کے پیچھے کی دنیا سے نکل کر پردے پر دکھائی دینے والی دنیا تک پہنچے کا راستہ آسان نہیں ہوتا۔ یہ راستہ ایک فارمولے کے تحت کام کرتا ہے ۔ یہ فارمولہ ہے۔
تکالیف ، جدوجہد، محنت ، صلاحیت اور قسمت کا حاصل ہے اسٹارڈم
ہم یہاں کچھ لوگوں کی زندگیوں کی بات کرتے ہیں جنہوں نے اس فارمولے پر عمل کیا اور اسٹارڈم حاصل کیا۔
1۔ نوازلدین صدیقی:
سلمان خان کی فلم 'کِک' اور اس کے بعد آئی فلم 'بجرنگی بھائی جان' نے نوازالدین صدیقی کو ایک بڑے اسٹار کی حیثیت دلوادی۔ لوگ انہیں نام سے جاننے لگے اور فلموں کے ناقدین بھی ان کی اداکاری کی تعریفیں کرنے لگے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے نوازالدین کا سفر کہاں سے شروع ہوا اور کن کن مراحل سے گزرا؟ بہار کے ایک دیہات سے پونہ اور پھر ممبئی آکر کھانا کھانے کے بجائے دھکے کھانے والے نوازالدین نے ایک انٹرویو میں کہا،
"میں اسٹرگل (جدوجہد) کرتا رہتا ، بھوکا رہتا، میرا صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا، سب کچھ ایک چائے اور بسکٹ پر مشتمل ہوتا۔ اس دوران میں خود سے ایک ہی بات کہتا تھا اور آج بھی اسی بات کا اعادہ کرتا ہوں۔ اگر بڑی کامیابی چاہئے تو امتحان بھی بڑا ہوگا اور فرسٹریشن بھی بڑا ہوگا۔"
جب وہ کام نہ ملنے اور بھوکے رہنے کی وجہ سے نا امید ہوجاتے اور اپنے گھر فون پر اپنی ماں سے بات کرتے تو وہ کہتیں،
"بارہ مہینے میں ایک مرتبہ تو کچرے کی ڈھیر کی جگہ بھی بدلتی ہے، تم تو انسان ہو، پھر کیسے نہیں بدلے گا سب کچھ؟ بدلے گا، دیکھ لے۔" اور پھر سب کچھ بدل گیا۔ پہلے عامر خان کی فلم میں نواز الدین کو کُل ملاکر 15 سیکنڈ کا کام ملا۔ دوسری دفعہ منا بھائی ایم۔بی۔بی۔ایس میں 2 منٹ کا چور کا رول ملا جو سب کو یاد رہا۔ اور اب 'کِک'، پھر 'بجرنگی بھائی جان'۔۔۔۔ یہ سب کامیابی بے شمار ناکامیوں، دھتکارے جانے کے باوجود ہمت نہ ہارنے کی وجہ سے ہے۔
2۔ کنگنا راناوت:
کنگنا راناوت اپنے گھر سے اپنی جیب میں محض 1500 روپئے لئے ممبئی پہنچیں۔ اسے سے قبل انہوں نے کبھی ممبئی دیکھی تک نہیں تھی۔ انہوں نے بسوں میں، ترینوں میں دھکے کھائے، کبھی تو فٹ پاتھ پر راتیں بتانے کی نوبت بھی آئی۔ اوبڑ کھابڑ راستوں سے گزریں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت کی جدوجہد بھری دنیا ایک الگ دنیا تھی۔ اور آج جب میں اپنی بی۔ایم۔ڈبلو گاڑی میں بیٹھ کر جاتی ہوں تو یہ ایک الگ دنیا محسوس ہوتی ہے۔ نہ ہی وہ خود کو خوبصورت مانتی ہیں اور نہ ہی انہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے ۔ لیکن انہوں نے کامیابی کے لئے جدوجہد کی۔ انہیں کئی طعنے برداشت کرنے پڑے۔ ممبئی جیسے شہر میں اور فلمی دنیا میں وہ روانی کے ساتھ انگریزی نہ بول سکنے والی اسٹرگلر تھیں۔ وہ کہتی ہیں،
"میرا انگریزی بولنے کا لہجہ ٹھیک نہیں تھا جس کا خوب مذاق اڑایا جاتا تھا۔ لوگ ایسا سلوک کرتے جیسا منہ کھولنا بھی گناہ ہو۔ میں نے اتنے بُرے دن دیکھے ہیں کہ مجھ جیسی کسی عام لڑکی کی فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کی ہمت بھی نہ ہو۔"
آج ان کی کہانی کامیابی کی ایک داستان ہے جس نے انہیں ایک بڑے مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ اس مقام سے ان جیسی دوسری لڑکیاں ان کی تقلید اور پیروی کرتی ہیں اور اسی مقام کو حاصل کرنے کا خواب دیکھتی ہیں لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کنگنا کا یہ مقام کتنی جدوجہد اور محنت، صبر اور لگن کے بعد حاصل ہوا ہے۔
3۔ عرفان خان:
عرفان خان ایک طویل عرصے تک ایک تھیٹر آرٹسٹ رہے ہیں۔ انہوں نے تھیٹر کے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی۔ لیکن آج وہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ، دونوں جگہ فلمیں کرچکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،
"ایک وقت وہ بھی تھا کہ فلم ہال میں جراسک پارک لگی تھی اور میرے پاس وہ فلم دیکھنے کےلئے پیسے نہیں تھے۔ اور آج میں جراسک پارک کے سیکوئیل میں کام کررہا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے نا؟ لیکن یہ سب محنت، جدوجہد، عزمِ مسلسل اور صلاحیت کے بل بوتے پر ممکن ہوا۔ کامیابی مجھے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی۔"
آج کسی فلم میں عرفان خان کی شمولیت کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے اور ان کی ادکارانہ صلاحیتوں نے ہالی ووڈ کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔
یہ چند داستانیں ہیں کامیابیوں کی جن نے ہمیں ترغیب اور حوصلہ ملتا ہے کہ ہم کسی مقام کوحاصل کرنے کے لئے اسی فارمولے پر عمل کریں جس پر چل کر ہمارے آئیڈیل لوگوں نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ جدوجہد، محنت ، مشقت، صبر، عزم اور استقامت کے بعد جو کامیابی ملتی ہے وہ دیر پا اور پائیدار ہوتی ہے۔
تحریر: خان حسنین عاقبؔ