دانش محل...کتابوں کا تاج محل ، دانشوروں کاخواب محل
کتابوں کی ایسی دکان جہاں ہوتاہے ’خسارے ‘میں’منافعے‘ کا کاروبار
صارفیت کے اس دورمیں جہاں ہرچیز کی قیمت لگتی ہواور رشتوں تک کاتعین ِ قدرنفع ونقصان کے پیمانے سے کیاجاتاہو، وہاں اگرکوئی شخص خسارے کانہ سہی بہت کم نفع کا سوداکرتاہوتو اسے کیا کہاجائے گا؟ یقینا ًموجودہ دورمیں اسے پاگل یا بے وقوف کہاجائے گا۔ آج کل ہرشخص پیسے کے پیچھے بھاگاجارہاہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو پیسے توکماناچاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے مقصد کے لئے کام کررہے ہوتے ہیں۔یہی کام دانش محل کے مالک محمد نعیم کررہے ہیں ۔ شہر لکھنؤ کے قلب اور انتہائی کاروباری علاقے امین آباد میں کافی کشادہ دکان میں کتابوں کا کاروبارکرنے والے محمد نعیم اگرچاہتے تو اس جگہ زمانے کے تقاضے کے مطابق منفعت بخش کاروبار کرکے مالامال ہوسکتے تھے لیکن ان کومادیت سے زیادہ روحانیت عزیز ہے۔ قدروں کی پاسداری ، روایتوں کی پاسبانی اور دانشوروں کی قدردانی ان کے نزدیک کافی اہم ہے۔ وہ اپنے والد محمد نسیم مرحوم کی قائم کردہ روایات کوہر حال میں برقراررکھنا چاہتے ہیں ۔ وہی محمد نسیم جن کے پاس بابائے اردومولوی عبدالحق اور علامہ سید سلیمان ندوی جیسے لوگ بیٹھ کر سکون محسو س کرتے تھے اورجوتاعمر ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں اوردانشوروں کے مرکزنظر رہے۔انش محل کے موجودہ مالک اور محمد نسیم مرحوم کے بیٹے محمد نعیم نے’یوراسٹوری ‘ کوبتایا:
’’ بہت سے لوگوں نے طرح طرح کے مشورے دیئے،دیگر منفعت بخش کی جانب اشارے کئے ،لیکن ہم نے روایت کے مطابق صرف ادبی کتابوں کے ہی کاروبارکوجاری رکھا۔ہماری اولین ترجیح والد صاحب کے طرز عمل اور دانش محل کی رویت کو برقراررکھناہے۔والد صاحب نے بڑی قربانیوں سے دانش محل کو ’دانش محل ‘ بنایاہے۔ہم ان کے خوابوں کے شیش محل کو یوں ہی چکناچورنہیں ہونے دیں گے۔بلکہ ہماری کوشش ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایاجائے اور اوران کی علمی ،ادبی اور تہذیبی وراثت کاتحفظ کیاجائے‘‘۔
شہر نگاراں میں دانش محل کا قیام1942میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کاتاریخی پس منظریہ ہے کہ مولوی عبدالحق ، علامہ سیدسلیمان ندوی اور دیگر سرکردہ شخصیات کی یہ خواہش تھی کہ لکھنؤ میں کسی مرکزی جگہ پر ایک ایسا کتاب گھر ہوجہاں ادبی وعلمی کتابیں دستیاب ہوسکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ادباء، شعراء، صحافی اور دانشور آکربیٹھ سکیں ۔ دراصل شہر میں مذکورہ لوگوں کے بیٹھنے کے لئےدوجگہیں تھیں۔ایک کافی ہاؤس، دوسری شہرکے مختلف علاقوں میں واقع چائے خانے ۔ یہ دونوں مقامات ان برگزیدہ لوگوں کے شایان ِشان نہیں تھے۔ اسی لئے وہ فکر مند تھے کہ کوئی ایسی جگہ ضروری ہے جہاں کاماحول پرسکون اور پاکیزہ ہو۔ جہاں دانشور نہ صرف ایک دوسرے سے مل سکیں بلکہ بیٹھ کر سنجیدہ علمی وادبی گفتگو کرسکیں ۔ چھوٹی موٹی ادبی تقریب منعقد کرسکیں ۔ ان ممتاز شخصیات کے غوروفکر اور تبادلہ خیالات کے بعد قرعہ فال محمد نسیم کے نام نکلا اور انھوں نے دانش محل کے قیام کا بیڑااٹھا یا۔ پھر ایک دن وہ بھی آگیا کہ مخصوص فکر ونظر اور عظیم روایات کا حامل دانش محل قائم ہوگیا اور اس طرح اردو کے ممتاز علماء اور ادباء کاخواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ نسیم صاحب کے اس ادارے کا افتتاح بابائے اردومولوی عبدالحق نے کیا۔ افتتاحی تقریب میں مولانا آزاد سبحانی، سید ہاشمی فیروزآبادی، مولوی بشیر الدین، مولانا احمدا لدین، مولانا ظفر الملک، پروفیسر احتشام حسین اور ڈاکٹر عبادت بریلوی خاص طور سے موجود تھے۔
ضمیرمینشن میں واقع اس ادارے کا قیام اصلاً 1939میں عمل میں آیاتھا۔اس وقت یہ مکتبہ کا فرنچائز تھا۔پھر 1942میں مولوی عبدالحق کے مشورے پر نسیم صاحب نے ایجنسی کو کتابوں کی دکان میں تبدیل کردیااور اس کا نام رکھا ’دانش محل‘ ۔دانش محل کانام اپنی خصوصیات اور روایات کی وجہ سے اردوزبان وادب اور تہذیب کی تاریخ میں درج ہوچکاہے۔دانش محل برصغیر ہندوپاک کے علاوہ دوسرے ممالک جیسے برطانیہ ،فرانس ،جرمنی،امریکہ ،روم،مصر ،ایران،عرب،عراق،شام اور انڈونیشیاوغیرہ میں بھی کافی مقبول ہے۔اس کی مقبولیت کی وجہ نسیم صاحب کی ایمانداری اور جانفشانی ہے۔اگر کہیں سے کتاب کا آرڈر آجاتاتو اسے فوراً فراہم کرنے کی کوشش کرتے ۔اگر وہ کتاب ان کے پاس نہ ہوتی تو دوسری جگہ سے منگاکربھیجتے۔اس میں ان کی صرف کاروباری ذہنیت نہیں کارفرماہوتی بلکہ اسے ایک جذبے اور مشن کے تحت انجام دیتے۔
لندن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر رالف رسل نے 1965میںدانش محل اور نسیم صاحب کے بارے میں لکھاتھا:
“Not only is Danish Mahal well-stocked and well-arranged, Naseem Ahmad’s resourcefulness in obtaining and supplying rare books is something to arouse both wonder and admiration…Danish Mahal is an institution, a cultural centre for all who love Urdu and its literature. Long may it continue to remain so!”
دانش محل کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک’ بزم دانشوراں ‘ بھی قائم کی گئی۔ پروفیسر نورالحسن ہاشمی، حامد اللہ افسر اورفرقت کاکوری اس کے عہدے داران واراکین منتخب کئے گئے۔ بزم کے تحت ہفتہ وارجلسے ہواکرتے تھے جس میں مقامی وبیرونی ادباء ودانشور، اپنی تخلیقات اور مقالے پڑھتے تھے۔ دانش محل اور بزم دانشوراں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں علامہ سید سلیمان ندوی مولانا حسرت موہانی، احسان دانش، ظفر عمر، اختر اورینوی، مجنوںگورکھپوری ، اخترانصاری، حفیظ سید،ڈاکٹراعجاز حسین، ساغر نظامی، پروفیسر رالف رسل وغیرہ شامل تھے۔
دانش محل ایک ادارہ ہی نہیں ایک تہذیب کانام ہے۔ قدیم فن تعمیر پرمشتمل ایک کشادہ اورہال نماوسیع وعریض اس دکان میں کتابیں ریک میں بڑے سلیقے سے رکھی گئی ہیں ۔ کتابوں کی ریک کے اوپر دیواروں میں عظیم علماء،ادباء،شعراء اور دانشوروں کی تصویر یں آویزاں ہیں ،جن پر ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات بھی درج ہے۔ اس سلیقے مندی اور تزئین کاری سے دکان کا منظر انتہائی حسین نظر آتاہے۔ جن بڑی شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ان میں شبلی،مومن،میر،قاضی عبدالغفار،فرحت اللہ بیگ،پنڈت رتن ناتھ سرشار،اکبر الہ آبادی،امیر خسرو،اصغر گونڈوی،پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی،نیاز فتح پوری،مولوی عبدالحق،میر انیس،محسن کاکوروی،عزیز لکھنوی،غالب ،نظیر اکبرآبادی،علامہ سیدسلیمان ندوی،راشد الخیری،جوش ملیح آبادی،ڈپٹی نذیر احمد،نورالحسن نیر کاکوروی،آتش،امیر مینائی،داغ اور حالی شامل ہیں ۔
مالک دکان کی کرسی کے سامنے ایک بڑاسا کاؤنٹر ہے۔ اس کے آگے آمنے سامنے دوصوفے پڑے ہیں ۔ دانشورآکر انھیں صوفوں پربیٹھتے ہیں اورآپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے ان کو تمام کتابیں بھی نظر آتی ہیں اورجو کتابیں خرید ناچاہتے ہیں وہ کتابیں خرید تے ہیں ۔ ویسے یہاں بیٹھنے کے لئے کتاب اوررسائل خریدنے کی شرط نہیں ہے۔ لوگ گھنٹوں گھنٹوں بیٹھ کر گفتگوکرتے رہتے ہیں ۔ دکان کے مالک محمد نعیم اور اعزازی طورپر ان کے کام میں تعاون کرنے والے منظور پروانہ آنے والے لوگوں کی چائے وائے سے ضیافت بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اگرلوگ زیادہ ہوجاتے ہیں توکرسیاں لگادی جاتی ہیں ۔ یہاں کچھ لوگ تقریباً روزآنہ آتے ہیں جب کہ زیادہ ترلوگ وقفے وقفے سے۔ باہر سے کوئی شاعر ، ادیب ،صحافی یادانشورلکھنؤ آتاہے وہ دانش محل ضرور آتاہے۔ جیسے کوئی دوسرے ملک سے ہندوستان آتاہے تو وہ تاج محل دیکھنے خاص طورسے جاتاہے۔ دانش محل کو اطلاعات مرکز کی بھی حیثیت حاصل ہے۔اردودنیامیں رونما ہونے والے بہت سے واقعات اور تبدیل ہوتے حالات کی اطلاع یہاں سے مل جاتی ہے۔چوں کہ یہاں ملک وبیرون ملک سے محبان ِ اردو آتے رہتے ہیں اور بہت سے منصوبوں کے تانے بانے یہاں کے صوفوں پر بیٹھ کر بنے جاتے ہیں اس وجہ سے بہت سی ’فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ‘ یہیں سے ملتی ہے۔
دانش محل برابر آنے والے ممتاز لوگوں میں مولانا عبدالماجد دریابادی،جوش ملیح آبادی،اختر علی تلہری،پروفیسر آل احمد سرور،پروفیسر احتشام حسین،ڈاکٹر اعجاز حسین ،پروفیسر عنوان چشتی،ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی،مسیح الحسن رضوی،منظرسلیم،ڈاکٹر اختربستوی،پروفیسر احمر لاری،ڈاکٹر افغان اللہ خاں ،مقبول احمد لاری،پروفیسر شاہ عبدالسلام ،مولانا شمس تبریز خاں ،قاری محمد علیم الہ آبادی،تسنیم فاروقی،پروفیسر شارب ردولوی،پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد ،احمد ابراہیم علوی،عابد سہیل ،رام لعل ،بشیشر پردیب،مسرورجہاں،شاہ نواز قریشی ،ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی ،چودھری شرف الدین،بشیرفاروقی،پروفیسر محمودالحسن ،عبدالجلیل متین میاں فرنگی محلی،پروفیسر خان محمد عاطف،منوررانا،رئیس انصاری ،عبدالسلام صدیقی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ نئی نسل کے ادباء،شعراء،صحافی ، دانشور اور محبان ِ اردوبھی آتے رہتے ہیں ۔
تہذیب وادب کے شہر لکھنؤ میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں ۔مشرقی تہذیب کی جگہ تیزی سے مغربی تہذیب لے رہی ہے۔قدیم وتاریخی عمارتوں کی جگہ بلند وبالاعمارتیں ،فلک بوس شاپنگ مال اور جدید ترین سہویات سے آراستہ ہوٹل قائم ہوچکے ہیں۔منشی نول کشورکا تاریخی پریس اوردکان ،نسیم انہونوی کا حریم بک ڈپو،والی آسی کا مکتبہ دین وادب اور عابد سہیل کا نصرت پبلشرز بند ہوچکے ہیں۔ان کی جگہ دوسرے کاروبار شروع ہوچکے ہیں۔ادب اورلکھنوی تہذیب کی نمائندگی کےلئے بس اب دانش محل ہی رہ گیاہے۔’شام اودھ ‘کی رونق بھلے ہی پھیکی پڑچکی ہو،لیکن دانش محل میں ہونے والی شام اودھ کی میٹنگ آج بھی حسب سابق جاری ہے۔لوگ اسے ’گھر سے دورایک گھر‘ قراردیتے ہیں ۔تبدیلی حالاں کہ ایک فکری عمل ہے پھر بھی تاریخی ،روایتی اور تہذیبی وراثتوں اور قدروں کے انہدام،زوال اور اس میں تبدیلی سے دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے۔اس سلسلے میں دانش محل کو اپنی اعزازی خدمات دینے والے منظورپروانہ کہتے ہیں:
’’لیکن ایک سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ آخر اردوکے تمام ادارے کیوں بند ہوگئے ؟ اگر محبان اردوان کی سرپرستی کرتے اور وہاں نفع بخش کاروبار ہوتا تو کیاتب بھی وہ ادارے بند ہوجاتے ؟ اس لئے اردو قارئین کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ انھیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے ۔صرف کف ِ افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہونے والا‘‘۔
دانش محل کے سابق مالک محمد نسیم (مرحوم ) 25دسمبر 1920کو پیداہوئے ۔ آباء واجداد کا تعلق بہارسے تھا،مگر نسیم صاحب نے اپنی پوری زندگی لکھنؤ میں ہی گذاری۔ ان کے والد کانام محمد یاسین تھا۔ نسیم صاحب بڑے وضع دار اور نستعلیق قسم کے آدمی تھے۔ پرانی قدروں اور قدیم روایات کے امین تھے۔ لیکن عصرحاضر کی برکات کا بھی خیر مقدم کرتے تھے۔ کہاجاتاہے ’کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے۔‘ واقعی کتابیں نسیم صاحب کی بھی بہترین دوست تھیں۔لیکن اس کا دوسراپہلوبھی تھا۔نسیم صاحب کتابوں کے بھی بہترین دوست تھے۔وہ کتابوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور بڑے سلیقے سے دکان میں رکھتے تھے۔دانش محل آنے والے لوگوں سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے اور بڑی نرمی سے ان سے گفتگوکرتے تھے۔ تشنگان ِ علم کی رہنمائی کے ساتھ ان کو مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے۔ تعجب ہوتاہے کہ ایسے ماحول میں جہاں دوشاعر سکون سے نہیں رہ پاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچادکھانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں ،یہاں آنے والے مختلف الخیال ادیبوں ،شاعروں ،صحافیوں اور دانشوروں کو کیسے سنبھال کر رکھتے تھے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں آنے والے لوگوں میں سے کسی بھی شخص کے منھ سےکبھی نسیم صاحب کی برائی نہیں سنی گئی۔ بلکہ ہر شخص ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتاہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ کتنی خوبیوں کے مالک تھے۔نسیم صاحب کی ایمانداری اور سادگی کو لوگ آج بھی یادکرتے ہیں۔
نسیم صاحب خود بھی ادیب تھے لیکن اس کا اظہارکبھی نہیں کرتے تھے۔ ان کے کئی مضامین رسائل وجرائد میں شائع ہوئے اور متعدد تقاریر ریڈیو سے نشر ہوئیں ۔ پروفیسر احتشام حسین پر نسیم صاحب کا مضمون کافی پسند کیاگیااور موقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا۔وہ مولوی گنج پر ایک کتاب لکھ رہے تھے لیکن علالت کے سبب یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔
مختلف صفات وکمالات کے مالک اور علی گڑھ کی شیروانی ،ٹوپی اور پاجامہ زیب تن کرنے والے نسیم صاحب بالآخر 8جون 2012کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کے انتقال پر پوری اردو دنیاسوگوارہوگئی۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے وہ ایسے شخص تھے جن کی موت پر واقعی زمانے نے افسوس کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد نعیم نے دانش محل کی ذمہ داری سنبھالی۔ شروع میں انھیں تھوڑی دشواری ہوئی لیکن بعد میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ اس معاملے میں نسیم صاحب کے بہی خواہوں اور ہمدردوں نے بھی ان کی رہنمائی کی۔ وہ بڑے نظم وضبط کے ساتھ دکان چلارہے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے والد مرحوم کی اقداروروایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔وہ اپنے والد کا بڑاخیال رکھتے تھے۔انھوںنے 2005میں اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے اپنا بزنس ختم کردیااور ان نگہداشت کے ساتھ ساتھ ان کے ذوق وشوق کو پروان چڑھایا۔2012میں ان کے انتقال کے بعد مکمل طورسے ان کی ذمہ داری سنبھال لی۔
محمدنعیم کو تھوڑا مالی نقصان ضرورہورہاہے لیکن اردودنیاکو ان سے بڑافائدہ ہورہاہے۔ آج بھی دانش محل لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اس کی تہذیبی قدریں برقرارہیں ۔ ۔یہاں ہونے والی علمی ادبی بحث سے لوگوں کو کافی فائدہ پہنچتاہے۔اس طرح اس کی حیثیت ایک درس گاہ کی بھی ہے۔ آج بھی لوگ یہاں آکر ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اوراپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔یہاں آکر لوگوں کو کافی سکون محسوس ہوتاہے۔انھیں خصوصیات کی وجہ سے پروفیسر احتشام حسین دانش محل کو ’دارالقرار‘ اور ’دارالامان‘ کہاکرتے تھے۔ اس نظریئے سے دیکھاجائے تو محمد نعیم صاحب بہت زیادہ گھاٹےمیں نہیں ہیں ۔ بلکہ’ خسارے ‘میں ’منافعے ‘کاکاروبار کررہے ہیں ۔ ایسے ہی موقع کے لئے مفتی صدرالدین آزردہ نے کہاہے ؎
اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں ...اک جان کا زیاں ہے سوایسازیاں نہیں ۔
.........
کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
اخبار کی ملازمت چھوڑ کربنےمورخ ...سید نصیر احمد