علی رضا خان : ایک آٹو رکشا ڈرائیور سے کامیاب وکیل تک کا سفر
' یقیں مُحکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں'
"انسانی زندگی تغیرات سے عبارت ہے ۔ دنیا میں کسی چیز کو ثبات اور قرار حاصل نہیں ہے۔ یہی فطرت کا بھی اصول ہے۔ دن کے بعد رات آتی ہے اور رات کے بعد پھر دن آتا ہے۔ نا امیدی کے بعد امید کا چراغ روشن ہوتا ہے ، تاریکیوں کے بعد اُجالوں کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ہماری آج کی یہ حقیقی داستان فطرت کے اسی سنہرے اصول کی وضاحت کرتی ہے۔"
مہاراشٹرا کے شہر آکولہ کے متوطن علی رضا خان اپنے والد قاضی و خطیب محمد شہباز خان کی چھ زنانہ اور چار نرینہ یعنی کُل دس اولادوں میں چوتھی اولاد ہیں۔ زندگی کی جدوجہد نہایت کم عمری سے ان کا مقدار بن چکی تھی۔ ان کے سب سے بڑے بھائی اور ان کے درمیان دو بہنیں تھیں جن کی شادی نہایت کم عمری میں کردی گئی تھی ۔ بقیہ6 بھائی بہن ان سےعمر میں چھوٹے تھے۔ ان کے والد کی مستقل آمدنی کا ذریعہ ختم ہوجانے کی وجہ سے گھر کے حالات مالی مشکلات کے شکنجے میں پھنس گئے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ علی رضا خان کو بارہویں جماعت کے بعد اپنی پڑھائی کے سلسلے کو منقطع کرنا پڑا ۔ حالانکہ وہ تعلیمی اعتبار سے اعلیٰ اوسط سطح کے حامل تھے لیکن حالات کی چکی میں پِس جانے کے بعد انہوں نے بھرے پُرے خاندان کے سارے افراد کی شکم پُری کی ضرورت کوترجیح دی اورانہیں بارہویں کے بعد اپنی تعلیم کو خیر باد کہہ دینا پڑا۔
انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر مختلف جگہوں پر یا توچھوٹی موٹی ملازمت کی یا پھر چھوٹے موٹے کاروبار کئے۔ لیکن چونکہ پاس سرمایہ کچھ نہیں تھا اس لئے جوکچھ پاس ہوتا وہ بھی ختم ہوجاتا۔ دونوں بھائی کبھی کٹلری سامان بیچتے ، کبھی اُبلے انڈوں کی دکان لگاتے، کبھی سبزی کی دکان لگاتے۔
' یور اسٹوری' کے لئے ہم سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،"ان دنوں زندگی خود ایک سخت امتحان تھی اس لئے اسکول یا کالج کے امتحانات دینے کا خیال ہی نہیں آیا۔ جب کبھی دوستوں کو کالج جاتا دیکھتا تو دل ہی دل میں کُڑھن ہوتی کہ کاش، میں بھی کالج جاتا۔ لیکن مجھے تو زندگی کے اس کَڑے امتحان سے گزرنا بھی تھا اور اس میں کامیاب بھی ہونا تھا ۔ پہلے ہم نے کچھ چھوٹے کاروبار کئے اور جو کچھ بھی اس میں لگایا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹے۔ پھر کچھ نجی ملازمتیں کیں۔ غلامی راس نہیں آئی تو اللہ کا نام لے کرمیں نے آٹو رکشا چلانا سیکھا، لائنسنس حاصل کیا اور پھر شروع ہوگئی زندگی کی دوڑ، ایک نئی مسابقت جس کے بارے میں کبھی سوچا نہ تھا۔"
بڑے بھائی دُھن کے پکے تھے اور پڑھائی میں بھی ذہین تھے اس لئے انہوں نے محنت کے علاوہ اپنا ذاتی مطالعہ اور پرائیویٹ تعلیم بھی جاری رکھی۔ وہ علی رضا کوبھی سمجھاتے کہ دیکھو، ہم کام بھی کریں گے اور پرائیویٹ تعلیم بھی جاری رکھیں گے۔ لیکن علی رضا پر بس ایک ہی دُھن سوار تھی کہ گھر کی گاڑی کیسے کھینچی جائے۔ انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ ان محنت مشقت کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیں۔ اس وقت ان کا ماننا تھا کہ وہ اتنے ذہین نہیں ہیں جتنے ان کے بڑے بھائی ہیں لہٰذا پڑھائی کا کام بڑے بھائی ہی کریں۔
بڑے بھائی نے ملازمتوں اور دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی ۔ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی لہٰذاانکے گریجویشن کے بعد انہیں ایک انگریزی کانونٹ میں نہایت کم تنخواہ پرہی سہی لیکن ملازمت مل گئی۔ اگرچہ یہ تنخواہ گھر چلانے کے لئے منجن کا کوئلہ ثابت ہوتی تھی لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر تھا ۔
علی رضا نے آٹو رکشا ڈرائیونگ کو اپنی تقدیر تسلیم کرلیا تھا۔ انہوں نے اسی سمت اپنا ذہنی سفر جاری رکھا۔ انہوں نے کئی اسکولوں کے بچوں کو ماہانہ بنیاد پر اپنے آٹو میں اسکول لانے لے جانا شروع کیا۔ چونکہ ان کے اخلاق اور ان کا طرزِ عمل بہت عمدہ تھا اور ان کے مزاج میں ظرافت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے ہر طبقے اور ہر مذہب کے بچے ان کےآٹو میں جانا پنسد کرتے تھے۔
دوبارہ تعلیم کا اجراء:
اسی دوران ان کے بڑے بھائی نے انہیں اپنی ادھوری تعلیم دوبارہ جاری کرنے کا تقاضہ کرنا شروع کردیا۔ دو برس کا عرصہ علی رضا کو آمادہ کرنے میں بیت گیا۔ وہ کہتے ہیں،"میرے بڑے بھائی مجھے ہمیشہ تحریک دیتے کہ میں آٹو چلانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھوں۔ لیکن میں نے تو جیسے اسی پیشے کو اپنا مقدر سمجھ لیا تھا۔ دو برس تک مسلسل وہ میرے دماغ میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کی بات نقش کرتے رہے۔ یہ ان کا اخلاص اور میرے تئیں ان کی محبت اور ان کی دور اندیشی اور دور رسی تھی ۔ انہوں نے شائد مستقبل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا کہ میری منزل یہ آٹو رکشا نہیں ہے ۔ یہ تو محض ایک عارضی ذریعہ ہے شکم پری کا۔ "
آخر کار وہ وقت آہی گیا جب انہوں نے گریجویشن میں پرائیویٹ طور پر داخلہ لے ہی لیا۔ یوں ان کی پڑھائی کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ وہ آٹو بھی چلاتے، بچوں کو اسکول لاتے لے جاتے اور امتحانات نزدیک آتے ہی پندرہ بیس روز تک آٹو چلانے سے پرہیز کرتے اور امتحانات کی تیاری کرتے۔ چونکہ امتحانات کے دن اسکولوں کی تعطیلات کے دن بھی ہوتے تھے اس لئے بچوں کی طرف سے انہیں بے فکری ہوتی تھی۔
'کون کہتا ہے کہ مشکل کی طرف جاتا ہے
یہ وہ رستہ ہے جو منزل کی طرف جاتا ہے'
جب انہوں نے گریجویشن مکمل کرلیا تو ان کے بھائی نے انہیں ایل ۔ ایل۔ بی کرنے کا مشورہ دیا اور انہوں نے یوں ایل ۔ ایل۔ بی میں داخلہ لے لیا۔ اب حال یہ ہوا کہ ایک طرف وہ کالج جاتے اور اپنی دلچسپی کی وجہ سے جماعت میں دیگر طلباء کے مقابلے اچھی پوزیشن حاصل کرتے وہیں دوسری طرف وہ صبح اور شام، اپنا آٹو رکشا چلاتے۔ کبھی کبھی انہیں ایک عجیب و غریب صورتِ حآل کا سامنا کرنا پڑتا جس کے بارے میں وہ بتاتے ہیں،"میرے کالج میں میرے ساتھ اچھے گھروں کے لڑکے لڑکیا ں بھی پڑھتے تھے۔ میں ذہین تھا اس لئے ان لوگوں میں میری بہت اچھی امیج بنئی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں آٹو چلارہا ہوتا اور سامنے سے گاڑی پر میرے کالج کاکوئی ساتھی گزرتا تو میں اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیتا کہ کہیں وہ مجھے دیکھ نہ لے۔ مجھے خدشہ لاحق ہوتا کہ کہیں کالج میں میری اچھی امیج کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ ایک برس تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر بھائی صآحب نے کہا کہ تم اب اگلے دو برس تک آٹو نہیں چلاؤگے۔ صرف پڑھائی کرو۔ یوں میں نے اپنی پڑھائی مکمل کرلی اور فرسٹ کلاس میں وکالت کا امتحان پاس کرلیا۔"
حقوقِ انسانی کے جہد کار:
چونکہ وہ ابتداء ہی سے ایک انصاف پسند شخص رہے ہیں اس لئے اپنے آس پاس ہورہی کسی بھی نا انصافی ان سے برداشت نہں ہوتی تھی۔ دیگر آٹو رکشا والوں کے ساتھ ساتھ کسی اور شعبہ میں بھی اگر کہیں نا انصافی ہورہی ہو توعلی رضا فوراً مدد کے لئے پہنچ جاتے تھے۔ وہ حقوقِ انسانی کے جہد کار کی حیثیت سے بھی کام کرنے لگے ۔ اسی دوران جب انہوں نے وکالت میں داخلہ لیا تو یہ شعبہ ان کی دلچسپی کا شعبہ ثابت ہوا۔ انہوں نے اسکولی بچوں ، غریب و مفلس خواتین، افراد، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھانی شروع کردی۔ اپنی غربت کے زمانے میں بھی انہوں نے دیگر لوگوں کے لئے آواز بلند کی اور ان کے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ اسی درمیان ان کی زندگی میں ایک اہم واقعہ پیش آتا جس نے انہیں ریاست بھر میں معروف شخص بنادیا۔ آج وہ خود "انڈین ہیومن رائٹس اسوسی ایشن" نامی غیر سرکاری تنظیم چلاتے ہیں جس کے سر براہ وہ خود ہیں۔
معاصر وزیرِاعلیٰ ولاس راؤ دیشمکھ سے ملاقات، نمائندگی اور تیقن :
ریاستی حکومت نے جب اقلیتی طلباء کے لئے پری میٹرک اسکالر شپ کی اسکیم شروع کی تو اسی کے ساتھ اقلیتی طلباء کےلئے سو روپئے کے بانڈ پیپر پر اپنا اقلیتی طبقہ سے ہونے کا تصدیق نامہ لکھ کر دینا لازمی کردیا۔ ابتداء میں کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ۔ لیکن علی رضا خان فوراً اس نا انصافی کو سمجھ گئے اور اس غلطی کو حکومت کی نظر میں لانے کے لئے ریاست کے وزیرِ اعلیٰ جناب مرحوم ولاس راؤ دیشمکھ سے ملے۔
ریاست کے اقلیتی طلباء کے لئے تحفہ:
انہوں نے ولاس راؤ دیشمکھ صاحب کو بتایا کہ اسکالر شپ کے لئے عرضی تو ہر طالبِ علم داخل کرتا ہے لیکن اسکالر شپ صرف منتخبہ طلباء کو ہی ملتی ہے۔ اگر ہر طالبِ علم سے حکومت کو سو روپئے وصول ہوتے ہیں تو پھر اسکالر شپ اسکیم کا فائدہ ہی کیا ہوگا؟ ولاس راؤ جی نے علی رضاخان نے وعدہ کیا کہ وہ اس بات پر غور کریں گے اور واقعی کچھ دنوں بعد ضلع کلکٹر کے ذریعے انہیں خط موصول ہوا کہ اسکالر شپ کے امیدواروں کے لئے سو روپئے کے بانڈ پیپر والی شرط ختم کردی گئی ہے اور اب طلباء یہ تصدیق نامہ ایک سادے کاغذ پر دے سکتے ہیں۔ ریاست بھر کے غریب طلباء کے لئے یہ ایک تحفہ ثابت ہوا ۔ ایک مرتبہ جب ولاس راؤ دیشمکھ جی کسی پروگرام کے سلسلے میں اکولہ آئے تو حاضرین میں علی رضا خان کو دیکھ کر دور ہی سے پہچان گئے، انہیں بلایا اور پوچھا کہ آپ وہی ہیں نا جنہوں نے سو روپئے کے بانڈ پیپر والی شرط ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا ؟
وکالت کی تکمیل اور عدالت میں پہلا قدم:
علی رضا خان نے جب کورٹ جوائن کرکے فوراً ہی آزادانہ وکالت شروع کی تو اپنے پہلے ہی مقدمے میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابل ایک نہایت تجربہ کار اور سینئر وکیل تھے جو ایک نوجوان ایڈوکیٹ، علی رضا خان سے اپنا مقدمہ ہارگئے۔ مقدمے کے فیصلے کے بعد انہوں نے علی رضا خان سے کہا،" خان صاحب، میں در اصل اس لئے ہار گیا کہ میں نے آپ کو کم عمر اور کم تجربہ سمجھ کر بہت ہلکے انداز میں لیا اور مقدمے کی تیاری نہیں کی ۔ لیکن آپ نے اتنی کم عمر میں اتنی مشاقی سے مقدمہ لڑا کہ دوسرے نوجوان وکلاء دس پندرہ برسوں میں بھی اتنی مشاقی حاصل نہیں کر پاتے۔ "
اور اس کے بعد سے آج تک وہ ایک نہایت محنتی اور کامیاب وکیل ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے گزشتہ دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،"بہت سے لوگ اپنے ماضی کو بھُلادینا چاہتے ہیں۔ لیکن میں اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں ۔ میرا ماضی مجھ میں حوصلہ بھر دیتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے اپنی ماضی کو بھُلادیا تو پھر میرا حال مجھے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا موقع نہیں دے گا۔ میرے پُرانے دوست جو میرے ساتھ آٹو چلاتے تھے یا اسی قبیل کے کام کرتے تھے، آج بھی میرے دوست بنے ہوئے ہیں۔ آج میرے پاس میری اپنی کار ہے لیکن میرے دل میں اپنے دوستوں کے لئے وہی محبت جو پہلے تھی۔ اور میرے ان دوستوں کے دل میں میرے لئے پہلے سے بھی زیادہ احترام اور عزت ہے۔ یہی میری سب سے بڑی کمائی ہے کہ میں نے اپنے پیر زمین سے ٹِکائے رکھے۔ "
آج علی رضا خان ایک نوجوان لیکن پر عزم اور جرات مند وکیل ہیں جو ہائی کورٹ تک مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کئی جونئر وکلاء کام کرتے ہیں۔ خوش خلقی، ظرافت، معاملہ فہمی، جد و جہد، جی توڑ محنت،ایمانداری، جراتِ اظہار اور فعالیت ان کی ایسی صفات ہیں جن کی وجہ سے وہ سماج کے تمام طبقات اور حلقوں میں معروف و مقبول ہیں۔ وہ ان تمام نوجوانوں کے لئے ایک مثال اور تحریک ہیں جو بہانوں کی تلاش کرتے ہیں اور اپنی پست حوصلگی اور کم ہمتی کو بہانوں کے حوالے کرتے ہوئے زندگی میں کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے۔
'منزل انہی کا حق ہے جو اس کی طرف بڑھیں
پھرتے ہیں یوں تو کتنے ہی منزل کے آس پاس'