"غریب مریضوں کے لئے امید کی کِرن... امید ہاسپٹل "
تین ڈاکٹر دوستوں کی کامیاب کوشش
بیماری اور دواخانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ لوگ دعا کرتے ہیں کہ اللہ کسی انسان کو پولس اسٹیشن، عدالت اور دواخانے کا منہ کبھی نہ دکھائے۔ اور اگر دواخانہ کسی بڑے شہر میں ہو تو غریب مریض تو چھوڑئے، امیر لوگ بھی کانپ اُٹھتے ہیں۔ وجہ ؟ دواخانوں کی بھاری بھرکم فیس، اکثر ڈاکٹروں کا بے رحمانہ رویہ، ٹسٹ کے نام پر مختلف شعبوں کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں مریض کا استحصال وغیرہ ایسی وجوہات ہیں جن کے بارے میں سوچ کر اچھے اچھے لوگوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں,، کبھِ کبھی ان حالات میں بھی انسانیت کا کوئی چہرہ ابھرتا ہے اور یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے، کہ سب کچھ ویسا نہیں ہے، جیسا آپ سوچ رہے ہیں۔
ریاست مہاراشٹرا کے لاکھوں کی آبادی والے شہر آکولہ میں واقع ایک ایسے ہاسپٹل اور وہاں کے ڈاکٹر اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے بارے میں منفی خیالات کو مثبت شبہ ،میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔جن کا مقصد روپیہ کمانا نہیں بلکہ غریب مریضوں کی خدمت کرنا ہے۔ شہر کے نہایت مصروف اور اہم ترین علاقے میں واقع امید ہاسپٹل ان غریب مریضوں کے لئے ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ بڑی حد تک ہر قسم کے استحصال کے خوف آزاد رہ کر اپنی بیماری کا علاج کرواسکتے ہیں۔
امید ہاسپٹل چند ایسے ڈاکٹرس کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے جن کی فکر نہایت صالح ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ڈاکٹر بہت سینئر ہوں۔ بلکہ یہ نوجوان ڈاکٹرس کی ٹیم ہے جنہوں نے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ اپنی تعلیم پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کو وصول کرنے کے لئے ابتداء ہی سے مریضوں کے معاشی اور جذباتی استحصال کرنے والے ان ڈاکٹرس کے برخلاف ، امید ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے اپنے پیشے کو بنی نوع انسان کی خدمت کا وسیلہ سمجھا۔ یہاں انتہائی کم فیس میں مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی تو کیمپ کے ذریعے مریضوں کا علاج مفت بھی کیا جاتا ہے۔ ان ڈاکٹروں میں ڈاکٹر زبیر احمد کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔
ڈاکٹر زبیر احمد:
ڈاکٹر زبیر احمد ایک نے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ایم۔ بی ۔ بی ۔ ایس کے بعد ذیابیطس میں ایم۔ ڈی کیا۔ وہ شہر کے انگلیوں پر شمار کئے جانے والے ماہرِ ذیابیطس ڈاکٹر ہیں۔ ان کے والد جناب ریاض احمد پیشے سے ٹو اور تھری وہیلر گاڑیوں کے میکینک ہیں ،لیکن تعلیمی اعتبار سے وہ گریجویٹ ہیں اور اتنے ذہین رہے ہیں کہ جب وہ کسی بڑے شہر میں بجاج کمپنی کے آٹو سیمیار میں جاکر انگزیزی میں بات کرتے تھے تو وہاں موجود انجینئرس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ حیرت میں پڑجاتے تھے کہ ایک میکینک کیسے انگریزی میں بات کرتا ہے۔ ریاض احمد صاحب نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹری کی تعلیم دلوائی۔ ان کی ایک بیٹی یعنی ڈاکٹر زبیر احمد کی چھوٹی بہن بھی ایم۔ بی ۔ بی۔ ایس ہیں ۔
ڈاکٹر زبیر احمد اپنی تعلیمی زندگی میں ہمیشہ ایک ذہین طالبِ علم رہے ہیں۔ اسکولی زندگی میں جب کبھی ان کے مارکس کم آتے تو ان کے والد ایک بیدار ذہن سرپرست کا کردار ادا کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ سے سوال کرتے کہ ان کے بیٹے کے مارکس کس مضمون میں اور کیوں کم ہوئے ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے ڈاکٹر زبیر احمد کو اپنی اسکولی زندگی میں مشہور شاعر و ادیب، مترجم اور نقاد جناب خان حسنین عاقب کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ان کے معلم رہ چکے،جناب خان حسنین عاقب نے 'یور اسٹوری' سے بات کرتے ہوئے چونکانے والی بات بتائی،
"زبیر احمد چونکہ ایک ذہین طالبِ علم تھے اوران کے والد سے میرے بے تکلفانہ مراسم بھی تھے اس لئے ساتویں جماعت میں جب میں نے ریاض احمد صاحب کو مشورہ دیا کہ زبیر احمد کو انگریزی اسکول سے اردو میڈیم اسکول میں داخل کروادیجئے تو وہ بھونچکے رہ گئے۔ لیکن وہ میری بات کی تہہ تک پہنچ گئے اور ساتویں جماعت سے زبیر احمد اس شرط کے ساتھ اردو میڈیم اسکول میں داخل کروادئے گئےکہ میں اپنے گھر پر مسلسل ان کی رہنمائی کرتا رہوں گا ۔ لہٰذا جب زیبر احمد نویں جماعت میں تھے تو وہ میرے پاس پڑھنے والے بارہویں جماعت کے طلباء کو دئے گئے سوالات ان طلباء سے پہلے ہی حل کرکے مجھے بتادیتے تھے۔ زبیر احمد نےاردو اسکول میں بھی اپنی اول پوزیشن برقرار رکھی اور دسویں نیز بارہویں جماعتوں میں اول پوزیشن لاتے رہے۔ پھر ان کا داخلہ ایم۔ بی ۔ بی۔ ایس میں ہوگیا ۔ اس کے بعد تو یہ سب ایک کہانی جیسا لگتا ہے۔"
ڈاکٹر زبیر احمد نےاپنے دیگر ڈاکٹر دوستوں جواسکول میں ان کے ہم جماعت رہ چکے تھے، سے مل کر ایک ہاسپٹل شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ یوں امید ہاسپٹل کا قیام عمل میں آیا۔ اس اسپتال میں تین شعبے قائم ہیں۔ڈاکٹر زبیر احمد نے یور اسٹوری سے بات کرتے ہوئے کہا،
"ملک میں آج بھی صحت کے شعبے میں ڈاکٹروں کی بہت کمی ہے۔ اور جو ڈاکٹر ہیں تو وہ بھی شہری علاقوں میں پریکٹس کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے ، یہ کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن مریضوں کی خدمت سب سے اہم فریضہ ہونا چاہیے ۔ یہ پیشہ کاروبار بن چکا ہے۔ اس پس منظر مٰیں ہم تین لوگوں نے ملکِ عزیز کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ "
ڈاکٹر زبیر احمد خان کے ساتھ، ڈاکٹر سید امین اقبال ہیں اور ڈآکٹر منطر عالم ہیں کی ٹیم سے لوگ کافی متاثر ہیں۔
ڈاکٹر سید امین اقبال :
ڈاکٹر سید امین اقبال ایک فزیوتھیراپسٹ ہیں۔ وہ بمبئی کے مشہور کے ۔ ای۔ ایم ہاسپٹل، میں کام کرچکے ہیں۔ وہ آکیوپیشنل تھیراپسٹ بھی ہیں ۔ آکولہ کے مشہور "اسمائل ہاسپٹل" میں امراضِ اطفال کے ہیڈ آف د ڈپارٹمنٹ ہیں۔ ڈاکٹر امین اقبال کی خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ دماغی امراض میں مبتلاء بچوں کے لئے بازآبادکاری کلینک بھی چلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حادثات اور فالج سے متاثرہ مریضوں کی باز آبادکاری کلینک بھی چلاتے ہیں۔ وہ بہت ہنس مکھ شخصیت کے حامل ڈاکٹر ہیں۔ اسی مزاج کی سب سے زیادہ ضرورت اس پیشے میں ہوتی ہے اور ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ عمومی طور پر ڈاکٹرس خوش مزاج نہیں ہوتے۔ لیکن امید ہاسپٹل کے تمام ڈاکٹرس نہایت خوش اخلاق اور خوش مزاج ہیں۔ڈاکٹر امین اقبال نے یوراسٹوری کو بتایا،
"امید ہاسپٹل میں آنے والے مریض ہر مذہب اور ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نے اپنی پالیسی اسلام کی پالیسی کے مطابق بنائی ہے۔ یہاں ہر مریض کراہتا ہوا آتا ہے لیکن ہنستا ہوا اور فکروں سے آزاد واپس ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہم مریض کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ ہم پر بوجھ ہے یا پھر دواؤں کی قیمت ان کے لئے بوجھ ہے۔ ہم پہلے ان سے یہ بات معلوم کرلیتے ہیں کہ ان کی قوت خرید کتنی ہے اور اس کے لحاظ سے ہی ہم انہیں دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ہم ان کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آدھی بیماری تو ابتداء ہی میں غائب ہوجاتی ہے۔"
۔ ڈاکٹر مُنذِر عالم :
ڈاکٹر مُنذِر عالم امراضِ اطفال کے ماہر ہیں۔ جے۔ جے ۔ ہاسپٹل، ممبئی میں وہ مقیم ڈاکٹر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ آکولہ گورنمنٹ ہاسپٹل میں بھی میڈیکل آفیسر کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے 'یوراسٹوری' سے بات کرتے ہوئے کہا،
"ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں علاج معالجے کا شعبہ بہت کاروباری ہوگیا ہے۔ اور ہم تینوں کے ذہن میں شروع ہی سے یہ بات تھی کہ ہمیں صرف بولنا نہیں ہے بلکہ کر دکھانا ہے۔ ملک میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے اور بیمار بھی سب سے زیادہ غریب ہی ہوتے ہیں ۔ ہم نے مریضوں سے پیسے بٹورنے کے بجائے ان کی خدمت کرنے کا مقصد طے کیا اور آج ہم الحمد اللہ ، اپنے مقصد میں بہت کامیاب ہیں۔ غریب مریض جب ہمیں دعائیں دیتے ہوئے جاتے ہیں تو ایک دِلی اطمینان ہوتا ہے۔"
غریب مریضوں کے لئے "امید ہاسپٹل" کے سماجی نوعیت کی خدمات :
امید ہاسپٹل جہاں ایک جانب مریضوں سے نہایت کم فیس لیتا ہے اور دوائیں دینے کے معاملے میں بھی احتیاط سے کام لیتا ہے تاکہ مریضوں کو بہت زیادہ قیمتی دوائیں خریدنے کا بوجھ نہ اٹھاناپڑے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ایسے کام ہیں جو امید ہاسپٹل اپنی استطاعت کے مطابق کرتا رہتا ہے ۔ یہ کام سماجی نوعیت کے ہیں ۔ ان کاموں میں عالمی یومِ ذیابیطس، عالمی یومِ اطفال ، عالمی یومِ معذورین کا انعقاد کرنا ، مختلف پروگرامس کے ذریعے مستحق مریضوں میں دوائیں تقسیم کرنا، مختلف امراض کے لئے مفت معالجاتی کیمپ منعقد کرنا جیسے مفید العوام پروگرامس شامل ہیں جو امید ہاسپٹل میں ایک سال میں کئی مرتبہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان پروگرامس اور کیمپس میں غریب اور مستحق مریضوں کی تشخیص، معالجہ اور دوائیں تک مفت میں دی جاتی ہیں۔ 'یوراسٹوری' امید کرتی ہے کہ "امید ہاسپٹل" ہمیشہ اسی طرح ملک کی خدمت کرتا رہے گا۔
کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں...
معاشرے کے طعنوں نے بدل دی زندگی، آج مخصوص اہلیت کے حامل دوسو بچّوں کی’ماں‘ ہیں سویتا