مولانا جہانگیرعالم قاسمی کاادارہ...جدوجہد کااستعارہ
عام سوچ یہ ہے کہ جب حالات سازگارہوں ، تمام سہولیات دستیاب ہوں اور راستہ بالکل ہموار ہوتب کوئی کام کیا جائے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو نامساعدحالات میں کام کرنے میں زیادہ مزہ آتاہے۔ ایسے لوگوں کی خصوصیت ہوتی ہے کہ جتنی زیادہ مشکلات سامنے آتی ہیں ان کے جوش وجنوں میں اتناہی زیادہ اضافہ ہوجاتاہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت کانام ہے مولانا جہانگیرعالم قاسمی ۔ مولاناقاسمی کاادارہ واقعی جدوجہد کا استعارہ ہے۔ ایک معلم کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کاآغاز کرنے والے مولانا قاسمی آج لکھنؤ کے مشہور فلاحی ادارے ’انجمن فلاح دارین‘ کے سربراہ ہیں ، جس کے تحت بہت سے دیگر ذیلی ادارے کام کررہے ہیں ۔
ایک اچھے مقرر کی حیثیت سے بھی مشہور مولانا جہانگیرعالم قاسمی کا آبائی وطن ضلع دربھنگہ ، بہار ہے۔ انھوں نے کلکتہ کے ایک اسکول سے ہائی اسکول امتحان پاس کرنے کے بعد اترپردیش کے ضلع مرادآبادکے مدرسہ شاہی سے عالمیت کی سندحاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے دیوبندکارخ کیا۔ ایشیاء کے ممتاز تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند سے سند ِ فضیلت حاصل کرنے کے بعد لکھنؤکو اپنا میدان ِعمل بنایا۔یہاں وہ ایک مدرسے میں تدریسی اور امین آباد علاقے میں چکمنڈی کی مسجد جمعیتہ القریش میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے۔ لیکن چوں کہ قدرت نے مزاج تحریکی بنایاتھا اس وجہ سے زندگی میں کچھ کمی اور بے چینی محسوس ہوتی تھی۔ انھیں اس بات کا شدید احساس باربار ہوتاتھا کہ سماج کے لئے کچھ کرناچاہئے۔ انھوں نے بے سروسامانی کے عالم میں سماجی کام شروع کردیا اور ہزاردشواریوں کے باوجود قدم آگے بڑھاتے رہے۔بالکل سچ کہا گیا ہے۔’ہمت ِمرداں ، مددِخدا‘۔ مولانا قاسمی نے یوراسٹوری کو بتایا:
’’لکھنؤ آیا تو تدریس وامامت سے وابستہ ہوگیا۔ اس سے آمدنی آتنی ہی ہوتی تھی جتنے سے بمشکل اپناگھر چلایاجاسکتا تھا۔ بلکہ اندرون ِخانہ تنگدستی ہی رہتی تھی ، لیکن باہر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ سماج کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر کچھ کرنے کاجذبہ پیدا ہوتاتھا، لیکن وسائل کی کمی تھی۔ میں نے سوچاکہ وہ کون ساکام ہے جس کی سماج کو ضرورت ہے اور میں وہ کام بغیر پیسے کے کرسکتا ہوں ۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے آس پاس بہت سے ایسے غریب خاندان ہیں جن کے بچے اچھے ٹیوشن یاکوچنگ نہ ملنے اور رہنمائی کی کمی کے سبب تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے، حالاں کہ وہ ہونہار اور ذہین ہوتے ہیں ۔ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ربط وضبط بڑھایا اورانھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ جونوجوان جس مضمون میں اچھی لیاقت رکھتا ہے وہ غریب بچوں کو مفت میں ٹیوشن؍ کوچنگ پڑھائے۔ اس سے دوفائدے ہوئے ایک توغریب طلبا کا بھلاہوا دوسرے متعلقہ نوجوان کو پڑھانے کے دباؤ سے اس مضمون پر نظر ثانی کاموقع ملا جوآگے چل کر اس کے کیریئر میں مفید ثابت ہوا۔‘‘
جب کچھ نوجوان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے تومولانا قاسمی نے اپنے کام کو منظم انداز میں انجام دینے کے لئے1988میں نوجوانوں کی ایک تنظیم ’ندائے حق ‘ کے نام سے قائم کی جس کے تحت مفت ٹیوشن اورچھوٹے موٹے سماجی کام ہونے لگے۔ اس تنظیم کے تحت تعلیمی وتربیتی کام جاری تھا کہ 1992میں بابری مسجد کاسانحہ پیش آگیا۔ شہر میں کرفیولگ گیا۔ یومیہ مزدوروں ،ٹھیکے والوں اور غریبوں کے گھر وں میں چولھے جلنے بند ہوگئے۔ بچے بھوک سے بلبلانے لگے۔ ان حالات میں مولانا نے اہل ثروت حضرات سے امداد طلب کرکے غریبوں میں غلے، رقم اور اشیائے ضروریہ تقسیم کیں ۔ اس کارخیر سے مولانا کا قدمزید بڑھ گیا۔ غریبوں کی امداد کے لئے جو چندہ جمع ہواتھا اس میں سے1617روپئے بچ گئے۔ اس رقم سے ’مولانا عبدالشکور لائبریری ‘قائم کی گئی لیکن بعد میں اس لائبریری کا نام بدل کر ’ فلاحِ ملت لائبریری‘ رکھا گیا۔ اسی دوران علاقے میں کچھ ایسے دردناک واقعات پیش آئے، جنھوں نے مولانا کو جھنجھوڑکررکھ دیا، جس کے بعدانھوں نے 1992میں ’فلاحی بیت المال‘ کی بنیادرکھی۔ مولاناقاسمی نے یوراسٹوری کو بتایا:
’’یہاں دوایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے مجھے مضطرب کردیا۔ پہلا سانحہ یہ رونماہوا کہ ایک غریب خاندان کی دوحقیقی بہنوں کی ٹی بی سے موت ہوگئی۔ غریبی کے سبب ان کا معقول علاج نہ ہوسکا۔ اسی طرح محلے میں ایک اور لڑکی مہلک مرض میں مبتلا ہوکر مرگئی۔ غربت کے سبب اس کو بھی مناسب طبی سہولت نہ مل سکی۔ میں نے سوچاکہ ایسا کیوں ہورہا ہے جب کہ اس محلے میں مالداروں کی ایک بڑی تعداد ہے؟ بلندوبالا عمارتوں کے درمیان اس طرح کے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں ؟؟ غور کیا تومعلوم ہواکہ کوئی ایسی مقامی تنظیم نہیں ہے جوامدادی کام انجام دے سکے۔ مقامی دولت مندوں کی زکوٰۃ ، خیرات اور عطیات پر بیرونی چندہ بازوں کی اجارہ داری ہے۔ امیرلوگ اپنی رقم بیرونی لوگوں کودے کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ فریضہ ادا ہوگیا۔ لیکن جب مقامی سطح پر کوئی آفت، مصیبت یاضرورت پیش آتی ہے تو نہ تو بیرونی چندے باز نظر آتے ہیں اورنہ ہی مقامی ثروت مندافراد۔ اسی صورت ِحال کے پیش ِنظر میں نے مقامی سطح پر کام شروع کیا اور فلاحی بیت المال کی بنیادڈالی۔
مولاناقاسمی نے فلاحی بیت المال کے تحت ایک روپیہ اسکیم شروع کی ۔ جس کے تحت لوگ روزآنہ ایک روپیہ نکال کر گھر میں کہیں رکھ لیتے تھے اور بعد میں فلاحی بیت المال کودے دیتے تھے۔ اس طرح ردی اسکیم شروع کی گئی جس کے تحت لوگوں سے ردی اخبار اور پرانے کپڑے دینے کی اپیل کی گئی۔ جوردی اخبار ملتا تھا اس سے غریب بچیوں کو کپڑے کی کٹنگ سکھائی جاتی تھی اور باقی ردی فروخت کردی جاتی تھی۔ اسی طرح وہ پرانے کپڑے جو اچھی حالت میں ہوتے تھے وہ غریبوں میں تقسیم کردیئے جاتے تھے۔ باقی کپڑوں سے سلائی سکھائی جاتی تھی اور باقی ماندہ کپڑے ردی میں فروخت کردیئے جاتے تھے۔ ایک سال بعد1993میں پہلی بار رمضان میں فلاحی بیت المال میں 40ہزارروپئے زکوٰۃ کے جمع ہوئے۔
پھرفلاحی بیت المال بخوبی چلنے لگا۔ اس کام میں ادارے کے جنرل سکریٹری محمداسلام فیصل اور محلے کے نوجوانوں نے کافی مددکی۔ اس کے بعدمولانا قاسمی نے پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔ وہ مزید آگے بڑھتے گئے... آگے برھتے گئے... اورآگے بڑھتے گئے...تکنیکی وجوہ سے فلاحی بیت المال کو ذیلی ادارہ بنادیاگیا اور اس کی جگہ ’انجمن فلاح دارین‘‘ کو رجسٹرڈکرایاگیا۔انجمن کے تحت یکے بعد دیگرے بہت سے ادارے قائم کئے گئے۔ ذیلی اداروں میں فلاحی بیت المال ، فلاح ملت لائبریری، بزم فلاح اردو، الفلاح لیڈیز ٹیلرنگ سینٹر، الفلاح کلینک ، الفلاح شبینہ اسکول، عائشہ لائبریری برائے خواتین قابل ذکر ہیں ۔ انجمن فلاح دارین کے درج اغراض مقاصد ہیں ۔
٭بے روزگارغرباء کو روزگار کے لئے مالی مددکرنا
٭بے سہاراغریبوں کی مالی مددکرنا
٭غریب بچیوں کی شادی میں مالی مددکرنا
٭غریب طلباء کو حصول تعلیم میں مالی مدد کرنا
٭غریب مریضوں کوہر ممکن طبی سہولت فراہم کرنا
٭خواتین میں دینی وتعلیمی بیداری پیداکرنے کے لئے اجتماع کرنا
٭قدرتی آفات کے شکار افراد کی ہرممکن امداد کرنا
لیکن رکئے... یہ سارے کام اتنی آسانی سے نہیں ہوگئے جتنی آسانی سے بیان کردیئے گئے... مولانا جہانگیر قاسمی کو یہاں تک پہنچنے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جان سے کھیلنا پڑا۔ حد تویہ ہے کہ کام روکنے کے لئے ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی سطح سے دباؤڈلوایا گیا۔ لیکن مولانا کی ثابت قدمی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ مختصراً مولانا کی زبانی سنئے:
’’جب ہم نے فلاحی بیت المال کی بنیادرکھی توسیاسی طورپرانتہائی بااثر ایک شخص میرامخالف ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں اس کی چندے کی اجارہ داری تھی۔ جب مقامی باشند ے فلاحی بیت المال کومفید سمجھ کر اس کو چندہ دینے لگے تو اس شخص کا چندہ بند ہوگیا۔ اس سے وہ چراغ پاہوگیا۔ میرے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہونے لگیں ۔ میرے اوپر تینبار ناکام قاتلانہ حملہ ہوا۔ پی ایم او سے دباؤ ڈلوایا گیا۔ تمام خفیہ ایجنسیاں سرگرم ہوگئیں اور آئے دن طرح طرح کے سوالات کرنے لگیں ۔ جانچ پڑتال کی گئی۔ مجھے ڈی جی پی دفتر میں طلب کیا گیا تومیں نے بڑی صاف گوئی سے کہا کہ اگرمیرے خلاف کسی قسم کاکوئی ثبوت ہے تومجھے فوراً گرفتارکرلیا جائے ورنہ مجھے اپناکام کرنے دیا جائے۔ میں نے کہا میں سماجی خدمت کرنا چاہتاہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی کوئی زندگی نہیں جو صرف اپنے لئے جیتے ہیں ۔ کئی افسران میری باتوں سے متاثر ہوئے اور کہا آپ اپناکام کیجئے ،ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اگرکوئی پریشان کرے توفوراًبتائیے۔ پھر مقامی باشندوں کوورغلایاگیا۔ بہاری کہہ کر بداعتمادی پیدا کی گئی اور آخرمیں ضلع مجسٹریٹ وایس ایس پی کی موجودگی میں ووٹنگکرائی گئی۔ سارے ووٹ میرے حق میں پڑے۔ صرف ایک ووٹ میرے خلاف گیا۔ یہ سب واقعات اخبارات کی سرخیاں بنے۔لیکن ووٹنگ کے بعد مخالفین شکست خوردہ ہوکر بیٹھ گئےاور میراکام مزید تیزرفتاری سے آگے بڑھنے لگا۔‘‘
مولانا جہانگیر عالم قاسمی آج اور بھی جوش وخروش کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ نئے نئے منصوبے بنارہے ہیں ۔ ان کا ایک بڑاخواب ہے ایک شانداراسپتال کاقیام۔ اس کے علاوہ یہ بھی ان کے مستقبل کے پروگرام ہیں ۔ لڑکے ولڑکیوں کے لئے صنعتی اداروں کا قیام، میٹرنٹی ہوم کا قیام، موبائل شفاخانہ، بناسودی قرض اسکیم، ایسے اسکولوں کا قیام جن میں دینی اور عصری علوم کا امتزاج ہو۔ مولانا جس خلوص سے اپنے مشن میں لگے ہیں اس سے اندازہ ہوتاہے کہ جلد ہی ان کے مذکورہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائیں گے۔
..............
جد و جہد کے سفر سے کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے FACEBOOK پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
یہ کہانیاں بھی ضرور پڑھیں۔
...........
انسانیت ،محبت اوراتحاد ِ مذاہب کاعلمبردار ’مانوکلیان سیوادھرم‘
ڈاکٹر کلثوم مرزا نے حیدرآباد میں کھولاخواتین کا پہلا ڈینٹل ہاسپٹل