جذبۂ خدمت رکھنے والے تاجروں کی کوششیں رنگ لائیں ... ٹیکنالوجی کے استعمال نے بدلی دیہی ہندوستان کی تصویر ...
ہندوستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں ایسی کئی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں جنہوں نے شہروں کو چھوڑ کرگاؤوں کا رُخ کیا اوراپنی کوششوں سے وہاں رہنے والے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کا سبب بنیں۔ اِن ’ اسٹارٹ اپ‘ کمپنیوں نے ٹیکنالوجی کا جو بہترین استعمال کیا وہ قابلِ تعریف ہے ۔عموماً ایسا سمجھا جاتاہے کہ ٹیکنالوجی شہری علاقوں میں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے، دیہی علاقوں میں نہیں، لیکن اِن مبتدی کمپنیوں نے ثابت کردِکھایا کہ اگر صحیح طریقے سے اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو وہ گاؤں کے باشندوں کو بھی اتنا ہی فیض پہنچا سکتی ہے، اور ٹیکنالوجی کے حسبِ ضرورت استعمال سے دیہی علاقوں کی حالت بھی بہتر ہوسکتی ہے ۔ آئیے، جائزہ لیتے ہیں ایسی ہی کچھ کمپنیوں کا، جو اپنی کوششوں کی بدولت مثبت تبدیلیاں لانے میں کامیاب رہیں۔
’سیل کو‘ (Selco):
ہریش هانڈے نے اپنی کمپنی ’سیل کو‘ کے ذریعے دیہی علاقوں میں رہنے والے غریب لوگوں کی زندگی کو روشن کیا ۔ آئی آئی ٹی كھڑگ پور سے انجینئرنگ کرنے کے بعد ہریش امریکہ گئے، لیکن پھر ہندوستان آ گئے اور 1995 میں بہت ہی معمولی رقم سے ’سیل کو‘ انڈیا کی شروعات کی ۔ کمپنی کا مقصد تھا شمسی توانائی کے استعمال سے گاؤں، دیہاتوں کی ترقی ۔ ابتدائی مشکلات اور پریشانیوں کے بعد کمپنی نے بہتر ڈھنگ سے کام کرنا شروع کر دیا ۔ انہوں نے فرسودہ اور روایتی تکنیک میں کچھ اصلاحات کیں۔ ہریش نے گاؤں کے غریب لوگوں کو آسان قسطوں پر شمسی توانائی یعنی سولار انرجی کے سسٹم فراہم کروائے۔ آج ’ سیل کو‘ کرناٹک، گجرات، مہاراشٹر، بہار اور تمل ناڈو میں بخوبی کام کر رہا ہے اورہندوستان کے گاؤں، دیہاتوں کو روشن کرنے کے مقصد سے ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہے ۔
’نینوپِکس‘ (NanoPix) :
’نینوپِکس ‘ کی شروعات ششی شیکھر کرِش نے کی ۔ وہ آٹومیٹڈ كیشيوسورٹنگ فوڈ پروسیسر ڈیولپ کرکے اُسے کاجو کےکاشتکاروں کو فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسی مشین تیار کی ہے جس کے ذریعے کاجو کو کوالٹی اور سائز کی مناسبت سے الگ الگ کیا جا سکتا ہے، جو کہ عموماً کافی مہنگا کام ہوتا ہے اور اِس کام کے لئے مخصوص مزدور بھی نہیں ملتے۔ ششی کے اِس کام سے کاجو کی کاشتکاری کرنے والے اُن غریب کسانوں کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے جو زیادہ پیسہ خرچ کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال سے اُنہوں نے غریب کسانوں کی کافی مدد کی ۔ 18 ماہ کی محنت طلب تحقیقات کے بعد انہوں نے مذکورہ مشین تیار کی ۔ یہ مشین کاجو کی پروسیسنگ کے بعد گرائینڈنگ کا کام کرتی ہے ۔ اِس سے پہلے ایسی کوئی مشین نہیں تھی جو یہ کام کرسکتی ۔
’آئی کیور ٹیک سافٹ ‘ (iKure Techsoft) :
’آئی کیور ٹیک سافٹ‘ کے بانی’ سُجئے سانتھرا ‘ہیں۔ وہ اپنی کمپنی کے ذریعے دیہی علاقوں کے لوگوں کو طبّی سہولیات دے رہے ہیں ۔ یہ لوگ دیہی علاقوں میں کام کر نے والے این جی او کی مدد بھی لے رہے ہیں ۔ ’آئی کیور ‘ کی اپنے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھی ہے اور یہ کافی سستے دامو ں میں لوگوں کو طبّی سہولیات دیتے ہیں ۔’ آئی کیور ‘ میں ای سی جی، شوگر چیک اپ اور بلڈ پریشر چیک اپ کی بھی سہولیات ہیں ۔’آئی کیور ‘ نے اپنا ایک نیٹ ورک ’ وِہمس‘ (Wireless Health Incident Monitoring System) شروع کیا ہے جو انٹركنیکٹیڈ ہے اور اِس میں یہ تمام تفصیلات جمع کرتے ہیں، جیسے مریضوں کی بیماری سے متعلق، ڈاکٹروں کی موجودگی وغیرہ ۔ ’ آئی کیور ‘ تقریباً 110 گاؤوں میں 13 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنی طبّی سہولیات دے رہا ہے ۔
’ایمپئیر وہیکلس‘((Ampere Vehicles :
’ایمپئیر وہیکلس‘ کی بنیاد ’ہیم لتا انّاملائي‘ نے 2007 میں رکھی۔’ایمپئیر وہیکلس‘ ایسی گاڑیاں بناتا ہے جس سے ماحولیات کو نقصان نہیں پہنچتا ۔ یہ لوگ تمل ناڈو میں سرگرمِ عمل ہیں ۔انہوں نے اپنی گاڑیوں کو اِس طرح سے ڈیزائن کیا ہے کہ اِن کا استعمال جسمانی طور پر معذور اور غیر فعال لوگ بھی کر سکتے ہیں ۔ یہ گاڑیاں سستی تو ہیں ہی ،مگر ساتھ ہی ساتھ اِن کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی کافی کم ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ گاڑیاں اطراف کے ماحول کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتیں ۔
’ایم پانی‘(m.PAANI):
’ایم پانی‘ موبائل سے منسلک ایک ’ریوارڈ‘ پروگرام ہے ۔ اگر کوئی شخص ’ایم پانی‘ کا ممبر بن جاتا ہے اور ’ایم پانی‘ کی پارٹنر کرانہ کی دکانوں سے سامان خریدتا ہے تو اسے ’ریوارڈ پوائنٹ ‘ دیئے جاتے ہیں ۔ یہ پوائنٹس غریب لوگوں کے لئے کافی کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ تحفتاً حاصل کئے گئے اِن ’ ریوارڈ پوائنٹس ‘کے ذریعے لوگ انگریزی سیکھ سکتے ہیں، اپنا ہیلتھ چیک اپ کروا سکتے ہیں ،اِس کے علاوہ بھی کئی ایسی سہولیات ہیں جو اِن پوائنٹس کی بدولت آپ حاصل کر سکتے ہیں ۔ اِس کے علاوہ مختلف’ایجوکیشنل کوئز‘ میں حصّہ لے کر بھی لوگ پوائنٹ حاصل کر سکتے ہیں، اور پھر اِن پوائنٹس کوحسبِ ِضرورت استعمال کر سکتے ہیں ۔
’بوند‘ (Boond) :
’بوند‘ ایک سوشل انٹرپرائز ہے جس کی شروعات ’ رُستم سین گپتا‘ نے کی ۔ وہ سنگاپور میں ایک ملٹی نیشنل بینک میں اعلیٰ عہدے پرفائز تھے لیکن انہوں نے ہندوستان آکر زمینی سطح پر کام کرنے کی ٹھانی اور سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان آ گئے ۔ انہوں نے گاؤں اور شہروں کے فرق اور فاصلے مٹانے کی کوشش کی ۔ گپتا نے سولار لالٹین، پانی کے فلٹر، چولہے، ڈائينامو لیمپ اور مچھرّدانی جیسی مخصوص مصنوعات کو فروخت کرنے اور اُن کے رکھ رکھاؤ کا ایک ماڈل تیار کیا ۔ یہ اِس طرح کام کرتا ہے کہ جب کوئی عطیہ کرنے والا شخص کسی مصنوعات کو خریدلیتا ہے تو اُسے مقامی تاجروں یا غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے مطلوبہ مقامات پر بھیج دیا جاتا ہے، پھرگاؤں والے ان مصنوعات کو خرید تے ہیں اور اس کی ادائیگی قسطوں میں کرتے ہیں ۔ سودا کرانے والے مقامی ایجنٹوں کو اُن کی خدمات کے لئے کمیشن ملتا ہے ۔ عطیہ کی رقم، جو عام طور پر قرض کا کام کرتی ہے، عطیہ دہندہ کو لوٹائي جا سکتی ہے یا پھر اُسے کسی دیگر سودے میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
’بیمپو‘ (Bempu) :
’رتُل نارائن‘ نے ’بیمپو‘ کی شروعات 2013 میں کی ۔ وہ امریکہ میں پیدا ہوئے لیکن اب وہ ہندوستان میں ہی رہتے ہیں اور دیہی علاقوں میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں ۔ رتُل نے دیکھا کہ دیہی ہندوستان میں بچّوں کو کئی انفیکشن بڑی آسانی سے ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اُنہوں نے ایک ایسا کڑا (Bracelet)تیار کیا جسے اگر بچّے کے ہاتھ میں باندھ دیا جائے تو وہ بچّے کے درجۂ حرارت پر نظر رکھتا ہے اورانتہائی درجہ کم ہونے پر الارم بجا دیتا ہے، جس سے اس کے والدین کو پتہ چل جاتا ہے اورصحیح وقت پر بچّے کا مناسب علاج ہو پاتا ہے ۔
’ایمبریس‘ (Embrace) :
’ایمبریس وارمر ‘ سینڈفورڈ یونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے ایک کلاس پروجیکٹ کے طور پر شروع ہوا تھا۔ طلباء نے نوزائیدہ بچّوں کے لئے ایک ’ وارمر‘ بنایا، جو دراصل نوزائیدہ بچّوں کو مطلوبہ درجۂ حرارت فراہم کرتا ہے ۔ ہندوستان میں چونکہ نوزائیدہ بچّوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی، اس وجہ سے اس کے بانیوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوستان آکر اِسے لانچ کیا جائے، اور پھر 2012 میں بنگلور میں ’ایمبریس‘ کی شروعات ہوئی ۔ کئی اسپتالوں میں آج اِس کا استعمال ہو رہا ہے اور یہ واقعي بہت مفید آلہ ہے ۔ یہ سستا اورمختصر سا، پورٹیبل آلہ ہے جو نوزائیدہ بچّوں کے لئے انتہائی مفید ہے۔