حجاب میں رہنے والی شہناز سدرت ہندوستان کی تیسری طاقتور خاتون منتخب
مغربی میڈیا اورہمارے یہاں کا نام نہاد دانشورطبقہ یہ پروپیگنڈہ کرتارہتاہے کہ پردہ عورت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔لیکن اس تصورکو غلط ثابت کیاہے لکھنؤ کی بیگم شہناز سدرت نے۔مرادآباد کے ایک روایتی زمیندار گھرانے میں آنکھیں کھولنے والی شہناز نے حجاب میں رہتے ہوئے اتنی ترقی کی کہ آج انھیں اپنے شعبے میں ہندوستان کی تیسری طاقتور خاتون منتخب کیاگیااوران کی تنظیم ’بزم خواتین ‘ سے 80ہزار عورتیں وابستہ ہیں۔بزم خواتین کے علاوہ دواور ادارے ’اردوتعلیم گھر‘ اور ’مدرسہ حیات العلوم نظامیہ ‘ کی ذمہ دارہیں۔
شہناز کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔ایک مذہبی اور سخت پردہ دار خاندان میں پیداہونے والی شہناز نے اوائل عمری سے ہی غلط روایات اور فرسودہ رسم ورواج کے خلاف اعلان ِ جنگ کردیاتھا۔انھوں نے محض 13برس کی عمر میں مردآباد کے سنبھل گیٹ پر اپنا ایک اسکول قائم کرلیاتھا۔نام تھا ’بچوں کا گھر‘ ۔ماں سے ایک دن کہاکہ مجھے ایک اسکول کھولناہے۔انھوں نے اجازت دیتے ہوئے گھر کے ہی ایک حصے میں جگہ فراہم کردی۔اسکول جانے سے پہلے محلے کی غریب لڑکیوں کو جمع کرتیں اور خود پڑھنے چلی جاتیں ۔اسکول سے واپس آکر ان بچیوں کو خود پڑھاتیں ۔رفتہ رفتہ 500بچے ہوگئے ۔شہناز کو یہاں پڑھاتے ہوئے عورتوں کے مسائل سمجھنے کا موقع ملا۔یوراسٹوری سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:
’’میرامیکہ اور سسرال دونوں سخت مذہبی تھے۔دونوں گھرانوں کے افرادہندوستان کی دوممتاز تنظیموں جماعت اسلامی اور جمعیۃ علمائے ہند سے وابستہ تھے۔گھرمیں سخت پردہ تھا۔نانی گاندھی جی کے وردھاآشرم میں بھی نماز پڑھتی تھیں اور ونوبابھاوے کو قرآن پڑھاتی تھیں۔مجھے پردے والے تین پہیہ ٹھیلے پر پڑھنے بھیجا جاتاتھا۔ایک بار تھوڑا جھانک لیاتو ملازم نے سخت سرزنش کی۔میں پہلی عورت تھی جو برقع پہن کر کے جی کے کالج مرادآباد میں پڑھنے گئی۔حصول ِ تعلیم کے دوران مجھے احساس ہواکہ بہت سی سماجی برائیوں اور عورتوں کے مسائل کی جڑ ناخواندگی ہے۔اس وجہ سے میں نے اپنی پوری زندگی تعلیم نسواں اور خواتین کے مسائل کے حل کے لئے وقف کردی ۔حالاں کہ اس کوشش میں مجھے اور میرے خاندان کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔‘‘
شہناز خواہش کے باوجود سائنس نہیں پڑھ سکیں کیوں کہ اس زمانے میں علاقے کے کسی کالج میں اس کی سہولت نہیں تھی۔ انھوں نے کے جی کے کالج سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ان کو اعلیٰ تعلیم خصوصاً مقابلہ جاتی امتحان پاس کرنے کا بڑاشوق تھا۔اس وجہ سے اکثر گھر میں اس موضوع پر باتیں ہوتی رہتی تھیں۔شہناز کے مطابق ایک بار بات چیت کے دوران ایک کزن نے طنز کیاکہ لڑکیاں سول سروسز امتحان کوالیفائی نہیں کرسکتیں ۔میں نے اس وقت کسی ردعمل کا اظہارتونہیں کیالیکن دل میں تہیہ کرلیاکہ میں یہ امتحان پاس کرکے دکھاؤں گی۔چنانچہ میں پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوگئی جب کہ کزن موصوف تیسری کوشش میں کوالیفائی کرسکے۔یہ الگ بات ہے کہ چند وجوہ سے میں نے یہ سروس جوائن نہیں کی اورسماجی خدمت کو ترجیح دی۔
مہاتماگاندھی کے وردھاآشرم میں شہناز کی والدہ کی ملاقات مجاہد آزادی،قومی آواز کے پہلے ایڈیٹر اور مشہورناول ’لہوکے پھول‘ کے خالق حیات اللہ انصاری سے ہوئی۔1987میں ان کے بیٹے سدرت اللہ انصاری سے شہناز کا نکاح ہوا۔شادی کے وقت حیات اللہ انصاری راجیہ سبھا کے رکن تھے اور دہلی کے ویسٹرن کورٹ میں رہائش پذیر تھے۔اسی وجہ سے شہناز رخصت ہوکر وہیں آئیں ۔حیات اللہ انصاری شہناز کو بیٹی کی طرح مانتے تھے اور رخصت ہوکر آتے ہی انھوں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیاتھاکہ اگر دونوں میں کبھی کوئی اختلاف ہواتو گھر چھوڑکر تم جاؤگے شہناز نہیں۔
دہلی میں قیام کے دوران شہناز نے شوہر کی اجازت سے فرنیچر ڈیزائننگ کاکام شروع کیا۔ساتھ ساتھ عورتوں میں بیداری پروگرام بھی چلاتی رہیں۔انھوں نے اس دوران صرف خواندگی مہم نہیں چلائی بلکہ عورتوں میں پڑھنے کی لت لگادی۔
جون 1994میں شہناز سدرت کی ساس مجاہدہ آزادی ،اردو خدمت گاراور سماجی کارکن سلطانہ حیات کا انتقال ہوگیا۔سسر حیات اللہ انصاری اکیلے رہ گئے۔ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔اس وجہ سے شہناز سب کچھ چھوڑ چھاڑکر لکھنؤ منتقل ہوگئیں اور سسر کی خدمت کے ساتھ ان کے قائم کردہ ادارے ’اردوتعلیم گھر‘ اور ساس کی تنظیم ’بزم خواتین‘ کی ذمہ داری سنبھال لی۔تحریک آزادی میں مسلم خواتین کی موجودگی یقینی بنانے کی غرض سے گاندھی جی کے کہنے پر 1931میں ’بزم خواتین ‘ کی بنیاد پڑی تھی۔آزادی کے بعد تنظیم کے مقصد کو تعلیم نسواں پر مرکوز کردیاگیا۔ابتداء تعلیم بالغاں سے ہوئی۔15جون 1994کو شہناز سدرت نے لکھنؤ کے زنانہ پارک میں بزم خواتین کا جلسہ کیا،جس میں صرف دوعورتیں آئیں ۔شہناز مایوس نہیں ہوئیں اور جدوجہد کرتی رہیں۔آج اس تنظیم سے 80ہزارخواتین وابستہ ہیں۔انھوں نے تعلیم کے ساتھ عورتوں کے معاشی استحکام اور ان کی خود انحصاری پر کافی زوردیا۔انھوں نے گومتی نگر میں فرنیچر کا کام بھی شروع کیالیکن اردوتعلیم گھر اور بزم خواتین کی سرگرمیوں کے سبب بند کرنا پڑا۔بزم خواتین نے عورتوں کے مفاد میں بہت سارے کام کئے ہیں۔شہنازکے مطابق اس تنظیم نے 2006میں ’جہیز مخالف مہم‘ چلائی اور فاسٹ ٹریک کونسلنگ کے ذریعے 8000ہزار کنبوں کو طلاق کی لعنت سے نجات دلائی۔
شہناز سدرت صرف لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ہی فکر مند نہیں رہتیں بلکہ چاہتی ہیں کہ ان کو ایسامحفوظ اور صاف ستھراماحول ملےجہاں تربیت کا بھی معقول انتظام ہو۔اسی مقصد کے تحت انھوں نے میکے کی جائیداد فروخت کرکے لکھنؤ کے فرنگی محل میں اپنے خسر حیات اللہ انصاری کی یاد میں مدرسہ حیات العلوم نظامیہ قائم کیا۔اس میں صرف عورتوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔شہناز اتنے سارے کام کرنے کے باوجود تھکی نہیں ہیں ۔روز بروز ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔
ان کے کاموں کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایاجاسکتاہے کہ انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ نے 2012اور2013میں سروے کرائے اور دونوں جائزوں میں شہناز کو ’سال کی خاتون‘ منتخب کیاگیا۔اسی طرح مرکزی وزارت خواتین واطفال بہبود اور فیس بک نے 2015میں ایک مشترکہ سروے کرایاجس میں شہناز ہندوستان کی 100طاقتور خواتین میں تیسرے مقام پر رہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی اور فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے ٹوئٹ کرکے ان خواتین کو مبارک باد دی ۔منتخب خواتین کو صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے ایوان صدر میں مدعو کرکے اعزاز سے سرفرازکیا۔وہاں بھی شہناز حجاب میں گئیں۔ایوان صدر کا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا:
ـ’’پردہ عورت کی ترقی میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔اترپردیش میں عورت کو حجاب میں دیکھ کر لوگوں کا رویہ بدل جاتاہے۔اس وجہ سے تجسس تھاکہ دیکھیں ’راشٹرپتی بھون ‘ میں ملک کے مختلف حصوں سے آئی ہوئی خواتین کا کیاردعمل ہوتاہے۔جب سب سے ملاقات ہوئی تونہ کسی نے ٹوکا اور نہ امتیازی رویہ اپنایا۔حقیقت میں عورتوں کے درمیان خود کو عورت محسوس کررہی تھی،عجوبہ نہیں۔صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی نے بھی سلام کا جواب سلام سے دیا۔‘‘
طویل مدت تک سماجی کام کے دوران شہناز کو بہت سے تلخ وشریں تجربات بھی ہوئے ۔ان کے مطابق عورتوں کو کوئی بھی کام کرنے نہیں دیتا۔ان کا سب سے تلخ تجربہ یہ رہاکہ ایلیٹ طبقے کی خواتین نے کام کرنے اور آگے بڑھنے میں سب سے زیادہ رکاوٹ پیداکی ۔اس کے علاوہ کئی معاملوں میں ان کا گھر ٹوٹنے سے بچا۔عورتوں کو ان سے نہ ملنے کی ہدایات دی گئیں۔ان کا کہناہے کہ کوئی دوسری عورت ہوتی تواپنا راستہ بدل لیتی لیکن میں نے اپنی شناخت برقراررکھی۔شیریں تجربہ یہ رہاکہ بہت سے ایسے اپنائیت کے رشتے بن گئے جو آج بھی برقرارہیں ۔بہر حال شہناز مخالف حالات سے مایوس نہیں ہوئیں اور آج بھی نہایت جوش وخروش سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔
.........................
جد و جہد کے سفر سے کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے FACEBOOK پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
یہ کہانیاں بھی ضرور پڑھیں۔
موت کے منہ سے نکل کر سلطانہ نے لڑی ظلم کے خلاف جنگ اور بنی جہدکار
وہ صبح کبھی تو آئے گی...خواتین کی باوقارزندگی کے لئے کوشاں ’ہم سفر‘