Brands
Discover
Events
Newsletter
More

Follow Us

twitterfacebookinstagramyoutube
Youtstory

Brands

Resources

Stories

General

In-Depth

Announcement

Reports

News

Funding

Startup Sectors

Women in tech

Sportstech

Agritech

E-Commerce

Education

Lifestyle

Entertainment

Art & Culture

Travel & Leisure

Curtain Raiser

Wine and Food

YSTV

ADVERTISEMENT
Advertise with us

آن لائن فنڈ ریزنگ کی نئی تصویر بنانے میں مصروف امپیکٹ گرو پیوش جین

  آن  لائن  فنڈ ریزنگ   کی  نئی  تصویر  بنانے  میں مصروف  امپیکٹ  گرو  پیوش  جین

Friday November 20, 2015 , 7 min Read


چند سال پہلے ایک 16 سالہ بچہ ایک دن ممبئی سے ملحقہ لوناوالا کے یتیم خانے میں جاتا ہے اور خود سے ایک وعدہ کرتا ہے، اپنے وعدے کا پکا یہ بچہ امریکہ کے وال اسٹریٹ میں جے پی مورگن جیسی بڑی کمپنی کے لئے کام کرتا ہے۔ باوجود اس کے ایک دن سماج کے لئے کام کرنے ہندوستان واپس آتا ہے۔ یہ کوئی اور نہیں امپیکٹ گرو پیوش جین ہے۔ پیوش بتاتے ہیں، "جب میں اس یتیم خانے میں گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس گھر ہے، خاندان ہے اور مجھے اسکول جانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں ایک انوسٹمنٹ بینکر بننے میں کامیاب رہا۔ وال اسٹریٹ میں کام کرنا بہت سنسنی خیز رہا تھا، لیکن میں جانتا تھا کہ مجھے اپنا مالی مہارت معاشرے کے مفاد میں استعمال کرنا ہے۔"

سماجی صنعتوں کے لئے زیادہ مؤثر آمدنی ماڈل کی تلاش میں پیوش نے ہارورڈ بزنس اسکول میں کاروبار کرنے والوں کو دولت فراہم کرنے کےاخترائی طریقوں پر تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ اس دوران انہیں سنگاپور بزنس مینجمنٹ کنسلٹنسی میں بھی جانے کا موقع ملا۔ انہوں نے دو اصول دریافت کیے- سوشل امپیکٹ بانڈس اور كراوڈفنڈگ۔ ان کا خیال ہے کہ سوشل امپیکٹ بانڈس کا ہندوستان میں استعمال ناممکن ہے اور جہاں تک كراوڈفنڈگ کا سوال ہے تو وہ امریکہ میں بہت کامیاب رہا ہے اور ہندوستاں میں بھی اس نے اچھا کام کیا ہے۔

كراوڈفنڈگ کی کامیابی کے بارے میں جوآپ نہیں جانتے۔

كراوڈفنڈگ کے ہندوستان میں کامیاب ہونے کے تین اہم وجوہات ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ہندوستان میں سماجی یا مذہبی وجوہات کی بنا پر عطیہ دینے والوں کی تعداد 35 کروڑ کے قریب ہے جو امریکہ کی کل آبادی کے برابر ہے۔ ہندوستان میں جب سے سمارٹ فون لوگوں کی زندگی کی چوتھی ضرورت بنی ہے ، اس کے بعد سے انٹرنیٹ تک رسائی یں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پیوش جین کے مطالعہ کے متابق ہندوستان میں براڈبینڈ تک رسائی اگرچہ بہترین نہ ہو، لیکن 2 کروڑ موبائل انٹرنیٹ یوزر ہر تیسرے مہینے بڑھ رہے ہیں۔ بہت سے مغربی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہمارے ملک میں لوگ آن لائن لین دین کرتے ہیں۔اگرچہ یہاں ابھی تک زیادہ تر لوگوں کے پاس ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ نہیں ہے لیکن اس مسئلہ کو حل ڈیجیٹل پرس[والٹ] بن سکتا ہے۔

پيوش کہتے ہیں 'کئی دہائیوں سے ہمارے ڈی این اے میں كراوڈفنڈگ موجود ہے- ہمارے پاس صرف وہ ٹیکنالوجی نہیں ہے جس سے زیادہ سے زیادہ عطیات حاصل کیے جا سکے. "مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم کئی طرح کے تہواروں کے لئے اسکول اور اپنے موحلہ میں چندہ جمع کرتے تھے۔۔ اس وقت زیادہ تر این جی او عطیات پر ہی انحصار کرتے ہیں اور تقریبا 60 فیصد رقومات اسی چندے کو جمع کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ کسی بھی این جی او کے لئے یہ بہت بڑا خرچ ہے، جو دوسرے بہتر کاموں پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔"

زیادہ سے زیادہ اثر کے لئے گرومنتر

این جی او اور دیگر کاموں کے لئے ڈیجیٹل كراوڈفنڈگ کے لئے ایک سال پہلے ہارورڈ انوویشن لیب میں پیوش کے امپیكٹ گرو کی شروعات ہوئی۔ یہ پلاٹفارم لوگوں اور کارپوریٹس کو طاقت دے رہا ہے۔ اس کے ذریعے انہیں صرف 5-10 فیصد اخراجات پر چندہ حاصل ہو رہا ہے۔ امپیكٹ گرو سوشل میڈیا کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتا ہے۔ پیوش کہتے ہیں "سوشل میڈیا ہماری زندگی میں اتنا اہم کردار ادا کر رہا ہے کہ فیس بک کی وال ڈجٹل ملکیت بن گئی ہے اور اسی صلاحیت کو معاشرے کے فلاح کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔"

انہوں نے ضرورت مند اداروں کے لیے مضبوط ڈاٹا بیس تیار کیا اور انہیں شفافیت، اثردار، قانونی تعمیل کے ساتھ ایف سی آر اے قوانین کی بنیاد پر جانچا۔ فی الحال ان کے پلیٹ فارم کے ذریعے 30 سے ​​زائد تنظیمیں جڑی ہوئی ہے۔ پلیٹ فارم کو چند دنوں قبل ہی عوام کے سامنے لایا گیا۔ اس کا افتتاح مرکزی وزیر بہبودگی خواتیںن و اطفال مینکا گاندھی نے کیا تھا۔

image


پیوش کہتے ہیں "عطیہ دینے کی سفت اب مک میں عام نہیں رہی ، لوگ خدمت خلق میں جٹے لوگوں پر آسانی سے یقین نہیں کرنا چاہتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ فرضی این جی اوز کی کثرت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنےکے پلاٹفارم کی مدد سے لوگوں کے اعتماد کو ایک بار پھر بحال کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ لوگ مقامی طور پر کام کر رہی غیر معروف تنظیموں پر یقین نہیں کرتے لیکن ہم چاہتے ہیں لوگوں میں امپیکٹ گرو کے ساتھ کام کر رہی اداروں پر اعتماد کریں۔ "

فوائد کے ساتھ اثرات

ہم یہاں فوائد کے ساتھ موثر اقدامات کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ جے پی مورگن اور سیكيويا کے لوگ ہیں۔ عطیہ دینے والے لوگ اپنی سخاوت کی بدلے میں کچھ نہ کچھ ضرور چاہتے ہیں۔ تو ہم ان کے دیگر فوائد کے ساتھ 80 جی کے سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔ یہ پلاٹ فارم صرف اداروں کے لئے ہی نہیں بلکہ چھوٹے ادارے، مہم جوی اور انفرادی شخصیات کے لئے بھی ہے، جہاں سے مختلف طرح کے مہم کو استحکام حاصل ہو گا۔

پیوش کہتے ہیں 'غریب اور زہین طلباہ کو اب آگے کی تعلیم کے لئے صرف سرکاری اسکالرشپ پر ہی منحصر نہیں رہنا پڑے گا۔ وہ اس پلیٹ فارم سے اپنی تعلیم کے لئے فنڈ جمع کر سکتے ہیں اور اس میں صرف پانچ منٹ کا وقت صرف ہو گا۔ طالب علم اس مدد کے بدلے میں کمپنیوں کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ یہاں امکان کی کوئی حد نہیں ہے ۔'

image


کمپنیوں کے لئے کارپوریٹ سوشل رسپانسبليٹی اب ضروری ہے۔ لیکن بڑی کمپنیاں اس کے لئے خود اپنا فاؤنڈیشن شروع کر چکی ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے صنعت امپیكٹ گرو کے ساتھ مل کر سی ایس آر کر سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا شیئرنگ پر زور

امپیکٹ گرو دنیا کا پہلا پلاٹ فارم ہے جہاں سوشل میڈیا شیئر کے ذریعے بھی عطیہ حاصل ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والے ہر شیئر کی قیمت ایک ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ اس سوشل میڈیا انیشییٹو کے لیے سمائیل (سوشل میڈیا امپیكٹڈ لنکڈ انگیجمنٹ) کا نام دیا گیا ہے۔ پیوش کہتے ہیں 'ڈونیٹ پلاٹ فارم پر آنے والے 100 لوگوں میں سے صرف 2 ہی عطیہ دیتے ہیں۔ ہم نے منصوبہ بنایا ہے کہ ویب سائٹ پر آنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ہر فیس بک شیئر سے ہر مہم کو مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے آئس بكیٹ چیلنج کی مثال دی جہاں ہر شریک فرد نے عطیہ نہیں دیا لیکن اپنا وقت دے کر اس مہم کو بہت اثردار بنایا جس سے وہ ہر ماہ 15 کروڑ ڈالر کی کمائی کر پائے ۔ 'اسی ترتیب میں جس مہم کے 500 سے زائد سوشل میڈیا شیئر اور 20 ڈونیشن ہو جاتے ہیں ہم ان سے 10 کےے بجاے صرف 5 فیصد کمیشن لیتے ہیں۔

سنگ میل

image


ستمبر میں انڈس ایکشن نے غریب بچوں کو پڑھانے کے لئے ایک تقریب کا احتمام کیا تھا جو اپنے آپ میں ایک سنگ میل ہے۔ اس کے ذریعے دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فاصلے کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیوش کہتے ہیں "90 فیصد عطیہ دینے والوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ قانون حق تعلیم کیا ہے، جس کے ذریعے غریب بچوں کو بڑے اداروں میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔" امداد کے لئے ہم نے ممبئی کے ایک کلب کے ٹکٹ فروخت کیے جس کے ذریعے ہم نے ایک ہی شام میں85،000 روپے جمع کیے جس سے 40 بچوں کا اسکول جانا ممکن ہو پایا۔

قلمکار -انمول

مترجم - رحمٰن خان