’راشی آنند ‘ کے ’لکشیم‘ کا مقصد تعلیم اور ترقیّ سے سماجی بُرائیوں کا خاتمہ
’’ میَں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میَں اپنی ماں کے راستے پر چلوں گي، لیکن دیکھئے ، اب میں ایسا ہی کر رہی ہوں۔‘‘ یہ کہنا ہے محروم طبقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ' ’لكشيم‘ 'کی بانی خاتون راشی آنند کا۔
راشی نے ہوش سنبھالتے ہی اپنی سماجی کارکن ماں کو نچلی سطح پر زندگی گزارنے والے انسانوں کی خدمت کرتے دیکھا۔ اُن کی ماں نے حد درجہ غریب اور زندگی کی آسائشوں سے محروم انسانوں کے معیارِزندگی کو بہتر کرنے کی کوششوں کیلئے اپنی زندگی وقف کر د ی۔ راشی نے بہت قریب سے دیکھا کہ معاشرے کے کچھ طبقوں کے ساتھ زندگی کا سلوک کتنا ظالمانہ ہو سکتا ہے اور اِس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان عدم مساوات کتنی سنگین ہیں ۔ اوربس وہیں سے کہیں انہوں نے بھی اپنے لئے اِسی راستے کا انتخاب کر لیا تھا ۔
’لكشيم‘ ایک مقصد ایک ہدف
راشی کہتی ہیں، ’’ میَں آٹو سے کالج جانے کے دوران راستے میں پڑنے والے سِگنل کی سرخ بتّیوں پر، اُلجھے ہوئے بالوں والے میلےكچیلے بچّوں کو رُکی ہوئی گاڑیوں کے ارد گرد چکر کاٹتے ہوئے دیکھتی۔ اِس کے علاوہ سِگنل کی روشنی کے سبز ہو جانے پر وہی بچّے ارد گرد پڑی پلاسٹک کی بوتلوں وغیرہ سے کھیلنے میں مصروف جاتے ۔‘‘ راشی روزانہ ہی بچّوں کو اسی طرح اپنا وقت برباد کرتے ہوئے دیكھتيں ۔ پھر ایک دن انہوں نے مختلف لوگوں کے گھروں سے پرانے کھلونے وغیرہ جمع کرکے اِن بچّوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ راشی اِس کام میں زیادہ سے زیادہ مصروف ہوتی گئیں اورآخر کار انہوں نے’ 'لكشيم‘ کے نام سے ایک این جی او قائم کی ۔
رانچی میں، جہاں وہ پلی بڑھی ہیں، وہاں اُن کی ماں کی تنظیم کا نام ’ لکشیہ‘ ہے ۔ راشی کہتی ہیں، ’’چونکہ میری ماں ہی میرا آئیڈیل اور میری رہنما ہیں، اس لئے میَں نے اپنے ادارے کا نام’ 'لكشيم‘ رکھا ۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی دوسرالفظ میرے کام کو اس سے بہتر طریقے سے بیان نہیں کر سکتا ۔ ’لکشیہ‘ یعنی کہ مقصد، منزل، ہدف ۔ بہتر دنیا کی طرف قدم بڑھانے کی یہ کوشش میرے لئے ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جدوجہد کی علامت ہے ۔‘‘
راشی نے سماج کے سب سے نچلے طبقے میں رہنے والے لوگوں کو درپیش مسائل کے تعلق سے جاننے کے لئے دہلی کی کئی بستیوں کا جائزہ لیا ۔
عورتیں اور بچّے توجہ کا مرکز
بچّوں کی ذہنی نشو نماکے اپنےپروگراموں کے تحت ’ لكشيم‘ نے بچّوں کی تعلیم و تربیت کے مقصد سے دو مختلف کوششیں شروع کی ہیں۔
’بٹرفلائي‘ : بچّوں کو تعلیمی سطح پر اہل بنانے کے علاوہ انہیں صحت اور صفائی کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرنےکے مقصد سے ’بٹرفلائي‘ کا جنم ہوا۔ یہ عنوان’بٹرفلائي‘ تِتلی کے پروں کی مانند آزادی کی علامت ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ جینے کی آزادی کا انحصار تعلیم پر ہے ۔ راشی کہتی ہیں کہ اُن کی ٹیم کے لئے ایک لفظ کے طور پر’ 'تعلیم‘ کے معنی ہر ممکن طریقے سے معیارِ زندگی بُلند کرنے کے ممکنہ پہلوؤں کو سمجھنا ہے ۔ تعلیم سے اِن کا مطلب صحت، پانی، صفائی ، تعلیم اور زندگی کے بارے میں سب کچھ ہے ۔ اِس کے علاوہ پینٹنگ، موسیقی، رقص، اداکاری، خود شناسی ، وغیرہ جیسی سرگرمیاں بھی شامل ہیں ۔ کوئی بھی بچّہ جو ایک مخصوص فن کو سیکھنا چاہتا ہے وہ تربیت یافتہ اساتذہ سے انہیں سیکھ سکتا ہے ۔’ لكشيم‘ نے منتخب بستیوں میں اپنے خصوصی اسکول شروع کئے ہیں جن میں اِن بچّوں میں اسکول کی تعلیم نہ ملنے کے سبب پیدا ہوئے ذہنی فرق کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ مختلف ورکشاپس اور کلاسیز کے ذریعے اِن بچّوں کی اور اُن کے خاندانوں کی طرزِ زندگی کو بدل کر صحت مند اور محفوظ بنانے کے طریقوں سے بھی متعارف کرواتے ہیں ۔
ٹوائے لائبریری : سال 2004 میں ’ لكشيم‘ نے دہلی میں مُلک کی پہلی ’ ٹوائے لائبریری ‘ قائم کی ۔ کھلونے ہر بچّے کے بچپن کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ کچھ بچّے ان کھلونوں کی جھلک دیکھنے تک سے محروم رہتے ہیں ۔ راشی نے اِسی جذباتی لگاؤ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ’ لكشيم‘ کی جانب اپنا پہلا قدم بڑھایا ۔ اِن کی یہ ’ٹوائے لائبریری‘ کامیابی کے نئے سنگِ میل قائم کرنے میں کامیاب رہی اور اب یہ ’لكشيم‘ کے ہر مرکز کا ایک لازمی حصّہ ہے۔
رُوح : ’لكشيم‘ کا یہ پروگرام خواتین کو بااختیار اور خود کفیل بنانے کے لئے مارکیٹنگ کے مختلف ہُنر سکھاتا ہے اور صحت اورصفائی کے لئے ورکشاپس کا اہتمام کرتا ہے ۔ اِس طرح سے ’لكشيم‘ اِن خواتین کو مردوں کے انتہائی پسماندہ ذہنیت والے معاشرے میں اپنے مفادات اور حقوق کی حفاظت کے لئے ترغیب و تحریک بھی دیتا ہے ۔
’لكشيم‘ کی تازہ ترین پہل ہے ’ابھیاس‘ یعنی مشق۔ یہ پروجیکٹ بیکار اور پُرانے کاغذوں کی ’ ری سائیکلنگ ‘ کرنے کے ساتھ ساتھ ’ لكشيم‘ کے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو مُفت كاپیاں بھی تقسیم کرتا ہے ۔
اِن تمام پروگراموں اور مہمات کے مجموعی اثرات انتہائی بے مثال ر ہے ۔ اب تک ’ لكشيم‘ مُلک بھر میں تقریباً 21 ہزار لوگوں کے معیارِزندگی کو بہتر بنانے میں کامیاب رہا ہے ۔
عملی اقدام، فنڈ اور تعاون
’لكشيم‘ فی الحال دہلی کے ’ کوشامبی‘ علاقے میں اپنے ہیڈ آفس سے مُلک کی 11 ریاستوں میں کام کر رہا ہے ۔ ہر مرکز کا اپنا ایک منتظم ہے جو اپنے مرکز کے پروگراموں کے اہتمام کے علاوہ راشی آنند کی رہنمائی میں مختلف منصوبوں پر عمل کرتا ہے ۔
مالی اعتبار سے یہ اِدارہ مکمل طور پر’پرسنل فنڈ‘ پر منحصر ہے ۔ابھی تک یہ کسی بھی كارپوریٹ ہاؤس یا سرکاری ادارہ سےکسی بھی قسم کی مالی مدد نہیں لے رہا ہے ۔ ملازمین کی تنخواہ اِن کے پروگراموں کے بجٹ کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ راشی بتاتی ہیں کہ وہ انتہائی محدود وسائل میں اپنے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں اور اتنے کم فنڈ کے ساتھ تمام ابتدائی اقدامات پر عمل درآمد کافی مشکل ہوتا ہے ۔ وہ کہتی ہیں،’’ اس کے علاوہ تشہیر کے کام میں ہماری کافی رقم خرچ ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی بار ہم متوقع نتائج حاصل نہیں کر پاتے ہیں ۔‘‘ ' فی الحال ’ لكشيم‘ کو 15 ملازمین کی ایک ٹیم چلا رہی ہے ۔
’لكشيم‘ کے پاس معاون تنظیموں کی ایک مضبوط بنیاد ہے ۔ مین فورڈ، اشوکا چینج میكرس، سیف ایکسپریس، جوواليا اینڈ یو، كرافیوزن، ہینگ آؤٹ، آئی آئی ٹی دہلی، ای بے، بُک یور ڈریم اسٹوراور سی اے ایف جیسے اِدارے ’لكشيم‘ کے سا تھ منسلک ہیں۔
ایک نہیں، کئی ایوارڈز
سال 2015 میں 'سماجی کاموں کےشعبے میں شاندار کارکردگی کے لیے انہیں شخصیت ایوارڈ 2015 سے نوازا گیا ۔ سال 2014 میں یو ٹی وی بِن داس ’بی فار چینج‘ نے ہندوستان کے 4 چینج میكرس کا انتخاب کیا جن میں سے ایک راشی آنند بھی ہیں ۔ اسی سال جی ٹی ایم ہالِسٹِک ایوارڈز میں راشی ’ وومن آف ویژن‘ کا خطاب جیتنے میں کامیاب رہیں ۔ سال 2013 میں نورتن فاؤنڈیشن نے انہیں نوجوان سماجی کارکن کے زُمرے میں ’ناری ساشکتی کرن‘ ایوارڈ سے نوازا ۔ سال 2012 میں بی بی سی نے ’ لكشيم‘ کی اسٹوری کوَر کی۔ یہ اُن ایوارڈز کی فہرست میں سے محض چند ہیں جو اب تک راشی اور ’ لكشيم‘ کو مِل چکے ہیں۔
مستقبل کی راہیں اور چیلنج
راشی کا کہنا ہے کہ جب بات سماجی کام کرنے کی ہو تو تعلیم کے تصّور کے بارے میں بچّوں کے والدین کو سمجھانا پہلا اور سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ چونکہ اِن میں سے زیادہ تر خاندان تعلیم کی اہمیت و افادیت سے لاعلم ہوتے ہیں اِس لئے اُنہیں بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے راضی کرنا کافی مشکل ہوتا ہے ۔ اِن کے درمیان اعتماد کی اِسی کمی کی وجہ سے بچّے بھی اسکول جانے کے لئے کم ہی راغب ہوتے ہیں۔
راشی اپنے خوابوں کے تعلق سے کہتی ہیں،’’میرا سب سے بڑا خواب اِس دنیا کو اُس شکل میں دیکھنا ہے جیسا کہ میرے ذہن میں اس کاتصّور ہے ۔ میَں صرف خواتین کو بااختیار بنانے یا بچّوں کی فلاح وبہبود تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتی بلکہ میں کچھ ایسا کرنا چاہتی ہوں کہ اِس دنیا میں رہنے والا ہر شخص اپنے تمام مسائل و مشکلات سے لڑنے کے لئے مناسب و موزوں ہتھیاروں سے لیس ہو۔ اور میرا خیال ہے کہ تعلیم اور ’ہالِسٹِک ڈیولپمنٹ ‘( مجموعی ترقی) ہی وہ اکلوتا ہتھیار ہے ۔ صرف تعلیم ہی مرد و زن کےجنسی امتیاز سے لے کر دہشت گردی جیسی سماجی برائیوں تک کے خاتمے میں موثر ثابت ہو سکتی ہے۔