بھوکے بے سہاروں کا سہارا... اظہر مخصوصی
انسان ہمیشہ سے بھوک سے لڑتا آیا ہے۔ موجودہ گلوبلائزیشن کی دنیا بھر میں 82 کروڑ اشخاص روزانہ بھوکے سوتے ہیں،یعنی ہر آٹھواں شخص بھوکا سوتا ہے۔ ہر روز 20 کروڑ ہندوستانی بھوکے سوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بھوکے سونے والے لوگوں میں سے ایک تہائی لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ہندوستان اوسطاً 7000 لوگ روزانہ یا 25 لاکھ لوگ سالانہ بھوک سے مرتے ہیں۔ ایڈز اور کینسر کے ہوتے ہوئے بھی بھوک دنیا بھر میں مرنے والوں کی بڑی وجہ ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ ہم یوراسٹوری کے قارئین کو بھوک کے بارے میں اعداد و شمار ہی بتائیں گے بلکہ ہم اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے ایک ایسے شخص سے آپ کا تعارف کروائیں گے جو یقینا دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سید عثمان اظہر مخصوصی بیشک قابل ستائش ہیں جنھوں نے روزانہ مفت کھانا کھلانے کا آغاز کیا اور چارسال سے وہ روزانہ مفت کھانا کھلارہے ہیں۔
اظہر ایک ایسے نوجوان ہیں جنھوں نے بیڑہ اٹھایا ہے غریبوں اور بے سہاراﺅں کو کھانا کھلانے کا۔ اظہر مخصوصی کا تعلق حیدرآباد کے علاقہ دبیر پورہ سے ہے۔ دبیر پورہ فلائی اوور کے پاس ان کی ایک چھوٹی سی پلاسٹر آف پیرس (POP) ڈیزائن کی دکان ہے۔ انھوں نے 4 سال پہلے شروعات کی غریبوں اور ضرورت مندوں میں مفت کھانے کی۔ ایسے وقت جب ہر کسی کو اپنے کھانے کی فکر ہے انھوں نے دوسروں کے کھانے کا انتظام کیا ہے۔
یقینا بھوکوں کو کھانا کھلانا ایک اچھا کام ہے جس کی بے شمارستائش کی جانی چاہے۔ ہندوستان میں کئی لوگ جن کے پاس اربوں اور کروڑوں روپے ہیں ، لیکن انھیں غریبوں اور بے سہاروں کو کھانا کھلانے کا خیال تک نہیں آتا۔ اظہر نے مستقبل کے بارے میں بغیر کوئی تشویش میں مبتلا ہوئے کھانا کھلانے کا عمل شروع کردیا۔ ان سے جب اس کام کے آغاز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا، ”میں نے اردو میڈیم گورنمنٹ اسکول سے 5ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ بچپن میں مصیبت کے دن بھی دیکھنے کو ملے۔ ایک دفعہ میں ریلوے اسٹیشن کے پاس سے جارہا تھا تومیں نے دیکھا ایک عورت جس کا نام لکشمی تھا وہ زور زور سے رو رہی تھی۔ اس کے دونوں پیر نہیں تھے۔ میں نے وہاں موجود ایک آدمی سے پوچھا یہ کیوں رو رہی ہے اس نے کہاکہ یہ بھوک سے رو رہی ہے اور اس کے پاس کھانا نہیں ہے۔ میں نے کہا تو تم اسے کچھ کیوں نہیں دے دیتے۔ اس نے کہاکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میں بھی بھوکا ہوں۔ میں نے جب ہی دل میں اللہ سے یہ دعا کہ اگر مجھ سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو غریبوں کی بھوک مٹانے کا کام لے لے۔ اس کے بعد میں نے ہوٹل سے کھانے کا پارسل لایا اور اس غریب کو کھلایا۔ “
اس واقعہ کے بعد اکثر اظہر کے دل میں بے سہارا لوگوں کا درد ستانے لگتا تھا۔ انھوں نے نہ پہلے گھر میں کھانا بنایا اور اسے غرباءمیں تقسیم کیا۔ یہ روز کا معمول بن گیا ۔ 2012ءسے باضابطہ طور پر کھانا کھلانے کا کام شروع ہوا۔ دبیر پورہ فلائی اوور بریج کے نیچے ریلوے اسٹیشن سے قریب کافی غریب اور بے گھر لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور اس دن سے آج تک بلاناغہ یہ کام جاری ہے“۔
فلاحی کام کرنے کے لیے کافی مشکلیں آتی ہیں۔ سب سے بڑی مالیپریشانی ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کے پاس پیسہ ہوتاہے لیکن فلاحی کاموں سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے اور بعض کے پاس فلاحی کے بارے میں دلچسپی ہوتی ہے لیکن ان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ جن کے ارادے مضبوط ہوتے ہیں اور جو دوسروں کے لئے کچھ کرنے کا عزم کرلیتے ہیں ان کے سامنے کوئی مشکل ٹک نہیں سکتی۔ اظہر مخصوصی نے اپنی مشکلوں کے بارے میں پوچھنے پر بتایا،” جب آپ ارادہ کرلیتے ہیں تو ساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ میری والدہ نے مجھے کہاکہ دوسروں کی مدد کرنا اصل کامیابی ہے اور میں اسی پر عمل کررہاہوں۔ جو کچھ مجھ سے ہوسکتاہے وہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ جب ہم کوئی کام شروع کردیتے ہیں تو خود بخود راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحب جن کا تعلق یوکے سے ہے فلائی اوور کے پاس سے گذررہے تھے۔ انھوں نے یہ منظر دیکھا اور اپنے بھائی سے کہاکہ ذرا نوجوان کے بارے میں معلوم کریں۔ ساری جانکاری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہاکہ میں بھی آپ کے کام میں کچھ تعاون کرنا چاہوں گا۔ میں نے کہا اگر آپ خود سے کچھ تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہم خوش آمدید کہیں گے کیونکہ یہ اللہ کی جانب سے مدد ہے۔ انھوں نے 16 چاول کے تھیلے 25 ،25 کلو کے روانہ کئے“۔ اس طرح فلاحی کام میں لوگوں کا تعاون بھی شامل ہونے لگا۔
بھوکے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے علاوہ ان کی تعلیم کی فکر بھی اظہر مخصوصی لاحق ہے۔ انھوں نے طلباءکے لئے بھی کام کرنے کا ارادہ کیا اور اس جانب ٹھوس اقدامات بھی کررہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اس تعلق سے بتایا، ” نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں انھیں تعلیم دلانا بھی ضروری ہے۔ گورنمنٹ اسکولس کے SSC کے طلباءکو ہم مفت ٹیوشن دے رہے ہیں۔ بلاتفریق مذہب و ملت جس طرح کھانا کھلایا جاتا ہے اسی طرح تینوں میڈیم ، انگلش اردو اور تلگو کے طلباءکو تربیت دی جاتی ہے۔ اگر وہ پڑھیں گے تب ہی تو آگے بڑھیں گے اور ملک و قوم کے لئے کچھ اچھا کرسکیں گے“۔
سماج میں ایسے عناصر بھی ہیں جن سے اچھائی دیکھی نہیں جاتی۔ بعض دفعہ یہ عناصر اچھے کام کو متاثر بھی کرسکتے ہیں۔ کام کو منظم اور اچھے طریقے سے کرنے کے لئے انھوں نے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ تنظیم کے مقاصدبتاتے ہوئے مخصوصی نے کہا،” ثانی ویلفیر اسوسی ایشن کے نام سے 3 سال پہلے ایک NGO بنائی ہے۔ ہمیں یہ ڈر تھا کہ کہیں اس اچھے کام میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آجائے۔ اس لیے ہم نے باضابطہ طور پر ایک تنظیم رجسٹرڈ کی ہے۔ اس کام میں ہمارے دوست بھی شامل ہیں۔ ہم اس تنظیم کے بینر تلے منظم انداز میں کام کرنا چاہتے ہیں“۔
اظہر مخصوصی 5 پروگراموں کو لے کر چل رہے ہیں۔دبیرپورہ فلائی اوور بریج کے پاس روزانہ تقریباً 100 سے 150 لوگوں کوروزانہ مفت کھانا کھلایاجاتاہے۔ رمضان میں بعد مغرب دو سو سے زیادہ لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ ایس ایس سی کے بچوں کومفت ٹیوشن پڑھایاجاتاہے۔ طبی نگہداشت کےلیے ایک کلینک کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں پر غریبوں کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔ بنڈلہ گوڑہ میں نوری نگر میں غریب خواتین کے لیے ایک ٹیلرنگ سنٹر بھی چلایاجارہاہے۔گاندھی ہاسپٹل کے پاس گذشتہ 3مہینے سے مفت کھانا کھلایاجارہاہے۔ حالیہ چینائی کے سیلاب زدگان کو بھی انھوں نے مدد فراہم کی۔
اظہر مخصوصی نے اپنے کام کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اپنا نام کمایا ہے۔ اس تعلق سے بتایا،” ہم نے یہ کام خالص غریبوں کی مدد کے لیے شروع کیا ہے۔ ہمارے دوستوں نے جب اس کام کو دیکھا تو انھوں نے کہا کہ یہ بہت اچھا کام ہے اور اس کی پذیرائی کرنا چاہئے تاکہ دوسرے نوجوان بھی اس کام میں تعاون کریں یا پھر وہ بھی اس طرح کی خدمات شروع کریں۔ اگر اس طرح کے کام شروع کئے جائیں تو پھر ملک میں کوئی بھی بھوکا نہیں رہے گا۔ انھوں نے فیس بک وغیرہ پر ہمارے پروگراموں کی تشہیر کی۔ جس کے سبب ہندوستان کے سرکردہ اخبارات میں اس کام کے بارے میں آرٹیکلس آئے۔ امیتابھ بچن کا پروگرام ”آج کی رات ہے زندگی“ شامل ہے۔ جہاں پر مجھے بلایا گیا اور میرے کام کی ستائش کی گئی۔
گذشتہ ماہ اظہر مخصوصی نے اناہزارے سے بھی ملاقات کی۔ اناہزارے نے مخصوصی کے کام کی بہت ستائش کی۔ دعائیں دیتے ہوئے اناہزارے نے کہاکہ ”اوپروالا اپنے خاص بندوں سے ہی ایسے کام لیتاہے۔ آپ اس کام کو جاری رکھیں اور دوسروں کی پرواہ نہ کریں۔ لوگ تو اس درخت کو پتھر مارتے ہیں جس پر پھل لگے ہوتے ہیں“۔
اظہر مخصوصی نے اپنے عمل کے ذریعے سے لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ غریبوں کی مدد اور فلاحی کام کےلیے خود کو آگے لائیں۔ یہ نہ سوچیں ہم کیا کرسکتے ہیں بلکہ جو بھی کرسکتے ہیں وہ کریں۔ آپ کی ایک چھوٹی سی کوشش ایک ثمر آور درخت کا روپ دھارسکتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں یقینا آگے چل کر ایک کامیاب ہندوستان کو بناسکتی ہے۔
٭٭٭