شادی کے بعد پوری کی قانون کی تعلیم اور فیملی كونسلگ میں کمایا نام ...محسنہ پروین
دو بچوں کی پیدائش کے بعد لیا تھا ایل ایل بی میں داخلہ
تلنگانہ حکومت کے كونسلگ سینٹر کو دے رہی ہیں خدمات
سی آئی ڈی ومینس پولیس کو دے چکی ہیں ٹریننگ
پانچ سال تک رہیں جی ایچ ایم سی کی كارپوریٹر
گریجویشن کے فوری بعد ان کی شادی کر دی گئی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کی تمنا دل ہی میں دبائے محسنہ پروین نے اپنی سسرال کا رخ کیا۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ جہاں چاہ ہوتی ہے، وہاں راہ نکل ہی آتی ہے۔ محسنہ پروین نے دو بچوں کی ماں بننے کے بعد شوہر کی حوصلہ افذائی سے اپنی تعلیم پھر سے شروع کی اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ایل ایل بی کرنے کے پیچھے ان کا مقصد وکالت کر کے پیسے کمانا نہیں تھا، بلکہ معاشرے میں مصیبت زدہ اور ستائے ہوئے لوگوں قانونی مدد کرنا تھا۔ اس وقت انہوں نے دیکھا کہ جہیز کے لئے خاندانوں میں انتشار کے معاملے بڑے پیمانے پر عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ خاندانوں کو اس لعنت سے بچانے اور مصیبت زدہ خواتین کی مدد کرنے کے مقصد سے انہوں نے حیدرآباد پولیس کے ساتھ مل کر مفت مشاورت کا کام شروع کر دیا۔ آج محسنہ پروین اپنے اسی کام کی بدولت جانی جاتی ہیں۔ انہیں تلنگانہ حکومت نے حج ہاؤس میں شروع کئے گئے اپنے مشاورتی سینٹر کا رکن بنایا ہے۔ یہ سینٹر جسٹس اسماعیل کی قیادت میں کام کر رہا ہے۔
محسنہ پروین نے 'یوراسٹوری' کا بتایا،
''تلنگانہ حکومت نے اس سنٹر کو شروع کیا ہے۔ مسلم معاشرے میں خاص طور پر جہیز کو لے کر جھگڑے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے مائنارٹی ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اس سینٹر کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہاں 7 ركنی ایک کمیٹی بنائی گئی ہے۔ مجھے ایک وکیل کے طور پر اس کا رکن بنایا گیا ہے۔ اس میں ایک دو این جی اوز کے بھی ارکان ہیں۔ ایک مفتی اور ایک قاضی کو بھی اس کا رکن بنایا گیا ہے۔ اس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن سبيحہ خاتون بھی ہیں۔''
''ہمارا کام یہ ہے کہ معاشرے میں میاں بیوی کے گھریلو جھگڑے اور جہیز کےلئے ہراسانی والے معاملوں کو حل کریں۔ اس طرح کے معاملات میں لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم آپس میں كونسلنگ کرکے ان کے معاملے سلجھا سکتے ہیں۔ لیکن ایسے معاملے اسی وقت بہتر طریقے سے سلجھائے جا سکتے ہیں، جب لوگ کورٹ جانے سے پہلے ہم سے ربط کریں، لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ لوگ جلد بازی میں کورٹ جاتے ہیں اور بعد میں ہمارے پاس آتے ہیں۔ ایسے میں ہم ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔''
تلنگانہ حکومت کا یہ سینٹر ہر شنیچر (ہفتے) کے دن شام 3 سے 5 بجے تک کام کرتا ہے۔ اگر معاملے زیادہ ہوں تو پھر چہارشنبہ کے دن بھی انہی اوقات میں سینٹر کے ارکان جمع ہو جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں محسنہ بتاتی ہیں کہ كونسلگ کے اچھے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ حالانکہ یہ نیا مرکز ہے۔
محسنہ نے 2001 میں فیملی كونسلگ شروع کی تھی۔ ان کو اس وقت کے پولیس کمشنر پیرورم راملو نے کافی سراہا تھا اور پولیس کمشنر آفس میں ہی اس کام کے لئے جگہ دے دی تھی۔ یہ سینٹر 2005 سال تک چلا۔ اس کے بعد محسنہ کی خدمات سی آئی ڈی پولیس نے بھی لیں۔ اینٹی ویمن ٹرافكنگ سیل میں ڈومیسٹگ وایلنس کے خلاف کام کیا۔ خواتین عملے کو قانونی تربیت دینے کا کام محسنہ نے کیا۔
اس کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا، جب محسنہ نے سیاسی میدان میں قدم رکھا ۔ انہوں نے گریٹر حیدرآباد بلدیہ کے انتخابات میں حصہ لیا اور وجئے نگر کالونی سے كارپوریٹر منتخب ہوگئیں۔ پانچ سال تک وہ مقامی لوگوں کے مسائل حل کرنے میں لگ گئیں۔ اپنی سوجھ بوجھ سے انہوں نے علاقے میں کئی کام کئے۔وہ بتاتی ہیں،
''بہت متمئن ہوں میں اس کام سے۔ سڑک، پانی، برقی جیسے معملے ہی کارپوریٹرکے تحت سمجھے جاتے ہیں،لیکن میں نے وہاں انگلش میڈيم اور اردو میڈيم سرکاری اسکول بنوایا۔ وہاں پرانی لائبرری تھی، جہاں غیر سماجی اناصر کا اڈہ بن گیا تھا۔ اسے ایک شاندار لائبرری کے طور پر ترقی دی گئی۔ ایک سنيير سٹیزن پارک بنایا گیا۔''
ان کی اس زندگی میں کئی ایسے مراحل آئے، جو مشکل تو تھے، لیکن انہوں نے اسے ہمت خوش دلی اور اپنوں کی مدد سے حل کیا۔ وہ بتاتی ہیں،
''میں ایک مشائق خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ وہاں خواتین کے لئے کچھ بندشیں ضرور رہتی ہیں، لیکن میرے شوہر نے میری ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ کبھی بہت اہم موقعوں پر مجھے اپنے گھر سے کافی مدد ملی۔ ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ ایک بار گھر میں ایک تقریب کی تیاری چل رہی تھی، کھانا پکانے کے لئے گھر کی خواتین کام کر رہی تھیں، اچانک فون آیا کہ میرے ڈویژن میں کچھ واقعہ ہو گیا ہے، میں اسی حالت میں اٹھی اور جہاں سے فون آیا تھا، وہاں پہنچ کر معاملہ سلجھا کر واپس لوٹ آئی۔ وہ موقع کافی چیلنجگ تھا، لیکن خاندان کے دوسرے افراد کی مدد کی وجه سے اس سے میں آسانی سے گزار پائی۔''
محسنہ بتاتی ہیں کہ بچیوں میں جو صلاحیتیں ہیں، اسے دبانے کے بجائے ان کی كونسلنگ کر انہیں بہتر مستقبل کے لئے تیار کریں۔ اس سے نہ صرف ایک خاندان بلکہ کئی خاندانوں اور معاشرے کو فائدہ ہو گا۔ ان کے دادا ڈاکٹر تھے، وہ بھی چاہتی تھی کہ ڈاکٹر بنیں، لیکن جلدی شادی ہونے کی وجه سے ایسا نہیں ہو سکا، لیکن دو بچے ہونے کے بعد انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور آج ایک کامیاب خاتون کے طور پر شناخت رکھتی ہیں۔
-------------------------
جد و جہد کے سفر سے کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کےFACEBOOK پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
کچھ اور کہانیاں بھی آپ کو پسند آئیں گی ۔۔
بچوں کے درمیان بہتر ڈائیلاگ کے لئے ایک ماں نے شروع کیا 'Stellar Children's Museum'