کثیر صلاحیتوں کے حامل ۔۔۔۔ عابد سورتی
کیا آپ کبھی ایسے کسی شخص سے ملے ہیں جو کئی علوم و فنون میں مہارتِ تامہ رکھتا ہو اور جس نے ان سبھی علوم و فنون کو اپنی گزر بسر کا ذریعہ بھی بنایا ہو؟ جی ہاں، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک شخص کی حیات اور خدمات سے روشناس کروانے جارہے ہیں جو مختلف تخلیقی صلاحیتوں سے لیس ہے۔ اس شخصیت کا نام ہے 'عابد سورتی'۔ عابد سورتی کی پیدائش ایک متمول خاندان میں ہوئی۔ لیکن ان کے خاندان کو اچانک اقتصادی بحران سے گزرنا پڑا جس کی وجہ سے بچپن سے ہی انہیں جدوجہد بھری زندگی گزارنی پڑی۔
دوسری جنگِ عظیم سے شروع ہوا سفر:
ایک کارٹونسٹ کے طور پر ان کے سفر کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایسا دور تھا جب دوسری جنگِ عظیم کا دور دورہ تھا۔ ممبئی سے ایک ٹرین چلتی تھی جس میں فوجیوں کو لے جایا جاتا تھا۔ عابد اور ان کے کچھ ساتھی اس ٹرین کے پیچھے بھاگا کرتے تھے اور فوجی، بچوں کی طرف چاکلیٹ، سینڈوچ اور بسکٹ کے پیکٹ پھینکا کرتے تھے۔ بچوں میں فوجیوں کی دی ہوئی کھانے کی اشیاء پر جھپٹ پڑنے کی ہوڑ مچ جاتی تھی۔ ایک دن ایک فوجی نے مِکی ماؤس کی ایک کامکس پھینکی جس کا صرف ایک صفحہ عابد کے ہاتھ لگا۔ لیکن اس ایک صفحے نے عابد کی زندگی بدل دی۔ عابد نے اس صفحے کو دیکھا تو اس میں ایک کارٹون بنا تھا۔ عابد کو اس کارٹون نے بہت متاثر کیا اور پھر عابد کو بھی اس کارٹون کو نقل کرنے کا شوق چرایا۔ جب انہوں نے اس کارٹون کی نقل تیار کی تو یہ کارٹون بالکل ویسا بنا تھا جیسا اس کامکس کی کتاب کے صفحے پر بنا ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس فن کے تئیں عابد کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ وہ کئی اور قسم کے کارٹونس بھی بنانے لگے۔ چونکہ اس وقت وہ محض ایک بچہ تھے اس لئے شوقیہ ہی کارٹونس بنایا کرتے تھے۔ اس وقت اس بات سے واقف نہں تھے کہ کارٹونس بناکر پیسے بھی کمائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ایک مرتبہ ان کے اسکول میں ایک پروگرام ہوا جس میں ہر بچے کو اپنے ہُنر کا استعمال کرتے ہوئے پیسے کمانے کے لئے کہا گیا تھا۔ کچھ بچے بوٹ پالش کرنے لگے تو کچھ بچے سامان بیچ کر پیسے کمانے لگے۔ کچھ بچوں نے پھول بیچنے کا کام بھی کیا لیکن عابد کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے بنائے ہوئے کارٹونس بیچنے کو شش کریں؟ عابد کے اسکول کے پاس ہی ٹائمز آف انڈیا اخبار کا دفتر تھا۔ عابد وہاں پہنچ گئے اور اپنے بنائے ہوئے کارٹونس اس اخبار کے مدیر کو دکھائے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مدیر کو وہ کارٹونس اتنے پسند آئے کہ انہوں نے عابد کے بنائے ہوئے کارٹونس میں سے کچھ کارٹونس خرید لئے۔ اور اسی وقت سے عابد کے اس سفر کا آغاز ہوگیا۔
ایک مصنف کی حیثیت سے عابد کا سفر:
جب عابد کالج میں زیرِ تعلیم تھے اس وقت انہیں زندگی میں پہلی مرتبہ کسی سے پیار ہوا۔ چونکہ عابد بہت زیادہ بے باک نہیں تھے اس لئے وہ اپنے دل کی بات کسی کو بتا نہیں پائے۔ لیکن انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار اپنے قلم کے ذریعے کیا۔ انہوں نے اپنا پہلا ناول 'ٹوٹے ہوئے فرشتے' لکھا۔ اس دوران عابد ممبئی میں ایک چال میں رہا کرتے تھے اور لکھنے کا کام کیا کرتے تھے۔ ایک کباڑی والے کو ان کی تصنیفی صلاحیت کا علم تھا اور وہ ایک پبلشر کو بھی جانتا تھا۔ اس نے عابد کی ملاقات اس پبلشر سے کروادی۔ بس، پھر کیا تھا ! عابد کا یہ ناول ہندی اور گجراتی ، ان دو زبانوں میں شائع ہوا اور یہیں سے ان کا تصنیفی سفر شروع ہوا اور تا حال جاری ہے۔ آج عابد ایک مصنف کی حیثیت سے بھی نہایت معروف ہیں۔ یوں ایک کارٹونسٹ کے ساتھ ساتھ ایک مصنف اور ایک ناول نگار کی طور پر بھی انہیں پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ ہاتھ لگا۔ پھر انہوں نے ترنگ میگزین کے لئے کئی مسلسل ناول بھی لکھے۔ اب تک عابد سورتی پینتالیس سے زیادہ ناول لکھ چکے ہیں۔ ان کے تحریر کردہ ڈراموں کے سات اور افسانوں کے دس مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔
عابد اور فلمی دنیا کا سفر:
زندگی گزارنے کے لئے عابد نے مختلف انواع کے کام کئے جن میں سے ایک کام تھا اسپاٹ بائے کا۔ ایک مرتبہ ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے عابد کو سبھاش بابو کی تحریر کردہ کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا تو انہیں بڑی حیرانی ہوئی۔ لیکن جب انہیں معلوم ہو اکہ عابد ایک مصنف بھی ہیں تو انہوں نے عابد کواسسٹنٹ ڈائریکٹر کا کام سونپ دیا۔ اس کے بعد عابد فلموں کی اسکرپٹ بھی لکھنے لگے۔ عابد نے فلم ایڈیٹنگ کا کام بھی کیا۔ فلم ایڈیٹنگ کے دوران ہی انہیں فلم کا فلو یعنی روانی سمجھ میں آنے لگی جس کی وجہ سے ان کے قلم میں مزید تاب و تواں پیدا ہوگئی۔ عابد نے محسوس کیا کہ کسی بھی ناول اور فلم کی شروعات بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ کوئی کتاب کا فلم قارئین یا ناظرین کو باندھ رکھنے کی طاقت رکھتی ہے یا نہیں۔
بہادر کامکس کا سفر :
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہندوستان کی کئی ریاستوں میں ڈاکوؤں کی دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ عابد نے چنبل ضلع کا دورہ کیا اور لوگوں سے ڈاکوؤں کے کام کرنے کے طریقے جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات کی تحقیق کی کہ لوگ آخر ڈاکو کیوں بن جاتے ہیں۔ ان کی اس تحقیق سے کئی باتیں سامنے آئیں۔ اس دوران انہوں نے ترون کمار بھدوری کی ڈکیٹی پر آئی ایک کتاب بھی پڑھی اور وہیں سے انہیں بہادر سیریز لکھنے کی تحریک حاصل ہوئی۔
عابد سورتی کو قومی اوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ وہ ایک عمدہ مصنف، کارٹونسٹ اور فن کار ہیں۔ اس سال انہیں کامیکان انڈیا نے لائف ٹائم اچیومنٹ اوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
عابد نے بہادر سیریز کی بنیاد ڈالی جسے خوب سراہا گیا۔ ان دنوں عابد پانی تحفظِ آب کے لئے کام کر رہے ہیں۔ فی الحال وہ 'ڈراپ ڈیڈ' کے نام سے ایک مہم بھی چلارہے ہیں۔
تحریر : آسوتوش کھنٹوال
مترجم : خان حسنین عاقبؔ
Author: Asuthosh Khantwal
Translator: Khan Hasnain Aaqib