فلموں کا کام چھوڑ کرپونم نے ڈیزائنرکیک کی دنیا میں 'Zoeys BakeHouse' کے نام سے مچائی دھُوم
’دی گولڈن کمپاس‘ اور '’لائف آف پائی‘ جیسی دوآسكر ایوارڈ یافتہ فلموں اور ایسی ہی سینکڑوں نامی گرامی فلموں کے لئے کام کر چکی خاتون ’پونم ماریا پریم ‘پرکیک بنانے کا جنون ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے اپنے تقریباً دس سالہ فلم پروڈکشن کے کیریئر کو الوداع کہہ دیا۔ پونم فلموں کے ’ویِزؤل ایفیکٹسVisual effects ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی تھیں ۔
حالانکہ پونم آج سے سات سال قبل ہی بیکری کے کام میں مہارت حاصل کر چکی تھیں، لیکن سال 2012 میں اپنی بیٹی کی تیسری سالگرہ کے موقع پر ایک خوبصورت سے جانور کی تھیم پر مبنی کیک تیار کرنے کی اپنی کوشش کے دوران انہیں اِس بات کا احساس ہوا کہ انہیں کیک بنانے کے اِس فن میں کھُل کر اپنی صلاحیتوں کو آزمانا چاہیے ۔
ہم بات کر رہے ہیں حیدرآباد میں واقع ’زوئیس بیک ہاؤس‘ (Zoeys BakeHouse) اور اس کی مالکن ’پونم ماریاپریم‘ کی۔ پونم بتاتی ہیں، ’’ میرے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال آیا کہ آخر یہ کتنا مشکل ہو سکتا ہے، اور اگر یہ ٹھیک طور سےنہیں بنا ،تب بھی یہ رہے گا تو میرا ہی کیک۔‘‘
بیکنگ نے پونم کا پیچھا نہیں چھوڑا
اِس کے بعد پونم اپنے فلمی کام میں مصروف ہو گئیں ۔ اِس کے بعد اُن کا بیکنگ سے دوبارہ واسطہ تب پڑا جب اُن کی ایک معاون خاتون نے اپنی بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب کے لئے پونم سے ’ اِندردھنُش ‘ کی تھیم پر مبنی ایک کیک بنانے کی التجا کی ۔
پونم کہتی ہیں،’’ یقین مانیے، میرے خیال سے وہ میری زندگی میں کیا گیا سب سے زیادہ ذہنی پریشانی والا کام تھا کیونکہ میں همیشہ یہ سوچا کرتی تھی کہ وہ لوگ ٹی وی وغیرہ پر دکھائے جانے والے اتنےبڑےکیک کس طرح تیار کر لیتے ہیں ۔‘‘
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا اور پونم اپنے فلمی کام کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوتی چلی گئیں ۔ تبھی اِس بھاگ دوڑ کے درمیان ایک دن انہیں اپنے دفتر کے ایک ساتھی کی درخواست پر دوبارہ کیک تیار کرنا پڑا ۔ گزشتہ دنوں کو یاد کرتے ہوئے پونم بتاتی ہیں، ’’ اس کام کو کاروباری طور پر کرنے کا میرا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ایک دن اچانک میں نے اپنی بیٹی ’زوئي ‘کے نام سے ایک ’ فیس بُک پیج‘ بنایا اور آگے چل کر یہیں سے ’زوئیس بیک ہاؤس‘ کی بنیاد پڑی۔ تاہم ہو سکتا ہے دوسروں کو وہ ’ فیس بُک پیج‘ بہت پسند آیا ہو لیکن میَں اُسے بنا نے کے بعد یکسر بھول ہی گئی تھی ۔ پھر ایک دن میرے شوہر نے میری توجہ اس طرف دلائی کہ میری پوسٹ فیس بک پر’ وائرل‘ ہو گئی ہے اور لوگوں کے درمیان کافی مقبول ہو رہی ہے ۔‘‘
اِس کے بعد تو اُن کے پاس آن لائن کمینٹس اور فون کالزکا تانتا سا لگ گیا ۔ لوگ اُن کے بنائے ہوئے کیک خریدنے کے لئے بے تاب تھے اور پونم ابھی اسی پس و پیش میں مبتلا تھیں کہ انہیں بیکری کےفیلڈ میں مستقبل بنانا ہے یا پھر جس فلمی کام کو وہ کر رہی ہیں اُس میں ہی آگے بڑھیں کیونکہ اُن کا ’ویِزؤل ایفیکٹس‘ کا فلمی کیریئراپنےعروج پرتھا۔
آہستہ آہستہ ’ویک اینڈز‘ میں پونم نے کاروباری آرڈر لینے شروع کر دئیے ۔ اُن کے لئے یہ کام دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ اطمینان بخش بھی تھا ۔
پونم کہتی ہیں، ’’ جب میرے پاس کیک کے آرڈرز کا سیلاب سا آگیا تب کہیں جاکر مجھے اِس بات کا احساس ہوا کہ یہ کام بھی اپنے آپ میں ایک مارکیٹ ہے، اور چھوٹا موٹا نہیں بلکہ بہت بڑا مارکیٹ ۔ اور اِ سے بڑا بنانے کے لئے صرف پاگلوں کی طرح سخت محنت کرنے کے علاوہ جاگنے والی راتیں، کچھ ناكامياں اور اِس نئے کام کے تئیں بے پناہ جنون چاہیے تھا اور میَں یہ سب کرنے کو تیار تھی۔‘‘
بیکنگ میں کُل وقتی طور پر آنا
ایک سال بعد، فلم ’پرسی جیکسن سی آف مانسٹرس ‘ میں کام کرنے کے بعد پونم نے ’ رِدم اینڈ ہیوز‘ کے ساتھ اپنے کام کو الوداع کہا اور پھر انہیں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔ اپنے فیصلے اور منصوبے پر قائم رہنے کے تعلق سے پونم کہتی ہیں کہ اصل میں یہ بہت اچھّی کمائی والا کام ہے ، لیکن اس میں لگنے والی محنت کے مقابلے میں لوگ اس کام کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پاتے ہیں ۔
پونم کا کہنا ہے کہ لوگوں کی طرف سے مسلسل پوچھے جانے والے سوالات اور درخواستوں، وهاٹس اپپ پر آنے والے پیغامات، ای میل، فون كالز، فیس بک اور کئی بار تو خود چل کر آنے والوں کے ساتھ تال میل قائم رکھنا اصل میں کافی مشکل کام ہے ۔ پونم کہتی ہیں، ’’ زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر ایک ٹیم کام کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تنہا اپنے دم پر روزانہ اتنا سب کچھ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ میرے شوہر اس کام کے محرّک ہیں اور اُن کی حمایت کے بغیر’زوئیس بیک ہاؤس‘ محض ایک خواب ہی بن کر رہ جاتا۔‘‘
تاجر میں تبدیل
پہلےکسی کمپنی کے مالک کے تحت کام کرنا اور اب خود ایک کاروبار کی مالکن بننے کے بعد پونم کو لگتا ہے کہ دونوں ہی فریقوں کے اپنے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہیں ۔ تاہم ’زوئیس بیک ہاؤس‘ سے ملی مقبولیت مکمل طور پر ان کی اپنی ہے اور اس کے دم پر عوام میں بنی شبیہہ پر وہ فخر محسوس کرتی ہیں ۔
پونم کہتی ہیں،’’ویِزؤل ایفیکٹس تخلیق کرنا انتہائی مشکل کام ہے اور کئی بار توکوئی مخصوص کام مکمل کرنے میں اتنا زیادہ وقت لگ جاتا ہےکہ اس حد تک مسلسل کام کرنا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں مسلسل 14 سے 15 گھنٹے تک کام کرتی تھی اور اپنی بیٹی کو دیکھنے تک کو ترس جاتی تھی ۔ حالانکہ اب بھی میں روزانہ تقریباً 12 گھنٹے کام کرتی ہوں لیکن اب میں نے کام اور زندگی کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور جب بھی ضرورت پڑتی ہے، میَں اپنی بیٹی کے لئے ہر وقت حاضرہوں۔‘‘
پونم کو ایک کاروباری شخصیت کے طور پر صارفین کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ان سے مسلسل رابطہ قائم رکھنا اور تجارت کووسعت دینا سب سے زیادہ مشکل کام لگتا ہے ۔ اگرچہ یہ پہلے بھی کافی مشکل تھا لیکن جیسے جیسے آپ ترقی کرتے ہیں ویسے ویسے ہی لوگوں کی امیدیں اور مطالبات بھی بڑھتے جا تے ہیں ۔ پونم کہتی ہیں،’’ کسی بھی تاجر کے لئے اپنے صارفین اور مارکیٹ کو جاننا سب سے زیادہ اہم ہے ۔ محنت کا پھل ہمیشہ ملتا ہے اور اچھا کام کبھی بھی سستا نہیں ملتا۔‘‘
پونم مزید کہتی ہیں،’’ کئی بار کافی طویل وقت تک باورچی خانے میں ہی رہنا بہت زیادہ بوجھل ہو جاتا ہے لیکن جیسے جیسے آپ اس کام میں محو ہوتے جاتے ہیں یہ آپ کی زندگی کا ایک متبادل سا بن جاتا ہے ۔‘‘
خواتین کا خود کفیل ہونا انتہائی ضروری
پونم کا کہنا ہے کہ ُان کا ہمیشہ سے ہی یہ خیال رہا ہے کہ خواتین کو خود کفیل ہونا چاہئے اور جب تک اُن کی قوّتِ اردای ان کا ساتھ دے، انہیں خود ہی آگے بڑھنے اور ترقّی کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، پھر چاہے وہ گھر سے کام کر رہی ہوں یا پھرکوئی بھی فُل ٹائم یا پارٹ ٹائم ملازمت وغیرہ۔ ایک ماں کی حیثیت سے پونم کہتی ہیں،’’ بڑھتے بچوّں کے ساتھ آپ بھی بڑی ہوتی ہیں اور ایک بار جب آپ کے بچّے اپنی زندگی میں استحکام حاصل کر لیتے ہیں تو آپ نے اپنی جو شناخت بنائی ہے وہی پوری زندگی آپ کے ساتھ سائے کی طرح رہتی ہے ۔‘‘
پونم کے دماغ میں اپنا ایک آف لائن’ ریٹیل آؤٹ لیٹ‘ شروع کرنے کا خیال بھی كلبلا رہا ہے، لیکن ایک بڑی ہوتی بیٹی اور کام میں مصروف شوہر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ اُن کے اس خواب کو حقیقی شکل اختیار کرنے میں کچھ اور وقت لگے ۔
ایک مثبت جملےکے ساتھ اپنی بات ختم کرتے ہوئے پونم کہتی ہیں،’’ لیکن یہ خواب ایک دن یقیناً حقیقت بنے گا ۔ اب یہ ایک الگ موضوع ہے کہ ایسا ابھی ہوگا یا پھر کچھ عرصےبعد۔‘‘