تین خواتین نوکری چھوڑ کر حیدرآباد میں چلا رہی ہیں این جی او
اپرنا وشواناتھم،ہمانی گپتا اور شری لتا نندوری کی این جی او کریتی
خدمت خلق کا جذبہ اگر کسی کے دل میں بس جاتا ہے تو وہ بڑے سے بڑے کام کر جاتا ہے اور کوئی بھی قربانی دینے کا راضی ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس جذبے کے لئے اپنی اچھی نوکری اور سارے کام چھوڑ کر چھوڑ دئے اور اسی جستجو میں لگ گئے کہ کس طرح سے غریبوں ، بے سہارا عورتوں،بے گھر انسانوں اور اسکول چھوڑ رہے بچوّں کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے۔
شہر حیدرآباد بہت اعلی ٰ معیاری ،تاریخی اور تہذیبی شہر ہے۔ یہا ں لوگ بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں بڑی بڑی گاڑیاں چلاتے ہیں ، یہاں کی تعلیمی حیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سکّے کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اسی شہر میں غر یب اور بے سہارا لوگوں ، تعلیم کو بیچ ہی میں چھوڑ رہے بچّوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ان تمام مشکلات پر کسی کی نظر پڑے یا نا پڑے لیکن ایک این جی یو کی نظر ضرور پڑ جاتی ہے۔اس کا نام ’’کریتی‘‘ ہے۔
کریتی این جی یو حیدرآباد کے’’ شیخ پیٹ‘‘ علاقہ میں موجود ہے۔کریتی کی شروعات 2009ء اپرنا وشواناتھم،ہمانی گپتا اور شری لتا نندوری نے مل کر کی ۔ فی الوقت این جی یو کے ذریعہ ہونے والے انسانی امداد کے تمام پروگرام ہمانی گپتا اور شری لتا نندوری چلا رہی ہیں۔
ہمانی گپتا دہلی کی رہنے والی خاتون ہے۔انہوں نے بٹس ،پلانی سے کیمیکل انجینیر اور سیڈ بز نس اسکول، آکسفورڈسے ایم بی اے کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔
ہمانی نے اپنے کیریرکی شروعات ہندوستان یونیلور کمپنی میں مینیجمنٹ ٹرینی کے طور پر کی۔ 2001 ء میں شادی کے بعد لندن چلی گیں،لندن میں ’کیمپیمنی ‘ اور’ پرائس واٹر ہاؤس کوپر‘ کمپنیوں کے لیے کام کیا۔ 5سال بعد2006 ء میں لندن سے واپس آگیں۔اور مسلسل تین سال تک ’یونائٹس این جی یو‘ بنگلور میں کام کرتی رہی۔ جب ھمانی سے پونچھا گیا کہ آپکو لوگوں کی مدد کرنے اور این جی یو شروع کرنے کا خیال کہاں سے آیا تو انہوں نے بتایا :
’’2006ء میں جب میں لندن سے واپس آئی تب ہی میں نے من بنا لیا تھا کہ کچھ ایسا کام کیا جائے جس سے ضرورت مندوں کی مدد ہو سکے۔ اور پوری طرح سے کریتی کے کام میں لگ گئی ۔میرے شوہر اچھی نوکری کرتے ہیں۔ اس لیے پیسے کا زیادہ مسئلہ نہیں تھا۔اور میں نے کسی دوسری کمپنی میں نوکری نہیں کی۔''
2009 سے ہمانی نے اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر ’ ’کریتی سوشل انیشئٹوس‘ ‘کیبنیاد ڈالی اور آفس کوکٹ پلّی میں قائم کیا۔انکا سب سے پہلا پروجیکٹ:’الٹرا پوئر پروجیکٹ ‘ تھا۔ اس کے تحت غریبوں کے مفت علاج کے لیے 5کریتی کلینک حکیم پیٹ،مقدوم نگر،موسٰی پیٹ او ر ۱۵ کلومیٹر کے آس پاس کے علاقوں میں کھولے ۔پھرانہوں نے غریب بستیوں کا سروے کر کے1200میں سے200 غریب گھر چنے اور ان سب کوسلائی وغیرہ کی ٹریننگ دینا شروع کی۔ یہ پروجیکٹ ۲۰۱۲ ء تک چلا۔
فل وقت کریتی این جی یو عورتوں کو کام دلانے کا کام کر رہی ہے ۔اس کام میں ۱۵سال سے اوپر کی40لڑکیاں اور عورتیں شامل ہیں، جو سلائی،کاغذ بیگ،بیڈ شیٹ وغیرہ بناکرماہانہ 2 سے 6 ہزار روپیے کما کر اپنا گھر چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔اس حوالے سے شری لتا نندوری نے کہا :
’’ کریتی میں ہاتھ سے کاغذ بیگ ، کپڑے کے بیگ او ر بیڈ شیٹ وغیرہ جتنا بھی سامان بنتا ہے ، ہما ری کو شش یہی رہتی ہے کہ ہم اسے اسکولی اور کچھ غیر ا سکولی نمائشوں میں فروخت کریں۔ سامان کو آن لائن بھی خریدا جا سلتا ہے۔ اس سے جو بھی رقم حاصل ہوتی ہے وہ ان عورتوں کے کام آتی ہے جنہوں نے سامان اپنے ہاتھ سے تیار کیا ہے۔''
اس کے ساتھ کریتی ان بچوں پر بھی کام کر رہی ہے جو تعلیم کی شروعات میں ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ان بچوں کو وظیفہ کی مدد اور پڑھ نے کے لیے بیداری کا اہم کا م کریتی کے ذریعہ کیا جا رہا ہے۔ وظیفے کے لیے ہر سال تقریباً۱۰۰ بچّے شامل ہوتے ہیں۔ ان میں این سی سے ماسٹر ڈگری تک کے طالب علم شامل ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی طالب علموں کو وظیفہ دیا جا رہا ہے۔
کریتی نے ان لوگوں کی مدد بھی کی ہے جو بے گھر ہو گیے تھے۔ایسے لوگوں کو ان کی زمین کے پٹّے دلانے کے لیے درخواست بھی پیش کی تھی۔
دور حاضر میں بے سہارہ عورتوں کو معاشی طور پر خود مختار بنانے اور اسکول چھوڑ رہے بچّوں کو تعلیم دلانے کی کوشش کر کے ہمارے سماج کی فلاح و بہبود کا کام کر رہی یہ کریتی این جی یو ایک پبلک ٹرسٹ ہے۔اسے کسی بھی طرح کی کوئی سرکاری مدد نہیں مل رہی ہے۔یہ صرف عوامی مدد سے چلائی جاتی ہے۔کریتی کو مالی مدد دینے سے، دینے والے کو ا نکم ٹیکس میں قانون کے مطابق راحت بھی حاصل ہوتی ہے ۔ ا ور ایک ایک پائی معاشرہ کی مدد میں خرچ کی جاتی ہے۔کریتی کے بارے میں انٹر نیٹ سے معلومات حاصل کرنے کے لیے درج ذیل لنکس پر رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
Website : kriti.org.in
--------------------
کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں..
حجاب میں رہنے والی شہناز سدرت ہندوستان کی تیسری طاقتور خاتون منتخب
موت کے منہ سے نکل کر سلطانہ نے لڑی ظلم کے خلاف جنگ اور بنی جہدکار