نئی دنیا کے ساتھ جینے کا فارمولا ہے مولانا جہانگیر کا ادارہ ... اسلامی ماڈل یونیورسٹی
شہر حیدرآبادمیں ویسے تو کئی عظیم ہستیوں نے اپنے علم وفن کے سے دنیاکواپنی قابلیت کا قائل کروایا ہے آج ہم ایسی ہی ایک ہستی کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں وہ ہیں جناب مولانا سید جہانگیر جو ایک ایسا منفرد ادارہ چلا رہے ہیں جو کہ سارے ہندوستان میں وہ اپنی آپ خود ایک مثال ہے جامعہ حرمین شریفین عربی اسلامی ماڈل یونیورسٹی کے نام سے یہ ادارہ حیدرآباد کے محلے تار ناکہ میں خاموش انداز میں کام کر رہا ہے۔ اس میں تقریبن 170 طلباء زیر تعلیم ہیں اس ادارہ کی خاص بات یہ کے یہاں بچوں کو عربی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ اس ادارہ کا قیام2011 میں عمل میں لایا گیا اور اس مختصر سے عرصہ میں طلباء میں جو صلاحیتیں پیدا ہوِئی، وہ قابل دید ہے۔ مولانا جہانگیر جو کام کر رہے ہیں وہ سارے ہندوستان کے مدارس کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔
یور اسٹوری سے باتچیت کے دوران مولانا جہانگیر نے کہا کہ ان کی جامعہ ہندوستان میں در حقیقت ان لوگوں کے خوابوں کی تعبیر ہیں، جو کئی دہوں سے دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں بہتری لانے کے لئے شب و روز سرگرداں ہیں مزید مولانا نے بتایا کہ انہوں نے دوران طالب علمی وہ اپنے دوستوں کے جاکر انگریزی کا ٹیوشن لیا کرتے تھے کیوں کہ مدارس میں کوئی انگریزی کا نظم نہیں تھا اور مولانا نے اپنی کوششوں سے انگریزی تعلیم بھی حاصل کی اور اس کمی کو ہمیشہ محسوس کرتے رہے اس لئے انہوں نے یہ تہیہ کر لیا کہ اس کمی کو وہ ضررور پورا کرینگے۔
مولانا نے کہا،
'کون کیا کر رہا اس سے مجھے کوئی مطلب نہیں۔ میں کیا کر سکتا ہوں یہ اہم ہے۔ چونکہ میں ایک عربی مدرسہ سے فارغ ہوں مگر پھر بھی میں نے ہمّت نہیں ہاری اور عربی کے ساتھ انگریزی بھی سیکھی ، نہ صرف انگریزی سیکھی بلکہ عربی سے انگریزی ترجمہ سے منسلک بھی رہے اور سعودی عرب کے جیزان سی پورٹ میں مترجم کی حثییت سے ملازمت بھی کی۔ وہاں مجھے تقریباً پندرہ کمپنیوں کی زمہ داری سونپی گیی کیوں دوسرے لوگ نہ اگریزی میں مکمّل تھے نہ عربی میں۔ ''
وہاںمولانا نے اس کمی کو شدّت سے محسوس کیا کہ مسلمانوں میں پسماندگی ،پستی ،ان کی ذہنی ،فکری اور مالی پستی کی وجہ سے ہے اور اسی وجہ سے وہ علم سے دور ہیں۔ مولانا نے اسی جزبہ کے تحت ایک ایسے ادارہ کی کمی کو محسوس کیا، جہاں طلباءکو علوم قرانی کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا بھی ماہر بنایا جائے۔ پھر کافی جدوجہد کئے اور کئی سالوں کی انتھک کوششوں کے بعد اس جامعہ کی بنیاد ڈ الی تاکہ مسلمانوں میں عربی زبان میں مہارت حاصل ہو اور وہ قران مجید کی تفسیر اور حدیث کی کسی بھی کتاب کو پڑھنے کے قابل ہو جائیں اور مسلمانوں میں یہ یقین پیدا کرنا کہ اگر ہم علم حاصل کرلینگے اور الله کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں تو ضرور الله ہمارے لئے رزق کے دروازے کھول دیگا۔ اس نفسہ نفسی کے دور میں مولانا جہانگیر کا یہ اقدام ملّت کےلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
اس ادارہ میں بیرون ریاستوں جیسے بہار ،اتر پردیش ، جھار کھنڈ، کرناٹک' کشمیر،آسام،تمل ناڈو، کیرالا وغیرہ کے طلباء مستفید ہو رہے ہیں۔ یہاں طلبا کو انگریزی روزنامہ دے دیا جاتا ہے وہ عربی میں اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ویڈیو کے ذریعے ان کو عملی مشق کروائی جانی ہیں ۔ بلا لحاظ عمر سبھی کو داخلہ کی اجازت ہے – چند سال قبل لڑکیوں کے لئے بھی تعلیم کا آغاز کیا گیا ہیں۔ طلباء کی صلاحییتوں کا جب آپ عینی مشاہدہ کرین گے تو آپ بھی دم بخود رہ جاینگے اس روانی سے عربی اور اور انگریزی بولتے ہیں کہ سننے والا سنتا ہی رہ جائے حالانکہ انہوں نے یہاں آنے سے پہلے کوئی باضابطہ تعلیم بھی حاصل نہیں ہے۔
مولا نا جہانگیر واقعی قابل مبارکباد ہیں جو اس طرح علم کی روشنی سارے ہندوستان میں پھیلا رہے ہیں یہا سے فارغ طلباء انگریزی سے عربی اور عربی سے انگریزی کے ترجمہ کے کے شعبے میں بہ آسانی ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اس ادارہ کے موجودہ شعبہ جات میں ۔۔۔ 11 ماہ میں حفظ قران مجیداور بخاری و مسلم کی تکمیل 6 ماہ میں علوم قران کریم میں مہارت ، حساب کی تربیّت دسویں جماعت کے امتحان کی تیاری و شرکت اور .B.A کی سرٹیفکیٹ ک حصول وغیرہ شامل ہیں ۔
مولانا جہانگیرخود ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انگریزی میں بھی تعلیم حاصل کی ۔ زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھنے کے بعد وہ آج اسکول آف عرب اسٹڈیز اور اسکول آف ایشین اسٹڈیز (دی انگلش اینڈ فورن لینگویجز یونیورسٹی ، حیدرآباد ) کے ڈین ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خاموش انداز میں قوم و ملّت کی خدمت میں مصروف ہیں. اور آپ کے لگائے گئے اس پودے کی جڑیں پورے ملک میں پھیل رہیں ہیں۔