ہار کر جیتنے کا نام ہے... حیدرآبادی حلیم کو دنیا بھر میں شہرت دلانے والے ایم اے مجیداور ان کے پستہ ہاوس کی کہانی
کپڑوں کے روایتی کاروبار سے نکل کر رکھا تھا مٹھائی اور بیکری کے کاروبار میں قدم ۔۔۔ لاکھوں روپے لگانے کے بعد اچانک آئی مصیبت اور پھر بیچنی پڑی تمام جائداد، ۔۔۔ پھر شروع ہوا پستہ ہاؤس کو قائم کرنے کے لئے طویل جدوجہد کا دور۔۔۔اور حلیم نے دی دنیا بھر میں شناخت
کپڑوں کے روایتی تاجر خاندان کا ایک نوجوان، جو ابھی ابھی کالج کی تعلیم مکمل کرکے نکلا ہے۔ وہ شہر کی ایک مٹھائی کی دکان پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ باتوں باتوں میں اسے احساس ہوتا ہے کہ شہر میں کوئی برانڈیڈ بیکری اور ریستراں ایسا نہیں ہے جسے حیدرآباد کے نام پر دور دور تک پہچانا جا سکے۔ اسی خیال سے وہ آپ کی دنیا بسانے نکل پڑتا ہے۔ حالانکہ روایتی تاجر خاندان اس کھانے کھلانے کے دھندے میں اس کے داخلے کو پسند نہیں کرتا، لیکن اس کے حوصلے بلند ہیں، وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ بڑھ بھی جاتا ہے، لیکن اچانک ایک ایسا حادثہ زندگی پر گزرتا ہے کہ سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ محنت سے بسائی ہوئی دنیا کسی دوسرے کی غلطی کی وجہ سے اجڑ جاتی ہے۔ ساری جائداد فروخت جاتی ہے، لیکن امید کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے، اسی راستے پر چل کر اجڑے ہوئے نشیمن کو دوبارہ بسانے کے لئے جب سفر شروع ہوتا ہے تو پھر رکنے کا نام نہیں لیتا۔ حیدرآبادی حلیم کی خوشبو دنیا بھر میں پھیلانے کا سہرہ حاصل کرنے والے اس شخص کی بسائی ہوئی دنیا کو لوگ پستہ ہاؤس کے نام سے جانتے ہیں اور اس شخص کا نام ہے، ایم اے مجید، جنہوں نے ہار کر جیت کا سفر شروع کیا تھا۔ وہ سفر حیدرآباد سے نکل کر امریکہ تک پہنچ گیا ہے، جہاں آج کل وہ اپنی بسکٹ فیکٹری قائم کرنے کے میں مصروف ہیں۔ كینڈا اور آسٹریلیا میں بھی کاروبار کو توسیع کی جا رہی ہے۔
رمضان کے آتے ہی نہ صرف ہندوستان بلکہ جہاں بھی لوگ حیدرآبادی حلیم کے بارے میں جانتے ہیں، پستہ ہاؤس کی حلیم کھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ رمضان میں حیدرآباد میں ہی 400 دکان کھولے جاتے ہیں اور 5000 سے زیادہ لوگوں کو پستہ ہاؤس سے روزگار ملتا ہے۔ اس کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ حلیم کی خصوصی فروخت کے لئے باصلاحیت اور ضرورت مند طلباء کو اولیت دیتے ہیں، تاکہ وہ رمضان کے دوران حلیم فروخت کر اپنی تعلیم کا خرچ نکال لیں۔
پستہ ہاؤس نے حیدرآباد میں 6، بینگلور میں 1، وجےواڈہ میں دو اور امریکہ میں دو شاخیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے یو اے ای میں بھی بسکٹ فیکٹری قائم کی ہے۔ ایم اے مجید نے یور اسٹوری کو بتایا کہ ان کے بنائے گئے عثمانیہ بسکٹ، پستہ بسكٹ اور فروٹ بسکٹ دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ حیدرآباد میں انہوں نے 100 اقسام کی کوکیز بنائی ہیں، جن میں چار قسم کے شوگر فری بسکٹ کی طلب بھی بڑھنے لگی ہے۔
اپنے کاروبارکی اس توسیع پر ایم اے مجید کہتے ہیں، ابھی بہت منزلیں طے کرنا ہے، ابھی تو شروعات ہوئی ہے۔ انسان جتنا بھی کام کرے، اسے کم ہی محسوس ہوتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ ساری دنیا میں ہندوستان کا نام ہو اور بسکٹ اور حلیم کھا کر لوگ انہیں یاد کریں۔
مجید بتاتے ہیں کہ ممبئی کے لئے الفانسو آم، بنارس کے لئے بنارسی ساڑھی اور دارجلنگ کے لئے وہاں کی چائے ہے، اسی طرح حیدرآباد کے لئے حکومت ہند نے حیدرآبادی فوڈ کی شناخت کے طور پر پستہ ہاؤس حلیم کو جگہ دی ہے۔ پستہ ہاؤس کو پہلا جی ائی ایس اسٹیٹس ملا ہے۔ انہوں نے امریکہ میں اپنے توسیع کے بارے میں بتايا کہ کیلی فورنیا میں 5 ایكر پر فیکٹری شروع کی ہے۔ جے پی اور چكريی جیسے پارٹنر کے ساتھ کام کر کر رہے ہیں۔ ان کا منصوبہ دنیا بھر میں 100 شاخیں قائم کرنا ہے۔
ایم اے مجید مانتے ہیں کہ کاوربار کو پھیلاتے ہوئے اصلی ذائقہ کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہے۔ اس لئے بھی کہ ایک جگہ ہو تو اس پر پورا خیال رکھا جا سکتا ہے، لیکن پھیلنے سے وہی ذائقہ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، تربیت پر کافی توجہ دینا پڑتا ہے۔
مجید بھائی کا یہاں تک پہنچنا آسان سفر نہیں رہا۔ اس دوران انہیں کئی بار سخت مشکلوں اور سخت امتحان سے گزرنا پڑا۔ اس لئے بھی کہ وہ فوڈ انڈسٹری میں پہلی جنریشن کے کاروباری ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،
'' میرے والد اور بھائی ٹیکسٹائل کے کاروبار میں تھے، دپاولی، دسہرا اور رمضان کا کاروبار ہوتا تھا، لیکن شہر میں تہوار کے دوران فنکشن ہالوں میں سیل لگنے لگی تھی۔ اس کاروبارمیں میری دلچسپی کم ہونے لگی تھی۔ مجھے لگا کہ فوڈ انڈسٹری میں کافی امکانات ہیں۔ ''
مجید بھائی فوڈ انڈسٹری میں آنے کے پیچھے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ مٹھائی کی دکان کے سامنے کھڑے تھے۔ انہیں لگا کہ اس کاروباری کو اس تجارت میں خدمت خلق کا فخر ہونے کے بجائے کاروبار میں تسلط ہونے کا گھمنڈ زیادہ تھا۔ پھر کیا تھا، مجید بھائی نے ایک برانڈ کھڑا کرنے کی ٹھانی۔ اس میں کامیاب بھی ہوئے، لیکن پھر اچانک ایک بجلی گری، اور سارا کیا کرایا چوپٹ ہو گیا، لیکن مجید بھائی نے ہمت نہیں ہاری۔
مجید بھائی تفصیل سے بتاتے ہیں،
1990 کی بات ہے۔ میں نے ٹھان لیا تھا کہ میں مٹھائی اور بیکری کے کاروبار میں قدم رکھوں گا۔ اسی سال جولائی کے مہینے میں میں 35 لاکھ روپے کاروبار میں لگائے۔ آٹومیٹک مشینیں منگوائی گئی۔ حیدرآباد میں دھوم تھی کہ ایک نیا بیکری اور مٹھائی کا برانڈ آ گیا ہے۔ 100 لوگ کام کرتے تھے۔ کپڑے کی دکان میں میرا جو بھی حصہ تھا، لے کر ہٹ گیا تھا۔ بڑا چیلنجنگ کام تھا۔ اس کے لئے میں نے خود بھی بیکری کا مکمل کام سیکھا۔ مٹھائی بنانا سیکھا۔ آئسكريم اور ناشتے بنانے سیکھے۔ ایک سال تک یہ سلسلہ جاری تھا۔ مکمل خاندان ناراض تھا کہ میں ایک انجان کاروبار میں داخل ہو رہا ہوں۔ اسی درمیان ایک حادثہ ہو گیا، کچھ لوگوں کی سازش سے فوڈ پائزننگ کا واقعہ ہوا۔ حالانکہ یہ واقعہ اتنا بڑا نہیں تھا، لیکن ایک اخبار کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے سارا کاروبار چوپٹ ہو گیا۔ اس اخبار نے رپورٹ کر دی تھی کہ 11 لوگ مر گئے ہیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ پھر کیا تھا جنہوں پیکنگ، ڈیكوریشن اور دوسرے کاموں میں اپنا پیسہ لگایا تھا، بینک سے قرض بھی لیا تھا۔ سب کے سب آ بیٹھے اور اپنا روپیہ مانگنے لگے۔ میرے حصے میں خاندانی 7 مکان آئے تھے۔ بینک کا قرض بڑھ رہا تھا، دینداروں کی مانگ بھی بڑھ رہی تھی۔ میں نے سارے مکان فروخت دیے۔ حالات بہت خراب ہوتے گئے، جہاں 1 لاکھ کا روزانہ کا بزنس تھا، وہ چار پانچ ہزار پر آ گیا تھا۔
ان دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے مجید بھائی کا گلا روندھ جاتا ہے۔ ان کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، دو راستے تھے میرے پاس یا تو سوسائڈ کروں یا پھر شہر چھوڑ کر بھاگ جاؤ، میں خودكشی کر نہیں سکتا تھا اور شہر چھوڑ کر جانا مجھے منظور نہیں تھا۔ تو مکمل نڈرتا سے جمے رہنا ہی ایک متبادل تھا۔ میں نے سب سے پہلے جن کا قرض لیا تھا، اسے لوٹانے کی شروعات کی۔ جتنی بھی آمدنی ہوتی روزانہ کچھ نہ کچھ لوگوں کو واپس کرتا رہتا۔ گھر میں سب نے ایک دوسرے سے وعدہ کر لیا تھا کہ جب تک مکمل قرض ادا نہیں ہوگا، ہم نئے کپڑے نہیں پہنیں گے۔ ساتھ ہی ایک اور وعدہ اپنے آپ سے کیا تھا ۔۔۔ جہاں پیسے گرے ہیں، میں وہیں سے پیسے اٹھاؤں گا۔ کیونکہ نہ میں نے کوئی جوا کھیلا تھا اور نہ کوئی غلط کام کئے تھے۔ آٹھ سے دس سال لگے اس صورت حال سے ابھر کر سامنے آئے لئے۔
ایم اے مجید کا اسٹرگل آٹھ سے دس سا چلا، لیکن وہ ہارے نہیں۔ حالانکہ اس دوران انہیں کافی کچھ پریشانیاں جھیلنی پڑی۔ دوست احباب اور اپنے سب بیگانے بن گئے تھے۔ لوگوں کو یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ مصیبت میں انہیں پیسے مانگنے نہ چلے آئیں۔ ساتھ ہی یہ غصہ بھی تھا کہ ہمارے منع کرنے کے باوجود بھی اس کاروبار میں چلا گیا، لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ کچھ لمحے تو ایسے گزرے کہ انہیں یاد کرتے ہوئے آنکھ بھر آتی ہے۔
مجید بھائی بتاتے ہیں،
- دوستوں نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ رشتہ دار بھی طعنے مارتے تھے کہ ہم سے پوچھے بغیر کام کیا۔ ایک دن تو پہاڑ سا گزرا۔ میں پستہ ہاؤس بند کر کے واپس گھر گیا۔ میری جیب میں 10 روپے تھے۔ کرایہ کے مکان میں رہ رہا تھا۔ بیٹی کو تیز بخار تھا۔ میں میری بیوی روتے رہے، ایسا وقت بھی ہم پر آیا۔ ہسپتال جاتا تو کم از کم 100 روپے چاہئے تھے، لیکن كروسن کی گولی بیٹی کو کھلا کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں لگاتے ہوئے ہم شوہر بیوی نے رات گزاری۔
پستہ ہاؤس نے جب 1997 میں حلیم لانچ کی تو پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پہلے پوسٹل ڈپارٹمینٹ اور پھر گتی جیسے ٹرانسپورٹ نے ان کی حلیم ملک بھر میں پہنچائی۔ اس وقت کے وزیر مواصلات پرمود مہاجن نے ان کی اس معاملے میں مدد کی۔ سارے لوگ سوچ کر پریشان تھے کہ حلیم ڈاک سے کس طرح جائے گی، لیکن انہوں نے اسے ممکن کر دکھایا۔ اس وقت حلیم زیادہ تر پرانے شہر میں پاپولر تھی، جسے پستہ ہاؤس نے دوسرے بڑے شہروں تک پہنچایا۔
اپنی کامیابی کا کریڈٹ معیار اور تحقیق کو دیتے ہوئے مجید بھائی بتاتے ہیں کہ ان کے کاروبار پر ایک طالب علم نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انڈین بزنس اسکول اور ایسكی سمیت کئی بڑے اداروں نے ان کے کاروبار پر مطالعہ کروایا ہے۔ ان کے بڑے فرزند ایم بی اے کرکے امریکہ میں کاروبار سنبھال رہے ہیں اور چھوٹے فرزند حیدرآباد میں کاروبار سنبھال رہا ہے۔