کبھی چھوٹے سے کمرے میں گزرتی تھی زندگی... آج ویژول ایفکٹس کی دنیا کا روشن نام - جنید
ہالی ووڈ ہو یا بالی ووڈ اپنے بہترین ویژول ایفکٹس کے ذریعے سے شائقین کے دل پر راج کرتی ہیں۔ کئی فلموں میں ویژول ایفکٹس کے ذریعے کہیں خوب صورت برفباری کا منظر فلمایاجاتاہے یا کہیں پر جھرنے کے گرنے کا منظر دکھایاجاتاہے۔س کے علاوہ سوپرہیرو کی فلموں میں ہیرو کو ہوامیں اڑتاہوا یا آگ سے کھیلتا ہوا دکھانا صرف ویژول ایفکٹس سے ہی ممکن ہے۔ یہ دنیا دور سے جتنی چمکدار ہے اس تک رسائی اتنی ہی مشکل ہے۔ ا۔ پردے کے پیچھے رہ کر کام کرنے والے ویژول ایفکٹس پروڈیوسر کی خدمات کرنے والے جنید ایک ابھرتے ہوئے ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی کہانی یوراسٹوری ڈاٹ کام کے قارئین کے لئے پیش کی جارہی ہے۔ سید جنید اللہ کا تعلق نلگنڈہ سے ہے۔ ان کے والد سید کرامت اللہ نلگنڈہ اسکول کے فیزیکل ٹیچر اور ایک فٹبال پلیئر بھی تھے۔ انھوں نے بچپن سے ہی جنید کو کچھ نیا کرنے کی آزادی دے رکھی تھی۔
جنید اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہیں، ”میں نے سینٹ الفنس ہائی اسکول نلگنڈہ سے ایس سی سی پاس کیا۔ میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کروں اور کچھ مختلف کام کروں“۔
جنید کا بچپن ہی سے تخلیقی ذہن تھا۔ وہ ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی سوچتے رہتے۔ ان کی اسی جستجو نے انھیں صرف ایس ایس سی کے بعد تھیٹر سے قریب کردیا۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد انھوں نے فاصلاتی تعلیم سے گریجویشن کیا۔ ریگلورتعلیم حاصل کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے شوق اور جستجو کو ترجیح دی۔ ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں رہنے والے جنید نے نلگنڈہ کو چھوڑدیا اور یہاں حیدرآباد میں رہنے لگے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا وہ حیدرآباد کی منورجنگ مسجد کے ایک کمرے بھی رہے۔
سب سے پہلے وہ سوتردھار تھیٹر گروپ سے جڑے۔ یہاں پر وہ شروع میں ڈرامے دیکھتے تھے۔ دھیرے دھیرے وہ خود اسٹوریز لکھنے لگے۔ اس تعلق سے انھوں نے کہا،”بچپن میں کسی نے علامہ اقبال کا یہ شعر مجھ سے کہا
’نہیں تیرا نشیمن قصرسلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہےں بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
‘ اس شعر نے میرے ذہن پر گہرا اثر کیا۔ چوں کہ میں انگریزی میڈیم کا تھا اس لئے علامہ اقبال کا کلام میرے لئے بالکل نیا تھا۔ میں نے علامہ اقبال کے سارے کلام کا مطالعہ شروع کردیا۔ ساتھ ہی انٹرمیڈیٹ کے بعد سوتردھار تھیٹر گروپ گیا، جہاں پر مجھ سے ڈرامے دیکھنے کو کہا گیا۔ اس کے بعد میں نے کئی ڈرامے خود لکھے اور اپنی درامے کو اسٹیج پرپیش بھی کیا ۔ لوگوں نے اسے پسند بھی کیا۔“
جنید کو اردو سے کافی دلچسپی تھی ۔ اسی دلچسپی کی وجہ سے وہ کئی بار شہر کے ایک اردو روزنامہ منصف کے بھر چکر لگائے۔ یہاں وہ ادبی لوگوں سے استفادہ کے متمنی تھے۔ انھوں نے وہاں جاکر علامہ اقبال کے ماہرین اور مرزا غالب کے ماہرین سے بات کرنے کی کوشش کی۔ جہاں پر انھیں شہر کے دیگر لوگوں کے پتے وغیرہ بھی دیئے گئے۔ جہاں جاکر انھوں نے اپنی ادبی تشنگی کو دور کیا۔ اس تعلق سے انھوں نے بتایا ”اردو میرا مضمون نہیں تھا، لیکن میں اس کی جستجو میں کئی لوگوں سے ملاقات کی۔ میں نے کبھی بھی اپنی جستجو کو روکا نہیں۔ مجھے کچھ نیا سیکھنے کے لئے جہاں بھی جانا ہوتا میں چلا جاتا۔ آرٹسٹ ایم ایف حسین کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔ میں ایک دفعہ ان سے ملنے ان کے گھر پر بھی چلاگیا۔ میں نے کام کے سلسلہ میں ہانگ کانگ، تھائی لینڈ وغیرہ کا بھی دورہ کیا۔“
کچھ نیا سیکھنے کی جستجو نے گرافکس ڈیزائننگ کی طرف لے آئی۔ گرافکس ڈیزائننگ سیکھنے کے بعد ان کی جستجو میں مزید اضافہ ہوا۔ جنید نے اس تعلق سے پوچھنے پر بتایا، ”شروع میں جب کبھی فلم دیکھتا تو مجھے لگتا کہ یہ کیسے بنتی ہے۔ کچھ ویژل ایفکٹس کیسے بنتے ہیں۔ اسی جستجو میں فائرفلائی گروپ میں شامل ہوا۔ سنت، فنی اور ناگیش اس اسٹوڈیو کے فاﺅنڈر ہیں۔ یہاں پر میں ویژل ایفکٹس پروڈیوسر اورسوپروائزر کی حیثیت سے کئی اہم پراجکٹکس بھی تکمیل کیا ہوں“۔
کسی بھی کام کر نے کے دوران ہمیشہ آسانیاں ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ جدوجہد اور مشکلات کے بارے میں جب جنید سے پوچھا گیا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ”جدوجہد اور اسٹرگل آپ کی نظر میں ہوسکتا ہے، میں تو یہ کہوں گا یہ میری جستجو تھی اور جستجو میں انسان مشکلات اور پریشانیوں کو نہیں دیکھتا۔ میں جو کچھ کیا جس طرح بھی کام کیا اس سے میری جستجو اور نیا سیکھنے کی چاہ بڑھتی گئی اور میں اپنے کام میں آگے بڑھتا گیا“۔
جنید آج کامیابی کی نئی دنیا کےسفر پر ہیں، وہ اس کمیابی کا سہرہ اپنے سر نہیں لیتے بلکہ سارا کریڈٹ اپنی والدہ کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''آج میں جو کچھ بھی ہوں ، وہ سب میری ماں کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔''
جنید نے تلگو اور تمل کی تقریباً 40 فلموں کے لئے کام کیا ہے۔ انھیں 2014ءمیں ریلیز ٹمل فلم ”کائل“ کے لئے ریاستی سطح کا ایوارڈ بھی ملا۔ حالیہ پراجکٹ کے بارے میں وہ کہتے ہیں” راج مولی کی فلم مگدھیرا میں لائن پروڈیوسر کی حیثیت سے میں نے کام کیا اور اس فلم کے ویژل ایفکٹس کے لئے ہمیں نیشنل ایوارڈ بھی حاصل ملے۔ حالیہ ریلیز فلم ’باہوبلی‘ جس نے 600 کروڑ سے زیادہ بزنس کیا کے لئے بھی میں نے ویژل ایفکٹس پروڈیسر سوپر وائز کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہے“۔
طلباءکے لئے کوئی پیغام دینے کے لئے جب ان سے کہا گیا تو انھوںنے بتایا، ”طلباءکو کھلے ذہن اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہے۔ جہاں ان کی دلچسپی ہو وہاں انھیں مستقبل آزمانا چاہے۔ کوئی ویژل ایفکٹس میں کام کرنے چاہتے ہیں انھیں ضروراس میں کوشش کرناچاہے۔ اگرفلموں میں ایفکٹس دیناچاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں، اگر کوئی ویڈیوگیمس بنانا چاہتے ہیں وہاں بھی اسکوپس ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ آگے آئیں اور شروعات کریں“۔
جنید نے کئی گروپس کے ساتھ کام کیا ہے۔ صفر تھیٹر گروپ بھی شامل ہے۔ یہاں انھوں نے کئی پلے بھی کئے۔ تخلیقی ذہن رکھنے والے جنید نے جہاں کئی کہانیاں لکھی ہیں اور انھیں اسٹیج پرپیش کیا ہے وہیں وہ آئندہ ڈائریکشن کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس کئی پراجکٹس ہیں جس پر وہ کام کررہے ہیں۔ اپنی کامیابی کے سفر کو آگے بڑھانے کے لئے پر عزم ہیں۔