گل جعفری کی تلاش میں ناصرا

ساہتیہ اکیڈمی نے ہندوستانی زبانوں کے تخلیق کاروں کوساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ہندی میں اس سال ساہتیہ اکیڈمی کایہ ایوارڈ مشہور مصنفہ ناصرا شرما کو ان کے ناول 'پارِجات' کے لئے دیا جائے گا۔ یہ ایوارڈ ناصرا شرما کو اگلے سال 22 فروری کو دیا جائے گا۔ اس کا اعلان اکیڈمی کے سیکرٹری ڈاکٹر کے سرینواس راؤ نے کیا ہے۔

گل جعفری کی تلاش میں ناصرا

Monday December 26, 2016,

6 min Read

سینئر ادیب ناصرا شرما کو ساہتیہ اکیڈمی اعزاز -2016 کے اعلان سے ادب کے پرستاروں میں خوشی کی لہر تو دوڑی ہے، لیکن اندر ہی اندر کہیں غصہ بھی آتا، کہ ناصرا شرما کو جو اعزاز بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا، وہ اتنی دیر سے کیوں دیا جا رہا ہے۔ ناصرا کو یہ اعزاز ملنے میں کچھ سالوں کی دیر تو ہوئی، لیکن اب جب ملا ہے تو خوشی بھی بے پناہ ہے۔ کچھ لوگوں نے 500 صفحے کے انس ناول پارجات کو ان کےدیگر ناولوں کی صورت میں ایک کمزور شاہکار ضرور مانا تھا اور ان کے دوسرے ناول پر زیادہ نظر تھی، خاص طور پر كوئياجان (سامئک پرکاشن) اور کاغذ کی کشتی (کتاب گھر) موجودہ وقت کے دو سب بڑے بحران کا کی داستان پیش کرتے ہیں۔

ناصرا شرما

ناصرا شرما


ساہتیہ اکیڈمی کے 60 سال کی تاریخ میں ہندی ادب میں ناصرا شرما وہ چوتھی خاتون ہیں جنہیںساہتیہ اکیڈمی 2016ایوارڈ ملا ہے۔ اس کے پہلے کرشنا سوبتی، الکا سراوگی اور مردلا گرگ کو یہ اعزاز مل چکا ہے، ساتھ ساتھ ناصرا شرما پہلی مسلم مصنفہ ہیں جنہیں ہندی کاساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا ہے۔

ناصرا شرما ان تخلیق كارو میں سے ایک ہیں جن کی ہر شاہکار بہت وسیع ہے اور ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ان ناولوں میں گہری تحقیق کی شائبہ ہوتا ہے جو کہانی میں ایک نئے قسم کامیٹاپھر پیش کرتی ہے۔ ناصرا شرما کے ناول پارجات کے بارے میں شاید سب کو پتہ نہ ہو کہ پرجات ایک پھول کا نام ہے، جس کی یادیں آسمان سے جڑتی ہیں اور وہی پارجات اس زمین پر بھی کہیں بچا پڑا ہے۔ اس کا اردو مین گل جعفری کہتے ہیں ۔ پھول کے اسی پودے کی تلاش میں مصنفہ نکل پڑتی ہیں۔ ناصرا کے لئے اپنے ناول کو درمیان میں روک کر پارجات کی کھوج کا سفر شروع ہوتاہے۔ ایسی کوشش ناصرا ہی کر سکتی ہیں، کہ وہ ناول میں پارجات کو میٹاپھر کی طرح استعمال کرنے سے پہلے اس کا دیدارکر پوری تسلی کر لیں۔

image


ناصرا شرما کی کہانیوں میں عورت مرد کے رشتوں کی اہمیت پڑھنے کو ملتی ہے۔ ان کی کہانیاں صرف ایک کہانی محض نہ ہو کر پورا کا پورا زندگی نامہ ہیں، جس کے الفاظ دلائل کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔

ناول لکھتے وقت پارجات پھول ناصرا کے دماغ میں اس قدر بس گیا تھا، کہ اسے دیکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ اسے دیکھنے کے لئے مناسب موسم کا انتظار بہت باہمت مصنف ہی کر سکتے ہیں۔ ناول کو درمیان میں چھوڑ کر وہ نکل پڑی تھیں دنیا کے اکلوتے بچے پارجات درخت کی تلاش میں۔ انہیں وہ درخت ملے بھی، اتر پردیش کی گھاگھرا ندی کے کنارے پر واقع بارہ بنکی ضلع کے بدوسرائی قصبے کے قریب، جہاں ایک شام وہ اس کے پھول کو کھلتے دیکھتی ہیں۔ انہیں چنتی ہیں اور دعا کرتی ہے کہ یہ پھول ان کے دامن میں گر جائیں۔ اب وہ پھول گرے ہیں اکیڈمی کے ایورڈ کے طور پر، پارجات کے نام۔قصہ گوئی کے فن میں مہارت رکھتا ناصرا جی کے اس ناول میں گل جعفری صرف میٹاپھر کی طرح نہیں بلکہ نئے پرانے رشتوں کی داستان ہے۔ دھندلاہٹ حساسیت ہے۔ لکھنؤ اور الہ آباد کی زمین پر بنا گیا پلاٹ ہے جس سے گل جعفریکی خوشبو آتی ہے۔

ناصرا کےناولوں کی بات کریں تو ہر ایک میں ہندوستانی سماج کی فکر نظر آئے گی۔ سات ندیاں ایک سمندر (1984) ایرانی انقلاب پر لکھا دنیا کا پہلا ناول ہے۔ شالملي (1987) آزادی کے بعد وجود میں آئی اس عورت کی کہانی ہے جو نظریاتی طور سے بالغ ہے اور ازدواجی زندگی میں محبت اور برابری پر یقین رکھتی ہے۔ اسی طرح ٹھيكرے کی منگنی (1989) میں آزادی کے بعد کی جدوجہد لڑکی جو اپنی محنت اور قابلیت سے ثابت کرتی ہے کہ پدرانہ نظام میں عورت کی ایک اپنی شناخت بھی ہوتی ہے۔ زندہ محاورے (1992)، اكشيےوٹ (2003)، كونئيا جان، زیرو روڈ، اجنبی ججيرا، کاغذ کی کشتی جیسے ناول قابل ذکر ہیں۔

ناصرا کے اندر ایک صحافی بستا ہے وہ انہیں اونگلی پکڑ کر تحقیق کی راہ پر لے جاتا ہے۔ اگر محبت کی موضوع پر لکھنا ہو تو وہ تاج محل کی سیر کئے بغیر نہیں لكھیں گی۔ ان کا ہر ناول ان کی تلاش کے سفر کی دین ہے۔ ناصرا شرما صحافی بھی رہ چکی ہے۔ انہوں نے عراق، افغانستان، پاکستان اور ہندستان کے کئی سیاستدانوں اور مشہور دانشوروں کا انٹرویو کیا جو بہت مشہور ہوئے۔ ساہتیہ اکیڈمی کا یہ فیصلہ کئی وجوہات سے قابل ذکر ہے۔ اکیڈمی کے ساٹھ سال سے اوپر کی تاریخ میں ہندی میں ناصرا شرما صرف چوتھی خاتون ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا ہے۔ 

image


بلاشبہ ناصرا شرما کو یہ اعزاز ان خاتون یا مسلم ہونے کی وجہ سے نہیں ملا ہے۔ وہ اپنے آپ میں ایک قادر مصنفہ ہیں جنہیں نوازے جانے کے پیچھے وجہ ان کی تحریریں ہیں۔ معاصر ین ہندی ادب اور دانشوروں کی دنیا میں کچھ گنے چنے لوگ ہی ہوں گے جن کے پاس موضوعات کا اتنا بڑا ذخیرہ ہو اور ایک ساتھ اتنی ساری زبانوں کی سمجھ ہو۔ ہندی کے علاوہ انگریزی، اردو، فارسی اور پشتو پر اپنے دسترس رکھنے کے ساتھ انہوں نے جتنا کچھ لکھا ہے، وہ ہندی ادب اور سماج کے لئے قابل قدر ہے۔ وہ ہندوستان کی ہی نہیں، ایشیا کی ثقافتی ورثہ ہے۔ 'سات ندیاں ایک سمندر'، 'شالملي'، 'كونئياجان'، 'اكشيےوٹ'، 'زیرو روڈ' جیسے نصف درجن سے زیادہ ناولوں، 'ابن مریم'، 'شامی کاغذ'، 'پتھر گلی' اور 'خدا کی واپسی' جیسے کئی کہانی مجموعوں، 'افغانستان بذكشي کا میدان'، 'مرجينا کا ملک عراق'، اور 'راشٹراور مسلمان' جیسی ڈھیر ساری تخلیقات کے ذریعے انہوں نے ، ادب کی سرحدیں بھی توڑ ہیں۔

سال 2008 میں اپنے ناول 'كوئياجان' کے لئے برطانیہ کےعزاز سے نوازا گیا۔ اب تک کہانی کے دس مجموعے ، چھ ناول، تین مضامین کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں، ان کی سات کتابوں کا فارسی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

جس ناول 'پارجات' پر انہیں اکیڈمی اعزاز مل رہا ہے، وہ بھی رشتوں نئے فارمولے کو تلاش کرنے کی کوشش کے درمیان بنا گیا ہے۔ روہت اور روحی اور بہت سے دوسرے کرداروں کے درمیان بنی یہ کہانی ناصرا شرما کی جانی پہچانی ثقافتی فکر کا اشارہ دیتی ہے۔ ناصرا شرما کو مل رہا یہ اعزاز صرف یہ بتا رہا ہے کہ ہندی زبان اور ادب کا دائرے میں اب پہلے سے اضافہ ہوا ہے۔ وہاں آہستہ آہستہ ہی سہی، مگر اعلی ذات اور مرد وں کا تسلط ٹوٹ رہا ہے۔ اس کا کچھ واسطہ شاید اس حقیقت سے بھی ہے کہ اعلی ذات متوسط پٹی اپنی روٹی روزگار کے لئے انگریزی سے منسلک ہے اور ہندی اصل میں ان دلتوں-قبائلیوں اور پسماندہ طبقوں کی زبان رہ گئی ہے جن کے ہاتھ میں پہلی بار کاغذ قلم آئے ہیں ۔

ناصرا کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایسا بالکل نہیں لگتا کہ کہانی کسی خاتون نے لکھی ہے، بلکہ ناصرا کہانیوں کے ہر کردار کو اس کردار میں بیٹھ کر لکھتی ہیں۔  ناصرا شرما کی تحریروں میں ان ثقافتی ریشوں کو کہیں زیادہ مستعدی سے پہچانا جا سکتا ہے جو پورے برصغیر ہی نہیں، بلکہ اس کے پار کی مغربی ایشیائی پٹی تک پسرے ہوئے ہیں اور جن کی تمدن کے ٹکراوکے درمیان اس پورے سماج کی تخلیق ہوتی ہے۔

تحریر: گیتا شری

ترجمہ: ایف ایم سلیم