اسمبلی انتخابات کے بعد کیجریوال پر سوال کھڑے کرنے والے سیاسی پنڈتوں کی زبان بند ہوگی : اشوتوش
سابق صحافی اور ایڈیٹر اشوتوش کا تجزیہ
یو ں تواسمبلی کے انتخابات مقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں اور مقامی مسائل ہی سیاسی جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن جب الیکشن اتر پردیش میں لڑا جا رہا ہو جسے بڑے آرام سے 'منی بھارت' قرار دیا جا سکتا ہے تو انتخابات محض مقامی نہیں رہ جاتے ہیں۔ ساتھ میں اگر الیکشن شمالی اور سرحدی پنجاب میں بھی ہو اور مغرب میں چھوٹی سی ریاست گوا میں ہو تو ان انتخابات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان انتخابات کے نتائج کا قومی اثر بھی ہوگا۔ پنجاب میں اکالی بی جے پی کی حکومت ہے اور گوا میں بی جے پی کی۔ حالانکہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے پھر بھی یوپی وہ ریاست ہیں جہاں لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کو 80 میں سے 72 سیٹیں ملی تھی اور ایک نشست بی جے پی کی حمایتی پارٹی کے اکاؤنٹ میں گئی تھی۔ یعنی یوپی نے مودی جی کو وزیر اعظم بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔ ایسے میں ہر آدمی کی نظر اس بات پر ہونی چاہیے کہ کیا 2014 کا جادو اس بار دوہرایا جائےگااور کیا وہاں آسانی سے بی جے پی کی حکومت بن پائے گی !یا پھر یہ انتخابات نوٹ بندي کے فورا بعد ہونے جا رہے ہیں۔ آٹھ نومبر کو مودی جی نے بڑے دھوم دھام کے ساتھ نوٹ بندی کو لاگو کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مودی نے نوٹ بندی کے بہانے ملک میں کالا دھن اور بدعنوانی پر بڑا حملہ بولنے کا دعوی کیا تھا۔ ناقدین ان کی بات سے متفق نہیں ہیں۔نوٹ بندی کو مودی کا اب تک کا سب سے بڑا داؤ مانا جا جا رہا ہے۔ جہاں ایک طبقہ اس کو ایک بڑا تغلقی فرمان کہہ رہا ہے وہیں مودی حامی اسے قوم پرستی کو مضبوط کرنے کی سمت میں ایک بڑا قدم مان رہے ہیں۔ اس مسئلے پر پورے ملک میں گزشتہ دو ماہ سے زبردست 'ویچارمنتھن' چل رہا ہے۔ اپوزیشن میں جم کر بحث چل ر ہی ہے۔ اپوزیشن پہلی بار حکومت پر بری طرح سے حملہ آور ہے۔ اس وجہ سے پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس بھی نہیں چل پایا۔ اس کے ساتھ ہی مودی جی کو وزیر اعظم بنے ڈھائی سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یعنی مودی جی نے لوک سبھا انتخابات کے وقت جو خواب دکھائے تھے ان کو کسوٹی پر کسنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ ان کا ہنیمون پیریڈ ختم ہو گیا ہے۔ عوام کو ان کے اعمال کا جائزہ لینے کا وقت آ گیا ہے۔ کیا واقعی مودی جی عوام کی امیدوں پر کھرے اتر رہے ہیں جو وعدے کئے تھے، کیا اس سمت میں کچھ کام ہوا ہے، کیا عوام ان کے کام کاج سے اتتفاق رکھ رہی ہے؛ یا خواب صرف خواب ہی رہ گئے۔
دہشت گردی سے جوجھتے ملک کو مودی جی نے اعتماد دیا تھا کہ ان کی حکومت دہشت گردوں اور پاکستان کے منصوبوں کو نیست و نابود کر دے گی۔ مودی جی نے کہا تھا کہ منموہن حکومت دہشت گردی پر نرم تھی اور اس کی وجہ سے ملک کو دہشت گردی کی مار جھیلنی پڑ رہی تھی۔ منموہن ایک کمزور وزیر اعظم تھے، جب کہ ملک کو پاکستان کو سبق سکھانے کیلئے مضبوط لیڈرشپ کی ضرورت تھی۔ ستمبر کے مہینے میں مودی حکومت نے دہشت گردی کی کمر توڑنے کے لیے سرجکل سٹرائك کرنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے ملک میں قوم پرستی کی نئی لہر پیدا کرنے کا دعوی بی جے پی اور مودی حامیوں نے کیا۔ سرجکل اسٹرائک کو تین ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اسمبلی انتخابات کے بہانے اب لوگوں کو اس پر بھی اپنا فیصلہ دینے کا وقت آ گیا ہے۔ خاص طور سے سرحدی صوبے پنجاب میں گزشتہ سال دو بڑے دہشت گرد حملہ برداشت کئے جا چکے ہیں ۔
2014 کے انتخابات میں مودی جی نے ملک کے مسائل کیلئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ ایسے میں کیا ملک کو مهنگائی بے روزگاری، صنعتی ترقی اور معاشی ترقی کی راہ میں کچھ ملا یا نہیں، یہ بھی عوام کو بتائے گا۔ اور چونکہ مودی جی کی حکومت میں وہ ہی سربراہ ہیں جیسے اندرا گاندھی تھی، تو حساب بھی عوام ان سے ہی مانگے گی، بی جے پی یا ان کی حکومت سے نہیں۔ یعنی صحیح معنوں میں یہ انتخابات مودی کی مقبولیت اور ان کے کام کاج کے تورطریقوں پر عوام کی مہر ثابت ہوں گے۔
2014 میں عوام نے یہ جتا دیا تھا کہ اسے کانگریس کے اس وقت کے کام کاج اور راہل گاندھی کی قیادت پر یقین نہیں تھا۔ عوام نے انہیں پوری طرح سے رجیکٹ کر دیا تھا۔ راہل گاندھی مودی کے سامنے پپو ثابت ہو گئے تھے۔ ایسے میں گزشتہ سالوں میں کانگریس اور خاص طور پر راہل نے اپنے آپ کو نئے سرے سے ثابت کرنے کے لیے کتنی محنت کی ہے، بدلتے ہوئے معاشرے کے مطابق عوام کی نگاہ میں خود کو کتنا مضبوط بنایا ہے، ایک مضبوط اپوزیشن کے کردار میں مودی کی حکومت پر نکیل کسنے میں وہ کتنے کامیاب رہے ہیں، اس کا بھی امتحان ان انتخابات میں ہوگا۔ خاص طور پر پنجاب اور گوا میں جہاں پارٹی اپوزیشن میں ہے۔ پنجاب میں وہ دس سالوں سے اقتدار سے باہر ہے۔ گوا میں پانچ سال سے۔ دونوں جگہ این ڈی اے کی سرکار ہیں۔ دونوں ہی حکومتیں مقبول نہیں ہیں۔ کانگریس کے لئے ہریانہ، مہاراشٹر، آسام میں حکومت گنوانے کی بھرپائی کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ ساتھ ہی یہ ثابت بھی کرنا ہوگا کہ ملک کی سیاست میں اب بھی اس کو انکار نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن کانگریس اور راہل گاندھی کی راہ میں عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال سب سے بڑا روڑا ہیں۔ دہلی میں کانگریس کو دو بار بری طرح شکست کے بعد آپ کے حوصلے بلند ہیں اور آج کی تاریخ میں آپ کو اس کے قومی وجود کے لئے سب سے بڑا چیلنج بھی ہیں۔ پنجاب میں اگر عام ٰآدمہ پارٹی نہیں ہوتی تو کانگریس کے لیے راہ ہموار تھی۔ اکالی بی جے پی کی حکومت بری طرح سے لوگوں کی نظر سے اتر چکی ہے۔ وہاں آسانی سے اس کی حکومت بن سکتی تھی لیکن آپ نے پہلے لوک سبھا میں چار نشستیں جیت کر اور گزشتہ دو سالوں میں محنت کر کے پنے آپ کو کافی مضبوط پوزیشن میں لا دیا ہے۔ اوپینین پول سے پنجاب میں آپ کی حکومت بننے کا قیاس لگایا جا رہا ہے۔
گوا میں بھی کانگریس کی جڑیں کھودنے کا کام آپ نے کیا ہے۔ پانچ سال تک بی جے پی حکومت کے سامنے کانگریس ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر خود کو پیش نہیں کر پائی۔ اسمبلی کے اندر اور باہر اپوزیشن کا کام یا تو آزاد امیدوار ممبران اسمبلی نے کیا یا گزشتہ ایک سال میں آپ نے بی جے پی کی ناک میں دم کیا۔ لکھنے کے وقت تک آپ 40 میں سے اپنے 36 امیدواروں کا اعلان کر چکی ہے وہیں کانگریس ابھی بھی امیدوار طے کرنے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے دو رکن اسمبلی بی جے پی اور ایک پارٹی جنرل سکریٹری مهاراشٹروادي گوماتك پارٹی سے جا ملے ہیں۔ ادھر یوپی میں بڑی دھوم دھام سے کانگریس نے آغاز کیا، لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ یہاں اسے کوئی سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں اگر آپ کانگریس سے آگے نکلی جس کی امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو پھر ملک میں یہ پیغام جائَگا کہ آپ کانگریس کو رپلس کر رہی ہے۔ جو آپ کو نئی توانائی تو دے گا ہی کانگریس کیلئے مرگان بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ کے لیے دونوں ریاستوں میں اچھی کارکردگی اس کے لئے مستقبل کی قومی سیاست کے لئے امرت کا کام کرے گی۔ دوسری ریاستوں کے ووٹروں کیلئے پیغام بھی ہو گا کہ آپ ایک طویل مدتی سیاست کے لیے بنی ہے اور سهي معنوں میں مودی مخالفت کا محور بن سکتی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی دہلی کی فتح ایک تکا تھی یا پھر پانی کا بلبلا تھا، ان کا بھرم بھی ٹوٹ جائے گا۔ پنجاب اور گوا، آپ کے لیے باقی ہندوستان کا 'گیٹ وے' ثابت ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر 2017 میں ہونے والے گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی کے انتخابات پر کافی اثر پڑے گا۔ جو مودی جی کو بھی تکلیف دے گا اور راہل کو بھی۔ اروند کی قیادت پر سوال اٹھانے والے سیاسی پنڈتوں کی زبان بھی ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گی۔