کشمیر میں روایتوں کو توڑ کر نئے خواب بُنتی کرکٹ کوچ سکینہ اختر
سکینہ جب بچی تھی اور پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی، تب تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اس وقت اس کے کرکٹ کھیلنے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، لیکن جب وہ مڈل اسکول میں گئیں تو ان کا کرکٹ کھیلنا بند ہو گیا۔ کیوں کہ اس وقت ان کا کرکٹ کھیلنا کسی کو بھاتا نہیں تھا۔
کرکٹ سکینہ اختر ایک ایسی لڑکی جو رجاعیت پسند ہے، خواب دیکھتی ہے، خواب ہے ہندوستان کے لئے کرکٹ کھیلنا۔ جب انہوں نے یہ خواب دیکھا تھا تو اپنے گھر میں ہی ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنی پسند کے مطابق آگے بڑھنے سے قاصر تھیں۔ ایک دن فیصلہ لیا کہ انہیں کسی حال آگے بڑھنا ہے۔ کئی سارے مسائل تھے۔ ان سب کا سامنا کرتے ہوئے انہوں نے کشمیر یونیورسٹی تک کی منزل طے کی۔ یہاں گزشتہ 8 برسوں سے وہ کرکیٹ کی ٹرینر ہیں۔ سکینہ نے اپنی محنت اور زمہ داری سے کئی اسٹار کھلاڑیوں کو تیار کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
سرینگر میں منورآباد سے تعالق رکھنے والی سکینہ کے دل میں بس ایک ہی خواب تھا، اسی کا خیال تھا، ہر وقت وہ کرکٹ کے بارے میں ہی سوچتی رہتی۔ اس کے علاوہ ان کے دماغ میں کوئی دوسرا خیال جگہ ہی نہیں پاتا۔ آج وہ کشمیر میں اکیلی خاتون کرکٹ ٹرینر ہیں اور 19 سال سے کم عمر کی ٹیم کو ٹریننگ دیتی ہیں۔
سکینہ بتاتی ہیں، '' جس وقت میں چھوٹی تھی، لڑکوں کے ساتھ ہی کرکٹ کھیلا کرتی تھی۔ ان کے ساتھ ہی میں نے کرکٹ کی بارکیاں سیکھیں۔ ''
سکینہ جب بچی تھی اور پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی، تب تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اس وقت اس کے کرکٹ کھیلنے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، لیکن جب وہ مڈل اسکول میں گئیں تو ان کا کرکٹ کھیلنا بند ہو گیا۔ کیوں کہ اس وقت ان کا کرکٹ کھیلنا کسی کو بھاتا نہیں تھا۔ کچھ دن تو ایسے ہی چلتا رہا، لیکن کہتے ہیں نہ کہ جہاں چاہ ہوتی ہے، وہاں راہ نکل ہی آتی ہے۔ اسکول کی کرکٹ ٹیم میں انہیں جگہ مل ہی گئی۔ 1998 میں انہوں نے ضلع اور پھر اسٹیٹ کرکٹ اسوسیشن میں ان کے کھیل کا ذکر ہونے لگا۔
1998 میں سکینہ کو ایک کھلاڑی کے طور پر اہم کامیابی ملی جب انڈر 19 میں انہیں کھیلنے کا موقع ملا۔ انہیں سب سے بہتر مظاہرے کے لئےایورڈ بھی ملا۔ سرینگر میں جب اومینس کالج میں داخلہ ہوا تو کئی بار کلاس چھوڑکر انہوں ںے کرکٹ کے میدان پر خوب توجہ دی اور اپنے آپ کو کھیل کے لئے تیار کیا۔ وہ بتاتی ہیں، '' اس وقت جب گھر کے لوگوں نے دیکھا کہ میرا شوق کم نہیں ہو رہا ہے تو گھر سے بھی حوصلہ افزائی ہونے لگی۔ لیکن مجھے خود اپنے کھیل پر دھیان دینا ضروری تھا۔ گھر کے لوگوں نے بھی یہی کہا کہ کھِلنا ہے تو کھیل پر زیادہ توجہ دو۔''
کالج سے نکلنے کے بعد جب وہ یونورسٹی میں آئیں تو ان کے سامنے اپنا مقصد تھا۔ کشمیر یونورسٹی میں پہلے سمسٹر کے بعد ہی انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ دہلی کے لئے روانا ہو گئیں۔ یہاں انہوں نے بی سی سی آئی کا 'اے اسٹانڈرڈ کا امتحان کامیاب کیا۔ اس امتحان کے بعد انہیں کشمیر اسپورٹس کونسل میں کام کرنے کا موقع ملا۔ نوجوانوں کے کئی کرکٹ کیمپ منعقد کئے۔ وہ بتاتی ہیں۔
'' میرا پہلا کیمپ پولا میدان پر تھا۔ کشمیر کے مختلف اسکولوں سے 250 طباء و طالبات نے اس کیپمپ میں حصہ لیا تھا۔ ''
اتنا ہی نہیں، جہاں بھی انہیں موقع ملتا کرکٹ سیکھنے سیکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ 2007 میں انہیں کشمیر یونیورسٹی میں کنٹراکٹ سسٹم میں کرکٹ کو کوچ مقرر کیا گیا۔ جہاں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو کرکٹ سکھانے کا موقع انہیں مل رہا ہے۔
سکینہ کے خواب اب بھی ادھورے ہیں وہ چاہتی ہیں کہ کرکٹ کی نیشنل کوچ بنیں۔ اس کے لئے مشتقبل میں وہ آگے کے تینوں اسٹّیانڈرڈ کی ٹرینر ٹریننگ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ تاکہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں کرکٹ کی ٹریننگ دے سکتہ ہیں۔