پی ایم او کو لکھاخط اور سڑک منظور ہو گئی
رام پور بگھیلان کے كرهی كھرد کے نوجوان ڈاکٹر سدھیر شکلا نے عمان میں رہتے ہوئے اپنے گاؤں کے لئے ایک قابل ستائش قدماٹھایا۔ ابان کے گاوں میں سڑکبنے گی اور گاؤں کیتصویربدلے گی۔
ستنا ضلع کی جس خستہ حال سڑک کے لئے گاؤں والے دس سالوں سے جدوجہد کر رہےتھے، وہ سڑک اب ڈاکٹر سدھیر شکلا کی کوششوں سے بننی شروع ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر شکلا عمان سے چھٹیاں منانے تھوڑے دن کے لئے اپنے گاؤں آئے ہوئے تھے، یہاں جب انہوں نے اپنے ضلع کی خستہ حال سڑک کی وجہ سے گاؤں کے باشندوں کو ہونے والی پریشانیوں کو دیکھا تو انہیں انتہائی تکلیف ہوئی۔ انہوں نے پی ایم او کو ایک خط لکھا جس میں گاؤں کے باشندوں کی تکلیفوں سے آگاہ کروایا۔ پی ایم او نے کچھ ہی دنوں میں پکی سڑک کی منظوری دے دی۔ ڈاکٹر شکلا اپنے اس ممکنہ اقدامات کی وجہ سے گاؤں والوں کی نظر میں ہیرو بن گئے ہیں۔
ڈاکٹر سدھیر شکلا كرهی خرد کے رہنے والے ہیں۔ وہ عمان کے كےلوٹلين کالج اف انجینئرنگ میں پروفیسر ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے گاوں میں ہی ہوئی ۔ ڈاکٹر شکلا نے ایم ایس سی ریوا سے کی اس کے بعد بھوپال سے ایم ٹیک کی تعلیم حاصل کی اور مشہور اجينيرك کالج آئی آئی ٹی روڑکی سے پی ایچ ڈی کی حاصل کی۔ حالات کچھ ایسے بنیں کہ انہیں اپنا عزیز ملک چھوڑ کر کوریا جانا پڑا۔ وہاں طویل عرسے تک تعلیم کے میدان میں کام کیا اور ان دنوں عمان میں پروفیسر کے عہدے پر ہیں۔
ڈاکٹر سدھیر شکلا نے يورسٹوری کوبتایا کہ۔ وہ اپنی کوشش کے چلتے گاؤں والوں کی بڑی پریشانی کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کی یہ کامیابی ان کی باتوں میں نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، "ان کے گاؤں کے چاروں طرف تقریبا تمام گاؤں پکی سڑکوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ صرف ان کا ہی گاؤں ایسا تھا جو باراماسی سڑک سے محروم تھا۔ کچی سڑک ہونے کی وجہ سے برسات آتے ہی گاؤں جانے کا پورا رستہ بند ہو جاتا تھا۔ برسات کے دنوں میں اگر کوئی بیمار ہو جائے یا پھر حاملہ خواتین کو خاصا پریشانیوں کا سمانا کرنا پڑ رہا تھا۔ "
دو سال پہلے ڈاکٹر شکلا کی قیادت میں گاؤں والوں نے چندہ اکٹھا کرکے سڑک کی مرمت بھی کروائی تھی، لیکن برسات آتے ہی سڑک ابتر ہو گئی۔ گزشتہ دس سالوں سے کئی بار یہ خبر آئی کہ سڑک منظور ہو گئی ہے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں تھا۔ گاؤں والوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑتی اور وہ پھر سے اداس ہو جاتے۔ پھر ڈاکٹر شکلا اس بار گرمی کی چھٹیوں میں گاؤں گئے اور گاؤں کی حالات دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔ گاؤں والے سرکاری دفتروں اور رہنماؤں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکے تھے۔ اب ان میں سڑک کے پکا ہو جانے کی کوئی امید بھی باقی نہیں رہی تھی۔ دوسرا کوئی متبادل انتظام نہ ہوتے دیکھ ڈاکٹر شکلا نے "مرکزی حکومت کو گاؤں کے مسئلے کا تفصیل سے بیان کرتے ہوئے تین ماہ پہلے سڑک کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک خط لکھا اور کچھ دن پہلے ہی متعلقہ محکمہ سے اطلاع ملی کہ ان کے گاؤں "كرهی خرد سے كرهی کلا تک کی سڑک وزیر اعظم گرام سڑک یوجنا کے تحت منظور ہو گئی ہے۔"
رام پور بگھیلان کے كرهی خرد- كرهی کلاکی سڑک کا ایم پي ارارڈی کی طرف ڈی پی آر بنایا جاتا ہے۔ 76 لاکھ 20 بازار کی لاگت سے ڈھائی کلومیٹر کی سڑک کو پندرہویں مرحلے میں شامل کیا گیا ہے۔ ٹینڈر عمل چل رہی ہے۔
سڑكي کی منظوری کی تحریری خبر ملنے کے بعد ڈاکٹر شکلا کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا اور انہوں نے یہ خبر اپنے گاؤں والوں کو سنائی۔ گاؤں والے سڑک منظور سے خوش تو تھے لیکن وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ سڑک لکھنواہ گاوں تک ہو، بعد میں خط و کتابت سے یہ بھی منظور کرالیا گیا ہے۔ اب یہ سڑتک كرهی خرد سے لكھنواه تک بنے گی۔
ڈاکٹر شکلا نے اس سڑک کو مرکزی حکومت کی طرف سے گاؤں کے لئے نئے سال کا تحفہ قرار دیتے ہوئے گاؤں والوں کو مبارکباد دی اور مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ سرکاری مشینری اور مقامی رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر شکلا کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی حکومت ملک کے باشندوں کے لئے کام کر رہی ہے، اگر ہم تھوڑا سا بیدار ہوں تو حکومت کی اسکیموں کا صحیح طرح سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ملک کو ڈیجیٹائزڈ انڈیا بنانے میں اپنا تعاون دے سکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ملک کا ہر شہری اپنے گاؤں اپنے شہر کے بارے میں اگر اسی طرح سے سوچنا شروع کر دے تو ہم یقینا بلند کریں گے اور ملک کی تصویر بدل پائیں گے۔
گاؤں کی باقی مسائل پر بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر شکلا کہتے ہیں کہ میرے گاؤں میں اب بھی بنیادی سہولیات جیسے بنیادی کلینک، اچھے اسکول کی کمی ہے۔ میری سمجھ میں ملک کے زیادہ تر دیہات کا حال كم بیش یہی ہے۔ بہترین منصوبے تو بنتے ہیں پر ان کا نفاذ صحیح طریقے سے نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ بیدار نہیں ہیں۔ اگر ہمیں سرکاری اسکیموں کی صحیح معلومات ہو اور سوال کرنے کی ہمت۔۔۔ تو ہر گاؤں کی تصویر بدل سکتی ہے۔
ڈاکٹر سدھیر شکلا ان تمام نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہیں، جو بیرون ملک میں رہ رہے ہیں۔ ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے جانے والا نوجوان اگر ڈاکٹر شکلا کی طرح اپنے گاؤں کی مٹی کو نہ بھولے تو سچ مچ ملک کی تصویر کو تبدیل کرنے میں دیر نہ لگے گی۔
رنجنا ترپاٹھی کی تحریر