سلم علاقوں کی تعلیمی غربت کو دور کرنے کے جزبے سے آگے بڑھ رہے ہیں محمد انور
حیدرآباد کے 7 سلم علاقوں میں چلا رہے ہیں اسکول....تعلیم کے حصول کے لئے ایک چھوٹے سے گاؤں سے حیدرآباد آئے تھے محمد انور....آج خود حیدرآباد کے غریب بچوں کی تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں....کئی ڈاکٹر اور انجنئر سلم سے پہنچے ہیں عرب اور امریکہ
وہ پچھلے 29 سال سے ایسے غریب بچّوں کو تعلیم کی دولت سے فیضیاب کر رہے ہیں، جن کے پاس مالی استطاعت نہیں ہے۔ بلکہ یتیم بچوں کی فیس معاف کراور انھیں اسکالر شپ بھی دی جاتی ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں محمد انور کی جن کا مقصد ہرغریب بچّے کو تعلیم دلانا ہے۔ اسی مقصد سے وہ اور ان کا ایم اے آئڈیل ہائی اسکول کا کررہے ہیں۔ ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت سے انہوں نے ٹیٹوریل شروع کیا تھا۔ آن وہ سال اسکول چلا رہے ہیں۔
محمد انورنے خود اپنی تعلیم سرکاری اسکولوں میں حاصل کی۔ انہوں نے ایس ایس سی اور انٹر کی تعیلم گورنمنٹ ہائی اسکول اور کالج،چنچل گوڑا سے پوری کی اس کے بعد بی کام گورنمنٹ سٹی کالج ،حیدرآباد سے کیا۔ ان کے بھائی چاہتے تھے کہ وہ انجنئر بنیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ ان دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں،
'' جب حصول تعلیم کے لئے حیدرآباد آیا تھا توساتویں جماعت میں اچھے نمبر لانے پر محبوب نگر کے سرکاری ادارے سے آی ٹی آئی تک کی تعیلم مفت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سکونت کے لئے سٹے فنڈ دینے کی آفر کی گی تھی۔ لیکن جب یہ بات بڑے بھائی کو معلوم ہوئی تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے صاف منع کردیا کہ آئی ٹی آئی نہیں بلکہ انجینرنگ کرنا ہے۔ لیکن وہ بھی نہیں ہو سکا٫ پرمالی استطاعت نہ ہونے کی وجہہ سے مجھے انجینرنگ کے بجائے بی کام پر ہی مطمئن ہونا پڑا۔ ''
جب محمد انور حیدرآباد کے ایک سلم علاقے کشن باغ میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ یہاں گورنمنٹ اسکول کافی دور ہے اور خانگی اسکول فیس بہت زیادو لیتے ہیں۔ انہوں نے کچھ بچّوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ بعد میں یہی ٹیوٹوریل بن گیا۔ یہ دیکھ کر کچھ بچوں کے والدین کی خواہش پر1997میں پہلا اسکول قایم کیا۔ ماہانہ 10روپئے فیس پر۔ غریبی کچھ ایسی تھی کہ کچھ بچّے اتنی بھی فیس نہیں دے پا تے تھے۔ ان کی 6 مہینوں کی فیس وہ اسکالر شپ کے طور پر معاف کرتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
محمد انور یہیں نہیں رکے۔ ان کا سفر جاری رہا۔ اب وہ مختلف سلم علاقوں میں 7 اسکول قایم کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں۔ '' الحمدلللہ تمام اسکول کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔ لیکن میں سکول کھولنے اور اسکول چلانے سے ذیادہ میری نظر ان بچوں کو بہتر تعلیم دینے پر رہی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی میں اسکول کے بعد رات دیر گئَ تک بچّوں کا پڑھاتا ہوں۔''
حالانکہ اج 7 اسکولوں میں سے تین عمارتیں ان کی ذاتی ہیں اور باقی ٤ کراے کی ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے تمام ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ لیکن پچھلی تین دہائیوں کا یہ سفر ان کے لئے آسان نہیں تھا۔ جس کرائے کی بلڈنگ میں انہوں نے اسکول شروع کیا تھا۔ وہ چھت بارش میں ٹپکتی تو بچّے اسے پکڑ کر کھڑے ہو جاتے اور تعلیم چلتی رہتی۔
محمد انور سی اے بننا چاہتے تھے۔ لیکن بی کام آخری سال میں تھے لیکن سلم علاقوں میں بچوں کی حالت دکھ کر اپنا ارادہ بدل لیا اور بچوں کو ٹیوشن دینے لگے اور یم اے ٹیوٹوریل کے نام سے مشہور ہوا۔اس کے بعد اسکول قیام کرنے کا آغاز ہوا۔اور پھر بعد میں انہوںے نے ٹیچر کی زمہ داری اٹھانے کے لئَ بی۔ ایڈ کی ٹریننگ حاصل کی۔
انور بتاتے ہیں کے میٹنگ میں ٹیچرس بچوں کی فیس بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن وہ حقیقت جانتے ہیں، بتاتے ہیں؛ "جن کے پاس استطاعت ہوگی وہ زیادہ فیس دے سکتے ہیں، پر ان بچوں کا کیا ہوگا جن کی مالی حالت اس کی اجاجت نہیں دیتی ۔ وہ تعلیم سے محروم ہو جائیں گے اور میں ایسا نہیں چاہتے ہیں"
جب انھیں ان بچوں کے مستقبل بارے میں پوچھا گیا جو ان کے اسکول سے فارغ ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں، ''ماشااللہ سے کامیاب زندی گز ا ر رہے ہیں۔ بعض طلبہ تو امیرکہ اور دیگر ممالک میں بس گئے ہیں۔ ڈاکٹر ،انجنیئربن گئے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم پر میں ذیادو زور دیتا ہوں۔ میری کوشش رہتی ہے کہ والدین کومطمین کروں ۔ اس بات پر کے یووہ لڑکیوں کو مزید تعلیم دلائیں اور اس میں کامیابی ملی ہے۔ سال 2015 میں دو طالبہ میڈیکل میں فری سیٹ حاصل کر چکے ہیں۔''
انور کہتے ہیں کے پچھلے دس سالوں میں تعلیم کا معیار کچھ کم ہوا ہے۔ کچھ سال تو صرف رینک کو ترجیح دی جا رہی تھی۔ طلبہ میں اس بات کا شعور نہیں تھا کہ کچھ بننے کے لئے 10ویں کے بعد کونسا کورس منتقب کرنا ہے۔''ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے طلبہ کو اس بات سے آگہی دلا نا شروع کیا کہ کس فیلڈ کے لئے کونسا کورس منتخب کرنا چاہَئے۔''
محمد انور کو 30 سالہ تجربہ ہے۔ وہ چاہتے تو ایک کارپوریٹ اسکول کھال کر خوب پیسہ کما سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا ٹکا سا جواب ہےح،'' کوئی کارپوریٹ یا انٹرنیشنل اسکول کھولنے کی ترغیب دیتا ہے تو میرا سیدھا سا جواب ہوتا ہے کے اور 10 اسکول بھی کھولوں گا، لیکن وہ سلم علاقوں میں ہی۔ یہاں اسکول کھولنے کو ترجیح دینا اسلئے بھی ضروری ہے کہ ایک کارپوریٹ اسکول کے بدلے دو اسکول کھولے جا سکتے ہیں۔''
محمد انورکا اصل مقصد ان بچوں کو تعلیم دینا ہے جن کے پاس استطاعت نہیں ہے اور وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
جد و جہد کے سفر سے کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے
’یور اسٹوری اُردو‘ کے FACEBOOK پیج پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔
یہ دلچسپ کہانیاں بھی آپ کو ضرور پسند آئیں گی۔
نوجوانوں میں تبدیلی کی تحریک ... پرکھرکی کوشش
ایک اسٹیشن ماسٹر ... گاؤں کے بچوں کی تعلیم پر وقف کی تنخواہ اور پینشن