2017 کا خیر مقدم ہو کچھ اس طرح
پرانا جا رہا ہے، تو نیا آ رہا ہے۔ پرانے کے جانے کا دکھ کم اور آنے والے نئے کی خوشی زیادہ ہے۔ لیکن کیا اس بار بھی آپ گزشتہ کی ہی طرح سب کچھ پورے جوش و خروش کے ساتھ شروع کریں گے اور کچھ دن، چند ہفتے، کچھ ماہ بعد ہی پرانے سال جیسے ہو جائیں گے؟ پہلے جیسے نہ ہو جائیں، تو بڑے بڑے دعوے کرنے سے بہتر ہے، کہ سال 2017 کا آغاز ان ضروری باتوں کے ساتھ کیا جائے، جنہیں روزمرہ کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں آپ کافی پیچھے چھوڑ آئے ہیں ۔
تحریر- جے پشپ
ترجمہ- ایف ایم سلیم
سب کچھ مزے سے چل رہا ہوتا ہے کہ اچانک سے نیا سال آ جاتا ہے اور بڑے سے بڑا بے پرواہ انسان بھی گزرے سال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالے بغیر نہیں رہ پاتا۔ اس کے ساتھ ہی' بیتی تاه بسار دے آگے کی یاد لے' کے فلسفیانہ انداز میں نئے سال کے لیے کچھ منصوبے باندھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نئے سال کے منصوبے کو پہلی جنوری سے ہی توڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں، تو اس مضمون کا ارادہ زیادہ حوصلہ شکنی کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی اس کا مقصد آپ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے یا پھر کسی طرح کا کوئی اخلاقی سپورٹ دینا ہے۔ مضمون کا مقصد صرف کچھ عام چیزوں پر ایک مختلف زاویہ سے غور کرنا ہے۔ وہی عام باتیں جو ہمارے اندر چل تو رہی ہیں، لیکن کہیں گم ہو گئی ہیں۔
اس سال اگر گھومنے جائیں تو اپنے لئے جائیں، دوستوں کے لئے نہیں، خاص طور پر فیس بک پر دوست کے لئے تو بالکل نہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں سفر کی۔ گھومنا اکثر لوگوں کے' ٹو -ڈو لسٹ' میں سب سے اوپر کے آئٹمز میں آتا ہے۔گھومنے تو تمام جاتے ہیں، بہت سے لوگ صرف اس لیے گھومنے جاتے ہیں کہ اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر سکیں اور دوستوں کو دکھا سکیں۔ لیکن اس سال اگر آپ گھومنے جائیں تو اپنے لئے جائیں۔ دوستوں کے لئے نہیں، خاص طور پر فیس بک پر دوست کے لئے تو بالکل نہیں۔ گھومنے پھرنے جائیں تو فطرت اور مقامی زندگی کو قریب سے محسوس کریں، اپنے آپ کو تلاش کریں اور اپنے اندر کی چنچلتا اور بچپن کو باہر آنے دیں۔ قدرتی نظاروں کو اپنے دل میں سجوے اسمارٹ فون میں نہیں۔ لوٹ کر کوئی اسٹیٹس کوئی بھی اپ ڈیٹس ن لگائیں، کوئی تصویر اسٹاک نہ کریں۔ کسی ایک سفر پر ایسا کریں اور آپ پائیں گے کہ یہ سفر دیگر دوروں کے مقابلے آپ روحانی طور پر کتنا امیر بنائے گی۔
ہمارے آس پاس تمام ایسے واقعات روز ہوتے رہتے ہیں جنہیں کیمرے میں قید کیا جا سکتا ہے، افسوس کہ ہمارے پاس وہ نظر ہی نہیں ہوتی۔
سیل فون کیمرے نے ہر آدمی کو آرٹسٹ بنا دیا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز ایجاد ہے پر تمام ایجادات کی طرح اس کا سہی استعمال بھی کم ہی ہوپاتا ہے۔ وجہ یہ کہ ہم کسی بہت خوبصورت منظر کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہماری روزمرہ کی زندگی اتنی روکھی ہوتی ہے کہ تصویر لینے کے قابل کوئی موقع ہی نہیں نکلتا۔ واقعی ہمارے آس پاس تمام ایسی چیزیں روز ہی ہوتی رہتی ہیں جنہیں کیمرے میں قید کیا جا سکتا ہے، افسوس کہ ہمارے پاس وہ نظر ہی نہیں ہوتی۔ امیر مینائی نے یوں ہی نہیں کہا ہے، شوق دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر
سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ تو آپ کو جان جاتے ہیں مگر آپ خود کو کتنا جانتے ہیں، یہ جاننا بھی ضروری ہے۔
پہلے اس پر کافی اہمیت دی جاتی تھی لیکن فیس بک، ٹویٹر وغیرہ نے جب سے ہر آدمی کو مصنف بنا دیا ہے، اس کا چلن کم ہو چلا ہے۔ اگر فیس بک، ٹویٹر، وهاٹس ایپ پر آپ خود کو پوری طرح کھول کر رکھ دیتے ہیں، تو بہت ہی اچھی بات ہے، لیکن اگر آپ کا دل دوستوں کی تعريفو، لائكس اور تبصرے سے دل نہیں بھرتا اور لگتا ہے کہ بہت کچھ ان کہا ہی رہ گیا تو ڈائری لکھنے میں ہاتھ آزمائیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ تو آپ کو جان جاتے ہیں مگرآپ خود کو کتنا جانتے ہیں، یہ جاننا بھی ضروری ہے۔
خاندان کے ساتھ وقت بتائیں، کسی سماجی کام میں شرکت کرنا زندگی کو مکمل بناتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ خواب بڑے ہونے چاہئے، پر زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی کئی بار بڑی فائدہ بخش ثابت ہوتی ہیں۔ افراد خاندان کے ساتھ وقت بتانا، کسی سماجی کام میں شرکت کرنا زندگی کو ایک مکمل شکل فراہم کرتا ہیں۔ اگر آپ مرد ہیں اور سالوں سے کچن میں نہیں گھسے ہیں، تو اس سال ایک ڈش بنانا سیکھیں اور اس میں مہارت حاصل کریں۔ خاندان اور دوستوں کو بنا کر کھلائیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ اس کی اہمیت نہ سمجھیں، لیکن آپ صرف ایک ڈش بنانا ہی نہیں سیکھیں گے بلکہ زندگی کے کئی پهلو سے دو چار ہوں گے۔ کھانا صرف پیٹ ہی نہیں بھرتا، یہ ہمارے سماجی کردار کو کئی طرح سے متاثر بھی کرتا ہے۔
اس بات کا یقین مانيے آغاز اگر اس طرح ہواتو یہ سال گزرے سالوں سے تھوڑا سا بہتر بيتےگا۔