خواتین کو ہنرمند بنا کر ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے والی سماجی کارکن خدیجہ سلطانہ
پچھڑی ہوئی خواتین کو زمانے کی رفتار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے اسے اپنے فن کے ساتھ لے کر چل رہی ہیں ہر فن مولا خاتون خدیجہ سلطانہ۔ ان کی کہانی یوراسٹوری کے قارئین کو یقینا متاثر کرے گی۔
خدیجہ سلطانہ کی شادی ایرفورس میں ملازم محمد عبدالحق سے ہوئی تھی۔ ایرفورس کی ملازمت کے دوران وہ ملک کی مختلف ریاستوں میں رہے۔ فوج میں خواتین مختلف ہنر سیکھتی تھیں۔ اس سے ان کا وقت بھی گذرجاتا تھا اور ساتھ میں ہنرمند بھی بن جاتی تھی۔ خدیجہ سلطانہ نے بھی مختلف ہنر یہاں پر سیکھے۔ 1987ءمیں محمدعبدالحق نے ریٹائرمنٹ لے لیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دونوں سماجی خدمت میں لگ گئے۔ خدیجہ سلطانہ اس تعلق سے بتاتی ہیں ”فوج میں سرویس کے دوران ہم آسام، پنجاب ، دہلی ناگپور وغیرہ گئے۔ وہاں پر ہم نے مختلف ہنر سیکھے۔ بعد میں دیگر خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں یہ ہنر مددگار ثابت ہوئے“۔
خدیجہ سلطانہ نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر بے سہارا بچوں کے لیے یتیم خانہ بھی قائم کیاتھا، جہاں پر 80 بچے تھے۔ یہ ایک اچھی شروعات تھی۔ بعد میں ان بچوں کو دوسرے یتیم خانوں میں منتقل کردیا۔
ہنر سیکھنے کے بعد وہ خالی نہیں بیٹھیں بلکہ انھوں نے خواتین میں خودروزگار کے لئے کام کرنے کا ٹھان لیا۔ 1990ءمیں بیگم بشیرالدین بابوخان کرافٹ سنٹر میں 7 سال خدمات انجام دیں۔ انھوں نے بتایا کہ ”1990ءمیں بیگم بشیرالدین بابو خان کرافٹ سنٹر سے جڑنے کے بعد 7 سال تک ہینڈی کرافٹ کا کام تقریباً200 سے زائد خواتین کو سکھایا۔ ان خواتین نے نہ صرف یہ ہنر سیکھا بلکہ اس سے اپنی بے روزگاری کو دور کرتے ہوئے خود روزگار کی جانب آگے بڑھیں۔ “
خدیجہ سلطانہ ہمیشہ سماجی خدمت میں لگی رہتی ہیں۔ انھوں نے ورلڈ بینک کے پراجکٹ میں بھی تعاون کیا، جس کے ذریعہ پرائمری ہیلتھ ، ایجوکیشن، انوارنمنٹ، سیلف ایمپلائمنٹ جیسے مختلف محاذوں پر کام کیا۔ شہر کے مختلف اخبارات کے ذریعہ بھی خودروزگار کی اسکیمیں چلائیں۔
انھوں نے بتایا ”روزنامہ منصف اور سیاست کے ذریعہ سے بھی میں نے خواتین کو روزگارفراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ منصف کی جانب سے کئی ٹیلرنگ سنٹرس کھولے اور جہاں پر خواتین کو ٹیلرنگ سکھائی جاتی۔ سیاست کی جانب سے 2000ءمیں MNDF مائناریٹی ڈیولپمنٹ فورم قائم کیا گیا۔ جس کے ذریعہ خواتین اور تعلیم سے متعلق مختلف شعبوں میں کام کیا گیا“۔
ہنر مندوں کے ہنر کی قدر کرنا اور اس کا معقول معاوضہ انھیں ملنا ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ ہنرمندوں کے تیارکردہ سامان اور ملبوسات کی انھوں نے نمائش بھی لگوائی۔ کرافٹ کی نمائش سے جو آمدنی ہوئی اس سے غریب اور بیوہ خواتین کی مدد بھی کی گئی۔
خدیجہ سلطانہ نے شہروں کے علاوہ مختلف اضلاع میں بھی سمرکیمپ کاانعقاد کیا۔ محبوب نگر، کریم نگر، نظام آباد میں ایک ہفتہ سے ایک مہینہ تک کے کیمپ انھوں نے لگوائے۔ جہاں پر ٹیلرنگ، سافٹ ٹوائے، فلاور میکنگ، مہندی ڈیزائننگ، بیوٹیشن، چوڑی سازی وغیرہ کی تربیت دی۔ ایسی خواتین جن کے گھر میں پریشانی ہیں اور ان کے پاس معاشی تنگی ہے انھیں وہ ان کی دلچسپی کے مطابق سکھاتی ہیں۔ ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے ہوئے کئی خواتین نے نہ صرف خود اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی ہیں بلکہ وہ دوسروں کےلیے روزگار کا ذریعہ بنی ہیں۔
ایک کیمپ کے بارے میں وہ بتاتی ہیں”2003ءمیں ایک ٹریننگ کیمپ اور نمائش کا انعقاد کیاجانے والا تھا۔ اس کیمپ کا انعقاد سیاست کی جانب سے کیاجارہا تھا۔ اس کیمپ میں اندازہ تھا کہ 500 خواتین آئیں گی جنھیں ٹریننگ دی جائے گی اور ان کے کام کی نمائش بھی ہوگی۔ انتظامیہ اس کیمپ کی کامیابی سے حیران رہ گئے کہ 3500 خواتین اس کیمپ میں شریک رہیں اور یہ پروگرام بہت کامیاب رہا۔ “
مختلف اداروں میں کام کرنے کے بعد انھوں نے اپنی ایک تنظیم ”مہیلاسہیوگ سوسائٹی“ 1996ءمیں قائم کی۔ انھوں نے مختلف تنظیموں میں اپنی خدمات انجام دی اس تعلق سے انھوں نے بتایا ”بیگم بشیرالدین بابو خان کرافٹ سینٹر میں مختلف خواتین کو ہنرمند بنانے کی ذمہ داری کے علاوہ COVA تنظیم میں سے بھی وابستہ رہیں۔ کستوربا گاندھی پیس سنٹر، ہینڈی مارٹن انسٹیٹیوٹ، سے وابستہ رہنے کے بعد اب زینا ہوم میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہوں۔“
Zaina Home کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ”زینا ہومس غریب اور بے سہارا بچیوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہاں پر 5 سے 8 سال کی لڑکیاں ہیں۔ فی الحال 40 بچیاں ہیں جن کو ہائر ایجوکیشن تک لے جایا جائے گا۔ یہاں پر مدرسہ اور انگلش میڈیم اسکول بھی چل رہاہے۔ نمازوں کے علاوہ قرآن مجید مع تجویذبھی سکھائی جاتی ہے۔ “
موجودہ مصروفیت کے بارے میں انھوں نے مزید بتایا ”یہاں پر سنگل پرنٹس کے بے سہارا بچوں کو شامل کیاجاتاہے۔ کسی کے شوہر نہیں ہے یا بیوی نہیں ہے ان کے بچے یا ایسے بچے جن کے والدین نہیں ہے انھیں یہاں رکھاجارہاہے۔ اس ادارے کے اخراجات رشید فنکشن ہال، چادرگھاٹ کاانتظامیہ برداشت کرتا ہے۔ “
مشکلات اور پریشانیوں کو راستہ کا کانٹا کبھی نہیں بننی دیتی ہیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ وہ بستر پر رہیں لیکن ان کا دل غریبوں اور بے سہاراﺅں کے لیے بے چین تھا۔ اس بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا، ” شوہرکے انتقال کے بعد مجھ پر فالج کا حملہ ہوا۔ بعد میں زیناہومس کے بچوں کے ساتھ میں وقت گذارنے لگی۔ یہاں کی مصروفیت سے میں ٹھیک ہونے لگی۔ میں ان بچیوں کے ساتھ خودکو بہتر محسوس کرنے لگی۔ آہستہ آہستہ میں مکمل تندرست ہوگئی۔ یہ صرف ان بچیوں کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے“۔
مستقبل میں وہ اسی کام کو آگے لے جانا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ خواتین کو زمانہ کی رفتار کے ساتھ رکھے۔ خواتین کسی سے پیچھے نہ رہے۔یہی مشن ہے جسے وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتی ہیں۔
خدیجہ سلطان کی بے لوث خدمات کے پیش نظر حکومت ہند نے 1998ءمیں انھیں جھانسی کی رانی ایوارڈ سے نوازا، 2006 ءمیں آندھراپردیش کی حکومت نے ”کونٹڈالکشمن بابو جی ایوارڈ“ سے بھی نوازا۔ خدیجہ سلطانہ نے بتایا کہ انھیں ایوارڈس سے زیادہ بے سہرا اور مجبور لوگوں کی مدد کرکے خوشی ہوتی ہے۔