کامیاب دلت کاروباریوں کی فوج بنانے میں مصروف انقلابی شخصیت کا نام ہے ملند كامبلے
ملند كامبلے جدید ہندوستان کے وہ انقلابی لیڈر ہیں جنہوں نے بغیر کسی نعرے بازی کے ایک بڑے انقلاب کی شروعات کی۔ یہ انقلاب کوئی معمولی انقلاب نہیں ہے، یہ ایک ایسی تخلیقی اور مثبت تبدیلی ہے جس سے دلتوں کی سوچ بدلی، ان کے کام کرنے کا انداز بدلا، انہیں کاروبار کی دنیا میں اپنے پاؤں جمانے کا موقع ملا۔ ملند كامبلے نے دلت چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری قائم کر دلت کمیونٹی کے تاجروں اور کاروباریوں کو متحد کیا۔ اسی ادارے کے ذریعہ ملند نے دلت نوجوانوں کو کاروبار کرنے کے حوصلہ افزائی اور حوصلہ افزائی کی، کاروبار کرنے کے طور طریقے دکھائے اور سمجھائے۔ ملند كامبلے کی پہل اور کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں دلت؛ کاروباری بن رہے ہیں اور اپنے گھر خاندان، معاشرے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ اس نئے سماجی انقلاب کا آغاز کرنے سے پہلے ملند كامبلے نے پہلے خود کو کاروبار کی دنیا میں قائم کیا۔ صنعت کی دنیا میں دولت اور شہرت حاصل کر لینے کے بعد ملند نے خود کو دلتوں کے عروج و ترقی سے منسلک کاموں میں وقف کر دیا۔ ایک سادہ دلت خاندان میں پیدا ہوئے ملند نے زیادہ سے زیادہ دلتوں کو کامیاب کاروباری بنانے کی غیر معمولی عوامی تحریک شروع کی۔ اگر ملند چاہتے تو اپنے کاروبار پر مکمل توجہ دیتے ہوئے تیزی سے ترقی کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے دلتوں کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی۔ وہ ان دنوں اگلے دس سالوں میں ملک کو کم سے کم 100 ارب پتی دینے کا خواب لے کر جی رہے ہیں۔ انہیں پورا بھروسہ ہے کہ ان کی کوششیں رنگ لائیگی اور ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ ملند کی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ دلت کاروباریوں کی ایک فوج کھڑی ہوئی ہے اور اس فوج کے جنگجوؤں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ دلت سماج کے لوگ اب صرف جابس کی طرف نہیں دیکھ رہے ہیں وہ کاروبار کی دنیا میں آکر اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔ ایک دلت اسکول ماسٹر کے بیٹے کے کامیاب کاروباری اور پھر کامیاب انقلابی بننے کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ ملند كامبلے کی کہانی متاثر کن ہے۔ اس کہانی میں جدوجہد ہے، زندگی کے مختلف دلچسپ رنگ ہیں، بھاگ دوڑ ہے، اٹھاپٹك ہے، ہار نہ ماننے کا جزبہ ہے، معاشرے کے لئے کچھ بڑا اور اچھا کام کرنے کی خواہش ہے۔ ملند كامبلے کی کامیابی کی کہانی میں ہر انسان کو سیکھنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
ملند كامبلے کی کہانی کا آغاز مہاراشٹر ریاست میں لاتور ضلع کے چوبلی گاؤں سے ہوتا ہے۔ اسی گاؤں میں 17 فروری، 1967 کو ان کا جنم ایک دلت خاندان میں ہوا۔ ان کے والد پرہلاد بھگوان كامبلے ضلع پریشد اسکول میں استاد تھے، جبکہ ماں يشودا گھریلو خاتون اور ناخواندہ تھیں۔ ملند کی پیدائش دلت خاندان میں ہوئی۔ وہ اپنے ماں باپ کی پہلی اولاد ہیں۔ ان کے پیچھے ایک چھوٹا بھائی اور ایک بہن ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کا خاندان ذات پات کے امتیازات اور چھواچھوت کا شکار نہیں رہا۔ جس دور میں ملند كامبلے کی پیدائش ہوئی تھی ان دنوں صرف مہاراشٹر میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے کئی حصوں میں خاص طور پر گاؤں میں دلتوں اور پسماندہ ذات کے لوگوں کے ساتھ ذات کے نام پر امتیازی سلوک، استحصال، تشدد اور چھواچھوت کی واقعات عام بات تھیں۔ ملند کے والد کی پیدائش کے وقت تو حالات اور بھی خراب تھے۔ لیکن، ملند اور ان کے والد کے تجربے دوسرے دلتوں سے بالکل مختلف تھے۔ اس کی ایک خاص اور بڑی وجہ تھی۔
ایک انتہائی خاص بات چیت میں ملند كامبلے نے ہمیں اپنی زندگی کی اہم واقعات بتائے۔ جس گاؤں میں ان کے والد کی پیدائش ہوئی تھی وہ گاؤں دوسرے گاؤں سے بالکل مختلف تھا۔ چوبلی گاؤں میں آریہ سماج کا اثر بہت زیادہ تھا۔ گاؤں میں آریہ سماج کو ماننے والے لوگ بڑی تعداد میں تھے۔ چونکہ آریہ سماج تعلیم، معاشرتی اصلاحات اور قومیت کی تحریک تھا، آریہ سماجی لوگ اونچ نیچ، ذات پات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ لہذا گاؤں میں بھی ایک مختلف ماحول تھا اور ذات پات کا امتیازی سلوک نہ کے برابر تھا۔ ملند کے والد صاحب کو گاؤں کے اعلی ذات لوگوں نے ہی پڑھا لكھاكر بڑا کیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ جب ملند کے والد پرہلاد کی عمر سات سال کی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ گاؤں میں ہی رہنے والے اعلی ذات ذات کے ایک شخص - انا راؤ پاٹل نے پرہلاد کی پرورش کی۔ ان کو اپنے گھر پر ہی رکھا اور انہیں پڑھایا لكھايا۔ جب ملند کے والد کو ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے اپنے گاؤں سے تقریبا تین کلومیٹر دور آباد دوسرے گاؤں کے اسکول میں جا کر پڑھنا پڑھا تب بھی اونچی ذات ذات کے ہی ایک دوسرے شخص - بالا صاحب پاٹل نے ان کی مدد کی۔ ۔ گاؤں کے کئی اعلی ذات کے لوگوں نے ان کی کسی نہ کسی شکل میں مدد کی۔ اعلی ذات کی مدد کی وجہ سے ہی وہ پڑھ لکھ پائے اور آگے چل کر انہیں سرکاری نوکری بھی ملی۔
اعلی ذات سے ملی مدد کی وجہ سے ملند کے والد اورنگ آباد کے ملند کالج سے گریجویشن کی تعلیم بھی حاصل کر پائے۔ اس کالج، وہاں سے ملی تعلیم، وہاں کے ماحول، اساتذہ ہم جماعتوں کا اثران پر کچھ اتنا گہرا تھا کہ انہوں نے اپنی پہلی اولاد کا نام اسی کالج کے نام پر رکھ دیا۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملند کے والد کو سرکاری اسکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ ملند کا کہنا ہے، "آریہ سماج کا اثر نہیں ہوتا تو شاید ہمارا گاؤں بھی دوسرے گاؤں جیسا ہی ہوتا۔ ان دنوں دوسرے گاؤں میں دلتوں کی حالت بہت خراب تھی اور اکثر ہم لوگ دلتوں پر ظلم اور استحصال کے واقعات سنتے رہتے تھے۔ "
آریہ سماج کا مثبت اثر ان کے گاؤں پر کس طرح کا تھا، اسے بتانے کے لئے ملند نے ہمیں سال 1950 کا ایک واقعہ بتایا۔ 1950 میں گاؤں میں پڑے شدید قحط کو یاد کرتے ہوئے ملند نے کہا، "اس وقت پورے گاؤں میں ایک ہی ایسا کنوا بچا تھا جس میں پانی رہ گیا تھا۔ لیکن گاؤں کے تمام لوگوں کو، چاہے وہ اعلی ذات کے ہوں یا پھر دلت، اس کنویں سے پانی بھرنے کی چھوٹ تھی۔ جبکہ دوسرے گاؤں میں سب کے کنویں الگ الگ تھے اور دلت کے ہاتھ کے چھوئے پانی کو پینے اعلی ذات لوگ گناہ سمجھتے تھے۔ دلتوں کو اعلی ذات کے كنووں کے پاس بھی آنے نہیں دیا جاتا تھا۔ لیکن، ہمارے گاؤں میں اس وقت بھی تمام لوگوں نے ایک ہی کنویں کا پانی پیا۔ "
جب ملند کے والد کو سرکاری نوکری مل گئی اور وہ ضلع پریشد اسکول میں ٹیچر بن گئے تب معاشرے میں ان کا احترام اور بھی بڑھ گیا۔ چونکہ وہ پڑھے لکھے تھے، بچوں کو تعلیم دینے میں مہارت حاصل کر چکے تھے، دلت ہونے کے باوجود معاشرے میں ان کا رتبہ کافی بڑا تھا۔
ان کے والد سرکاری اسکول میں ٹیچر تو بن گئے تھے لیکن وہ دلتوں کی بستی میں ہی رہتے تھے۔ ان دنوں مختلف ذات کے لوگوں کی الگ الگ بستیاں ہوا کرتی تھیں۔ ہوتا یوں تھا کہ اعلی ذات کے لوگ دلتوں کی بستی میں جاتے ہی نہیں تھے۔ لیکن، ملند کے گاؤں کی بات کچھ اور تھی۔ چونکہ ملند کے والد استاد تھے اور اسکول سے چھٹی کے بعد گھر پر ٹیوشن لیا کرتے تھے، تمام ذات کے بچے ان کے گھر آیا-جایا کرتے تھے۔ دراصل ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا شاندار تھا کہ وہ طلباء کے درمیان کافی مقبول تھے۔ ملند کا کہنا ہے، "ہمارے گھر میں ہر طرح کے بچے والد صاحب سے ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ میں نے بھی انہی بچوں کے ساتھ پڑھتا لکھتا تھا اور ادا کرتا تھا۔ میں نے کبھی بھی بچپن میں امتیازی سلوک جیسی چیز تجربہ ہی نہیں کی۔ میرے والد بہت اچھے ٹیچر تھے، اور یہ بات میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کیونکہ وہ میرے باپ ہیں، وہ واقعی بہت اچھا پڑھاتے تھے۔ "
ملند اپنے بھائی اور بہن کے ساتھ اسی اسکول میں جاتے تھے جہاں ان کے والد استاد تھے۔ ایک مقبول ٹیچر کا بیٹا ہونے کے ناطے ملند کی اسکول میں خاص پہچان تھی۔ کوئی بھی انہیں ذات پات کی عینک پہن کر نہیں دیکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دلت ہونے کے باوجود ملند کو انفرادی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ باپ کے رتبے کو دیکھ کر ملند کو بچپن میں ہی یقین ہو گیا تھا کہ انسان کے ہنر اور قابلیت میں دم ہو تو ذات پات کے بندھن بھی کم ہو جاتے ہیں۔ گھر میں تعلیمی ماحول تھا۔ ملند خود بھی ایک ذہین طالب علم تھے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران ہی ملند نے طے کر لیا کہ انہیں بڑا ہوکر انجینئر بننا ہے۔ ملند بتاتے ہیں کہ بچپن میں ان کی خواہش میکانیکل انجینئر بننے کی تھی۔ لیکن ایک واقعہ کی وجہ سے انہیں سول انجینئر بننا پڑا۔ دراصل، ملند کے ایک رشتہ دار - ہنومنت واگھمارے نے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی اور جیسے ہی وہ سول انجینئر بنے انہیں سرکاری نوکری مل گئی۔ سرکاری نوکری ملتے ہی ان کی شادی بھی ہو گئی اور گھر بس گیا۔ ایک دن ہنومنت واگھمارےکی رائل اننفيلڈ کی نئی 'بولیٹ' موٹر سائیکل پر سوار ہوکر گاؤں آئے۔ سارا گاؤں اس 'بولیٹ' کی طرف متوجہ ہوا۔ لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہو گئے کہ 'بولیٹ' کس کی ہے۔ ان دنوں 'بولیٹ' معاشرے میں رتبے، حیثیت اور دولت کی علامت ہوا کرتی تھی۔ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ جس کے پاس 'بولیٹ' موٹر سائیکل ہے اس کے پاس سب کچھ ہے۔ گاؤں کے پاٹل بھی 'بولیٹ' کو دیکھنے ملند کے مکان کی چوکھٹ پر پہنچے تھے۔ ہنومنت واگھمارےکی 'بولیٹ' کا اثر ملند کے والد پر بھی پڑا۔ والد نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ملند کو بھی سول انجینئر ہی بنائیں گے۔ ویسے بھی ان دنوں سول انجینئرز کی مانگ بہت زیادہ تھی۔ ملک بھر میں نئی نئی عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جا ری تھا، چھوٹے بڑے پل اور ڈیام بن رہے تھے، نئی سڑکیں بچھائی جا رہی تھیں اور ان سب کی وجہ سے سول انجینئرز کی ڈیمانڈ بہت زیادہ تھی۔ رشتہ دار کی 'بولیٹ' کے اثر میں ملند کے والد نے ٹھان لی تھی کہ وہ بھی اپنے بڑے بیٹے کو سول انجینئر ہی بنائیں گے۔ اس رات ہنومنت واگھمارے ملند کے گھر پر ہی ٹھہرے۔ بات چیت کے دوران ہنومنت واگھمارے نے ملند کے والد کو مشورہ دیا کہ انہیں اپنے بیٹے کو دسویں کے فورا بعد پالٹیکنک کالج میں ڈالنا چاہئے نہ کہ انٹر کالج میں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو انجینئر بننا ہے تو دسویں کے بعد پالٹیکنک کرنے سے وقت اور روپے- دونوں کی بچت ہوتی ہے۔ ان کی دلیل تھی کہ دسویں کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم میں دو سال لگتے ہیں اور پھر بی ٹیک میں چار سال۔ یعنی دسویں کے بعد انٹر کے راستے انجنیئر بننے میں چھ سال لگتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زیادہ تر طالب علم بی ٹیک کا کورس پانچ سال میں مکمل کرتے ہیں، یعنی دسویں کے بعد انٹر کے راستے سے بی ٹیک کرنے میں سات سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ہنومنت واگھمارے کا کہنا تھا کہ دسویں کے بعد پالٹیکنک کورس کے راستے بی ٹیک کرنا فائدہ مند ہے۔ پولی ٹیکنیک ڈپلوما کورس دو سال میں مکمل ہو جاتا ہے اور اس کے بعد بی ٹیک کا کورس صرف تین سال کا رہ جاتا ہے، یعنی دسویں کے بعد پالٹیکنک کے راستے بی ٹیک کی ڈگری صرف پانچ سال میں ہی مل جاتی ہے۔ ہنومنت واگھمارےکی ان باتوں سے متاثرہوکر ملند کے والد نے بھی فیصلہ کر لیا وہ بھی اپنے بڑے بیٹے کا داخلہ پالٹیکنک کالج میں ہی کروائیں گے۔ اور، آگے ہوا بھی ایسے ہی۔ ملند نے 1983 میں جیسے ہی دسویں پاس کی، ان کا داخلہ ناندیڑ کے پالٹیکنک کالج میں کروا دیا گیا۔ ڈپلوما کورس تھا، سول انجینئرنگ کا۔
پولی ٹیکنیک کی تعلیم کے دوران کچھ ایسے واقعات ہوئے جس نے ملند کے دماغ پر گہری چھاپ چھوڑی اور انہوں نے اپنے مستقبل کے منصوبے بنائے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت ہوا جب وہ پالٹیکنک کی تعلیم کے تحت 'پراجیکٹ-ورک' پر تھے۔ 'پراجیکٹ-ورک' کے لئے ملند کو اپنے کچھ ہم جماعتوں کے ساتھ ایک کنسٹرکشن سائٹ پر جانا پڑا۔ جو ٹھیکیدار کنسٹرکشن کروا رہے تھے وہ ناندیڑ پالٹیکنک کالج کے ہی ایک سابق طالب علم تھے اور جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ ان کے کالج کے لڑکے آئے ہیں وہ ان سے ملنے سائیٹ پر آ گئے۔ اس ٹھیکیدار کا نام ولاس بيانی تھا اور ان کے ٹھاٹ باٹ اور انداز سے ملند بہت متاثر ہوئے۔ ولاس نوجوان تھے اور مہندرا کی جیپ پر سوار ہوکر اس سائٹ پر آئے تھے۔ ملند کو پتہ چلا کہ ولاس بيانی گزشتہ پانچ سالوں سے ہی کنسٹرکشن کی دنیا میں ہیں اور انہی پانچ سالوں میں انہوں نے اچھی خاصی دولت کما لی ہے۔ انہون نے مہندرا جیپ خریدی تھی۔ ملند کو یہ بھی احساس ہوا کہ ان کے رشتہ دار ہنومنت واگھمارے قریب چار سال تک سرکاری نوکری کرنے کے بعد موٹر سائیکل خرید پائے تھے جب کہ ایک ہی کام سے ہوئے فائدے میں ولاس بيانی نے جیپ خرید لی تھی۔ ولاس بيانی نے کنسٹرکشن سائٹ پر آئے طلباء کو اپنی کامیابی کے راز بھی بتائے۔ بيانی نے شاگردوں کو بتایا کہ کامیاب ہونے کے لئے عزم ضروری ہے، بغیر محنت کے کامیابی نہیں مل سکتی۔ ولاس بيانی نے یہ بھی بتایا کہ ٹھیکیدار بننے سے پہلے انہوں نے قریب 18 ماہ تک ایک تعمیراتی کمپنی میں بطور سائٹ منیجر کام کیا۔ سائٹ منیجر کام کرتے ہوئے انہوں نے کنسٹرکشن بزنس کی باریکیاں سيكھيں، اور جب تجربہ حاصل کر لیا کاروباری بنے۔ ولاس بيانی کی باتوں سے ملند بہت متاثر ہوئے۔ بيانی کی ایک اور بات تھی جو ملند کے دماغ میں جم گئی۔ بيانی نے اس دن طلباء سے کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں پونے میں کنسٹرکشن کا کام کافی زور پکڑنے گا۔ ممبئی میں کنسٹرکشن کے لئے زمین ختم ہوتی جا رہی ہے اور چونکہ پونے ممبئی سے نزدیک ہے اور وہاں زمین بہت خالی ہے اسی وجہ سے آنے والے دنوں میں بڑی بڑی کمپنیاں اور لوگ پونے کا رخ کریں گے۔ بيانيی کی باتیں سننے کے بعد ملند نے ایک بڑا فیصلہ لیا۔ انہوں نے دل ہی دل ٹھان لیا کہ وہ بھی کاروباری بنیں گے اور سرکاری نوکری نہیں کریں گے۔ بيانی کی باتیں سننے سے پہلے ملند اپنے والد پرہلاد اور رشتہ دار ہنومنت واگھمارےکی طرح سرکاری نوکری کرنے کے خواب بنائی رہے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہنومنت واگھمارےکی طرح ہی پہلے پالٹیکنک کورس مکمل کریں گے اور پھر بی ٹیک کی ڈگری لے کر سرکاری نوکری حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں گے۔ چونکہ دلت تھے انہیں بھروسہ تھا کہ رزرویشن کی بنیاد پر انہیں سرکاری نوکری مل جائے گی۔ لیکن، بيانی کی باتوں نے ملند کے خواب بدل دیے۔ اب ان کے ذہن میں کاروباری بننے کے خواب مضبوط ہونے لگے تھے۔
ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کی خواہش کے بالکل برعکس سرکاری نوکری نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ بھی تھی۔ وہ ناندیڑ میں پولی ٹیکنیک کا کورس کر رہے تھے تب وہ 'دلت پینتھرز' کے رابطے اور اثر میں آئے۔ ان دنوں یہ تحریک مہاراشٹر میں زوروں پر تھا۔ یہ ایک ایسی سماجی اور سیاسی تنظیم تھی جو دلتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے جدوجہد کر رہی تھی۔ دلتوں کو متحد کرنا بھی ان کا ایک بڑا مقصد تھا۔ جہاں کہیں کسی دلت یا پھر دلتوں پر کوئی ظلم یا ناانصافی ہوتی تب 'دلت پینتھرز' کے بینر تلے دلت لوگ منظم ہوتے اور نا انصافی اور ظلم کے خلاف جنگ کرتے۔ طلباء کے درمیان 'دلت پینتھرز' کی مقبولیت عروج پر تھی۔ دلت طالب علم ہونے کے ناطے ملند کا 'دلت پینتھرز' کی توجہ اور محبت قدرتی تھا۔ چھوٹی عمر سے ہی ملند نے 'دلت پینتھرز' کے پروگراموں، نقل و حرکت، مظاہروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ انہی تحریکوں اور دھرنا مظاہروں کے دوران ایک بات ملند کو بہت کھٹکتی تھی۔ ملند نے دیکھا تھا کہ جب کبھی دھرنا مظاہروں کے دوران پولیس 'دلت پینتھرز' کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرنے آتی تھی تب دلت طبقے کے سرکاری ملازمین الگ ہو جاتے تھے اور گرفتاری نہیں دیتے تھے۔ ملند نے اس بات کی وجہ کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔ ملند کو معلوم ہوا کہ تحریک کے دوران گرفتار ہونے پر پولیس تھانے میں نام درج ہو جاتا ہے اور پھر سرکاری ملازم کو سسپینڈ کر دیا جاتا ہے۔ ملازمت سے معطلی کے خوف سے سرکاری ملازم گرفتاری نہیں دیتے اور پولیس کے آتے ہی وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ ملند کو لگا کہ اگر وہ بھی سرکاری ملازم یا افسر بنیں گے تو تحریکوں میں کھل کر حصہ لینے کی ان کی آزادی چلی جائے گی۔ یہ بات بھی اس فیصلے کی ایک بڑی وجہ بنی۔ انہیں لگا کہ کاروبار کیا جائے تو زیادہ پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور انہی روپیوں سے کچھ سماجی کام کئے جا سکتے ہیں اور کسی طرح کی پابندی بھی نہیں ہو گی۔
ملند کہتے ہیں، "سرکاری کام میں درجہ بندی ہے، عیش و آرام نہیں ہے۔ طرح طرح کی پابندیاں ہیں۔ بندشیں ہیں۔ سرکاری افسر بھلے ہی وہ آئی اے ایس ہی کیوں نہ ہو، اپنے نام پر بی ایم ڈبلو یا فراری نہیں لے سکتے ہیں۔ اگر لیں گے تو انفورسمینٹ ڈائرےكٹریٹ جیسیےادارے پیچھے پڑ جائیں گی، مگر بزنسمین پر ایسی کوئی روک نہیں ہے۔ "ایسا بھی نہیں تھا ملند صرف 'دلت پینتھرز' سے ہی متاثر تھے۔ وہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے اثر میں بھی آئے۔ ان دنوں بہت سے کالجوں میں اے بی وی پی کا دبدبہ تھا۔
زندگی میں خوب دولت کما کر، شہرت حاصل کرنے، اور سرکاری کام کاج کے طوق میں جکڑے نہ جاکر مکمل آزادی اور طاقت کے ساتھ دلتوں کی ترقی کے لئے کام کرنے کے مضبوط ارادے کے ساتھ ملند نے کاروبار کا راستہ اختیار کیا۔ انجینئرنگ کالج میں ملند کا داخلہ دلتوں کے لیے مخصوص کوٹے کے تحت ہوا تھا، لیکن اسکالر شپ کا فائدہ انہیں نہیں ملا۔ ملند کا کہنا ہے کہ، "مجھے ریزرویشن کا نصف فائدہ ملا۔ والد کی انکم تھی اسی وجہ سے اسکالرشپ نہیں ملی، لیکن میرا داخلہ ریزرویشن کی بنیاد پر ہی ہوا تھا۔ "
ملند کا بچپن اور طالب علمی کی زندگی اچی گزری۔ انہیں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں رہی۔ چونکہ وہ ایک استاد کے بیٹے تھے اور ان کا اٹھنا-بیٹھنا، کھیل کود، پڑھنا لکھنا دوسرے ٹیچروں کے بچوں کے ساتھ ہوتا تھا، وہ ہمیشہ اچھے ماحول میں رہے۔ پڑھنے لکھنے کے لئے کتابوں کی کوئی کمی نہیں رہی۔ دوسرے بچوں کے ساتھ تبالئہ خیال اور علم سائنس کی باتوں کے تبادلے سے ان میدھا-طاقت مسلسل اضافہ ہوا۔ ملند پڑھائی لکھائی میں تیز تھے، کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں سرکاری نوکری آسانی سے مل سکتی تھی، لیکن اس وقت تک وہ یہ طے کر چکے تھے کہ انہیں نوکری نہیں کرنی ہے بلکہ خود کا کاروبار قائم کرنا ہے۔ انجینئرنگ کی تعلیم کے بعد ریاست کے لوكنرما اور آب پاشی کے محکمہ کی بہتر جابس ملند کا انتظار کر رہی تھیں، پر ملند ان ملازمتوں کو ٹھوکر مار رہے تھے۔ ملند کے اس فیصلے سے ان کے والد بھی ان سے ناراض ہو گئے۔ جس سرکاری نوکری کے لیے عام طور پر نوجوان کافی للايت رہتے ہیں، آخر ان کا بیٹا وہ نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتا ہے؟ یہ سوال ملند کے والد کو بہت پریشان کر رہا تھا۔ سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات آئے دن نکل رہے تھے لیکن بار بار کہنے کے بعد بھی ملند اپنی عرضی نہیں دے رہے تھے۔
ملند نے سال 1987 میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لی تھی، لیکن وہ سرکاری نوکری سے دور بھاگتے رہے اور کاروباری بننے کے راستے تلاش کرتے رہے۔ کاروبار شروع کرنے کے لئے ملند کے پاس خود کی پونجی بھی نہیں تھی اور وہ اپنے والد سے مانگنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ وہ گھر خاندان میں کاروباری بننے کی خواہش بتا چکے تھے، لیکن کوئی بھی ان کی حمایت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن بیٹے کی خواہش-طاقت کا اندازہ لگا کر ماں يشودا نے ملند کو پانچ سو روپے دیے اور اپنے حساب سے کام کرنے کو کہا۔ وہی پانچ سو روپے لے کر ملند پونے کے لئے روانہ ہوئے۔ انہوں نے لاتور سے پونے کے لئے بس پکڑی اور آٹھ گھنٹے کے تھکن بھرے سفر کے بعد پونے پہنچے۔ لاتور سے نکلنے سے پہلے ملند نے 'دلت پینتھرز' اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں اپنے دوستوں سے پونے میں ان کے دوستوں کا پتہ لیا تھا۔ پونے پہنچتے ہی ملند 'دلت پینتھرز' کے کارکن ایس گائكواڈ کے پاس پہنچے، جوکہ وہاں آ ٹوركشا چلا کر اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ گائكواڈ پونے میں ایک کمرے کے مکان میں رہتے تھے اور ملند کو اسی کمرے میں رہنا پڑا۔
پونے کے ابتدائی دن ملند کے لئے کافی تكلیف دہ تھے، لیکن جو بڑے بڑے خواب لے کر وہ پونے آئے تھے انہیں پورا کرنے کی شدید خواہش انہیں ہر تکلیف سہنے کی طاقت دے رہی تھی۔ ملند اگرچہ ہمیشہ کام کے بجائے کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتے رہے ہوں، لیکن وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر تجربہ کے کاروبار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے تجربہ لینے کے مقصد سے انہوں نے پونے میں نوکری کرنے کا من بنایا۔ ویسے بھی پونے جیسے بڑے شہر میں انہیں اپنے پاؤں جمانے کے لیے روپے جمع کرنے کی ضرورت تھی اور وہ چند نوٹوں سے کاروبار شروع نہیں کر سکتے تھے۔ ملند پونے میں جس شخص کے ایک كمرانما مکان میں ٹھہرے تھے وہ ایک اکاؤنٹنٹ کو جانتا تھا جو ایک تعمیراتی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ گايكواڈ نے ملند کا تعارف اپنے اس واقف اکاؤنٹنٹ سے کروا دیا۔ اسی اکاؤنٹنٹ کی مدد سے ملند کو اپنی زندگی کی پہلی نوکری مل گئی۔ ذپ ماهلگھی ایسوسی نام کی اس کمپنی میں ملند کی تنخواہ سات سو روپے مہینہ طے کی گئی تھی۔ چند ماہ اس کمپنی میں کام کرنے کے بعد ملند نے مہرشی كروے نام کی دوسری کنسٹرکشن کمپنی جوائن کر لی، یہاں ان کی تنخواہ 1750 روپے مہینہ طے کی گئی۔ اس کمپنی سے پہلی تنخواہ لیتے ہی ملند نے سب سے پہلے اپنے لئے پونے میں ایک مکان لیا۔ انہوں نے سنگل بیڈروم والا فلیٹ کرائے پر لیا۔ سائٹ پر آنے جانے میں سہولت ہو اس مقصد سے قسطوں پر لونا بھی خریدی۔ لیکن، اس کمپنی میں بھی ملند زیادہ دن تک نہیں ٹک پائے۔ اس کنسٹرکشن کمپنی کے مالک کے کام کاج کا طریقہ ملند کو پسند نہیں آیا۔ اس کمپنی کا مالک پونے شہر کے باہر سے ریت، کنکر اور سیمنٹ کی مكسچر تیار کرواتا تھا اور پھر اسے پونے میں اپنی کنسٹرکشن سائٹوں پر استعمال کرتا تھا۔ روپیوں کی بچت کے مقصد سے مالک مكسچر شہر کے باہر سے مگواتا تھا۔ شہر کے باہر سے مكسچر کو سائٹ تک پہنچنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ جاتا تھا۔ سول انجینرنگ کے قوانین کے مطابق، ریت، کنکر اور سیمنٹ کی مكسچر بنانے کے بعد ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کا استعمال کر لیا جانا چاہئے ورنہ اس سے بننے والی عمارت کمزور ہوتی ہے۔ جیسے ہی ملند کو پتہ چلا کہ ریت، کنکر اور سیمنٹ کی مكسچر شہر کے باہر سے سائٹ پر پہنچنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے تب انہوں نے اس مكسچر کا استعمال کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ملند کو لگا کہ سائٹ انجینئر کے ناطے ان کا یہ فرض تھا ۔ جیسے ہی ملند نے اس مكسچر کا استعمال کرنے سے انکار کر دیا مالک ناراض ہو گیا۔ ملند نے مالک سے صاف کہہ دیا کہ وہ معیار اور قواعد و ضوابط کے معاملے میں کسی طرح کا کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اپنے اسی سخت موقف کی وجہ سے ملند نے وہ نوکری چھوڑ دی۔ اسی کمپنی کے ایک مستری نے انہیں منتری ہاؤسنگ کمپنی کے بارے میں بتایا۔ ملند ملازمت کی عرضی لے کر منتری ہاؤسنگ کمپنی کے دفتر پہنچے۔ جب اس کمپنی کے مالک کو گزشتہ کمپنی میں مكسچر والا واقعہ کا پتہ چلا تو انہوں نے فٹ سے ملند کو یہ کہتے ہوئے نوکری پر رکھ لیا کہ مجھے تمہارے جیسے انجینئرز کی ہی ضرورت ہے۔ پونے میں ملند کی یہ تیسری نوکری تھی اور یہاں ان کی تنخواہ 3750 روپے مہینہ طے کی گئی تھی۔
منتری ہاؤسنگ کمپنی کے لئے کام کرتے ہوئے ہی ملند نے کاروباری بننے کے اپنے خواب کو پوراکرنے کی کوشش بھی تیز کر دی۔ انہوں نے ملند كامبلے سول انجینئرز اینڈ كنٹریكٹرس کے نام سے اپنی کمپنی بنائی اور اس کا رجسٹریشن بھی کروا لیا۔ ملند نے کہا، "کام کرتے کرتے دل اوب گیا تھا۔ میں نے خود سے کہا انف از انف، میں پونے بزنس کرنے آیا تھا اور مجھے بزنس ہی کرنا چاہئے۔ میں نے پھر پرائیویٹ کام کی تلاش شروع کر دی۔ "منتری ہاؤسنگ کمپنی کی ملازمت کے دوران چھٹی والے دن ملند کام کی تلاش میں نکلتے تھے۔ اور اسی تلاش میں ایک دن انہیں کاروباری اور ٹھیکیدار بننے کا موقع مل گیا۔
ملند وہ دن کبھی نہیں بھول سکتے ہیں جب انہیں کسی کام کے لئے سب سے پہلے ٹھیکہ ملا تھا۔ انہیں پونے کے برهن مہاراشٹر کالج آف کامرس کی بین السرحدی وال بنانے کا کام / ٹھیکہ ملا تھا۔ اخبار میں اس کام کے لئے ٹینڈر مدعو کیا گیا تھا۔ اس ٹینڈر کے بارے میں ان کے ایک دوست نے انہیں بتایا تھا۔ چونکہ کام چھوٹا تھا اسی وجہ سے بڑی کمپنیوں نے کام میں دلچسپی نہیں دکھائی، لیکن ملند کو اپنا نیا کام شروع کرنا تھا۔ انہیں اس ٹینڈر میں ایک بہت بڑا موقع نظر آیا اور انہوں نے ٹینڈر بھرا ۔ ملند کو کام مل گیا۔ لیکن، یہ کام پورا کرنے کے لئے ان کے پاس کافی روپے نہیں تھے۔ اس بار بھی اونچی ذات لوگوں نے ہی ملند کی مدد کی۔ ملند نے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے وابستہ اپنے دو دوستوں - جوشی اور پھڈكے سے 5-5 ہزار روپے ادھار لیے اور خود 15 ہزار روپے کی جمع-سرمایہ ملائی اور اس طرح 25000 روپے جماکر اپنا پہلا کام مکمل کیا۔ ملند کے کام سے بی ایم سي سي کے پرنسپل بھی بہت متاثر ہوئے اور آگے چل کر پرنسپل نے انہیں مہرشی كروے مہیلا تعلیمی ادارے کی مرمت کے کام کا ایک ٹھیکہ بھی دلوانے میں مدد کی۔
ملند کو جیسے ہی پہلا ٹھیکہ / کام ملا تھا انہوں نے نوکری چھوڑ دی۔ انہوں نے ٹھیکیدار بننے سے پہلے پونے میں تین الگ الگ کمپنیوں میں ملازمت کی۔ اس دوران ملند نے کنسٹرکشن سے منسلک ہر چیز کو اچھی طرح سے سیکھا اور سمجھا۔ دن بھر چلچلاتی دھوپ میں ویب سائٹ پر کھڑے ہو کر اپنے سامنے کام پورے معیار اور اطمینان کے ساتھ مکمل کروانا ان کی عادت میں شمار ہو گیا۔ نوکری پیشہ زندگی کے دوران ملند نے مزدوروں، مستریوں کے کام کاج کے طریقے، ان کی پریشانیوں، مسائل کو بھی جانا-سمجھا۔ انہوں نے کنسٹرکشن انڈسٹری کی موجودہ حالت کا بھی مطالعہ کیا۔ اپنے آپ کومکمل طور پر تیار کرنے کے بعد ملند نے کاروباری دنیا میں قدم رکھا۔ انہوں نے اپنے کام سے سب کو متاثر کیا۔
ٹھیکیداری کے ابتدائی دنوں میں ملند نے منافع پر زیادہ توجہ نہیں دی، ان کا مقصد اچھے کام کرنا اور ایک عظیم ٹھیکیدار کے طور پر نام کمانا تھا۔ بي ایم سي سي کا ٹھیکہ ملنے کے بعد ملند کو ٹھیکے ملنے لگے اور ان کی کاروباری زندگی چل پڑی۔ ٹھیکیداری زندگی کے پہلے سال میں ملند نے تقریبا ساڑھے چھ لاکھ روپے کا بزنس کیا۔ لیکن، وہ اس کاروبار سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ اور بھی بڑےکام کرنا چاہتے تھے، بہت بڑے کاروباری بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے بڑے منصوبوں اور اپنے لئے بڑے بڑے مواقع کی تلاش شروع کی۔ اسی دوران ان کی ملاقات انل کمار مشرا سے ہوئی۔ مشرا اتر پردیش کے ہردوئی کے رہنے والے تھے اور ریلوے کا کام کیا کرتے تھے۔ ملند کی ملاقات مشرا سے اچانک ہی ہوئی تھی۔ ایک دن ملند کسی کام کے سلسلے میں ایک سیمنٹ کے تاجر کے یہاں گئے ہوئے تھے وہیں ان کی ملاقات پہلی بار مشرا سے ہوئی تھی۔ ملند نے ہی بات چیت کی پہل کی اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے کام کاج کے بارے میں بتایا۔ آگے کی ملاقاتوں میں ملند نے ہی انل كمارا مشرا سے ریلوے کا کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ریلوے کے رجسٹرڈ كنٹریكٹرس میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ملند کے لئے براہ راست ریلوے کے معاہدے لینا ممکن نہیں تھا لیکن انل مشرا نے انہیں اپنے كنٹریكٹس کرنے کی تجویز دی۔ ملند کو یہ تجویز بھا گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ایسے بہت سے کاموں کو انجام دیا۔ انل کمار مشرا کے ساتھ ملند كامبلے کی یہ شراکت کافی طویل چلی۔ بعد میں ملند، انیل مشرا کی ایک کمپنی میں شراکت دار بھی بن گئے۔
ملند اور مشرا کی جوڑی بہت سے طریقوں میں منفرد تھی۔ ملند كامبلے دلت تھے جب کہ انل کمار مشرا برہمن یعنی اونچی ذات کے۔ ملند مہاراشٹر میں مقامی تھے جبکہ مشرا اتر پردیش سے آکر مہاراشٹر میں کاروبار کر رہے تھے۔ ملند کو بڑے منصوبوں اور بڑے بڑے ٹھیکوں کی تلاش تھی جبکہ انیل کمار مشرا مہاراشٹر حکومت کے کام حاصل کرنے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے۔ مشرا کو پونے میں ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو مقامی ہو اور انہیں ان کا کاروبار بڑھانے میں ان کی مدد کر سکے۔ جب ملند اور مشرا ایک دوسرے سے ملے تو دونوں کو لگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔ ملند مشرا کی بہت ساری باتوں سے متاثر تھے۔ ملند کو مشرا کا ساتھ، ان کا بات چیت کرنے کا انداز اچھا لگا۔ ملند ب مشرا کو 'پنڈت جی' کہنے لگے تھے۔ دونوں کی دوستی اور شراکت خوب پھلی-پھولی بھی اور دونوں نے خوب دولت اور شہرت حاصل کی۔
ملند نے کاروبار کی دنیا میں اپنے پاؤں جمع لینے کے بعد شادی کی۔ شادی کے بعد ملند کی ترقی کی رفتار میں اور بھی اضافہ ہوا۔ ملند کو بڑے بڑے پروجیکٹ ملنے لگے۔ کچھ ہی سالوں میں ملند نے اپنے آپ کو پونے میں ایک بڑے کاروباری اور بلڈر کے طور پر قائم کر لیا۔ ان کی کمپنی کا کاروبار اور منافع سال بہ سال بڑھتا گیا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ کاروباری کے طور پر ملند کی راہ آسان تھی اور انہیں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ ملند کے مطابق، مشکلات بہت تھیں۔ وہ کہتے ہیں، "کسی بھی بڑے کام کو پورا کرنے میں رکاوٹوں کا آنا یقینی ہے۔ کوئی بھی انسان تبھی کامیاب ہوتا ہے جب وہ ان رکاوٹوں کو پار لگانا سیکھ لیتا ہے۔ میں نے من لگا کر کام کیا، ہمیشہ ایمانداری سے کام کیا، کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ میں آج جو بھی ہوں اس سے خوش ہوں۔ "بطور بلڈر ملند کے کامیاب اور مقبول ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ انہوں نے اپنے سارے کام وقت پر پورے کئے اور معیار کے لحاظ سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ملند نے کاروبار کیا اور کنسٹرکشن انڈسٹری میں اپنی الگ شناخت بنائی۔
بات چیت کے دوران ملند نے ہمیں اپنے اب تک کے کاروباری زندگی کا سب سے بڑا چیلنج اور مشکلوں بھرے دور کے بارے میں بھی بتایا۔ پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ملند نے بتایا، "ہمیں کرشنا ویلی ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا کام ملا تھا۔ کام کے دوران بہت دقتیں آئیں۔ کچھ افسروں نے بہت پریشان کیا۔ ہم نے اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ میں شکایت کر دی۔ ہماری شکایت پر اینٹی کرپشن محکمہ نے کئی جگہ چھاپے مارے۔ ان کے بعد کی صورت حال اور بھی خراب ہو گئی۔ محکمہ کے تمام افسر ہمارے خلاف ہو گئے۔ دوسرے حکام کو اس بات کا غصہ تھا کہ ہم نے ان کے محکمہ کے حکام کے خلاف شکایت کر چھاپے مرواے ہیں۔ تمام افسر ایک طرف ہو گئے۔ ایسی حالت میں کام پورا کرنا آسان نہیں تھا، لیکن ہم نے پوری ایمانداری سے کام کیا اور کام بہت اچھا کیا۔ "بڑی بات یہ ہے کہ ملند نے کبھی بھی ناانصافی، ظلم، کرپشن کو نہیں سہا۔ ہمیشہ انہوں نے غلط کاموں کے خلاف اپنی آواز اٹھائی۔ ایسا کرنے پر کبھی انہیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، تو کبھی افسران کی خلافت ناراضگی جھیلنی پڑی۔ ملند نے ہمیشہ ہمت، محنت اور ایمانداری کے دم ناانصافی، ظلم، کرپشن کے خلاف جنگ لڑی۔
بطور کاروباری اب تک کی اپنی سب سے بڑی کامیابی کی بابت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ملند نے بارامتی پانی پہنچانے سے منسلک کام کا ذکر کیا۔ ملند نے بتایا کہ سال 2003 میں بارامتی کے لوگوں کو پانی پہنچانے کے لئے پائپ لائن بچھانے کا کام مل گیا۔ ملند کی کمپنی کے یہ کام شاندار طریقے سے مکمل کیا۔ ملند نے کہا، "بارامتی پانی پہنچانے کا کام بڑا کام تھا۔ پانی کو لفٹ کرکے وہاں پہنچانا تھا، ہم نے یہ کام بھی مکمل کیا۔ "واضح رہے کہ بارامتی مہاراشٹر کے قدآور لیڈر، سابق وزیر اعلی اور سابق مرکزی وزیر شرد پوار کا علاقہ ہے۔ اسی وجہ سے ملند بڑے فخر کے ساتھ یہ کہتے ہیں، "بارامتی کے لوگوں کو ہم ہی پانی پلا رہے ہیں۔" اس طرح کی کئی بڑی بڑی اسکیموں اور منصوبوں کو کامیاب بناتے ہوئے ملند نے خوب نام کمایا۔
کاروبار کی دنیا میں خود کو مضبوطی سے قائم کر لینے کے بعد ملند نے ایک انقلابی فیصلہ لیا۔ اس فیصلے نے ملند کی پروفائل کو ایک نیا طول و عرض دیا، ایک نئی اونچائی دی۔ ملند نے فیصلہ کیا کہ وہ دلت طبقے کے لوگوں کو کاروبار کرنے کے لئےحوصلہ افزائی کریں گے اور زیادہ سے زیادہ دلتوں کو کاروبار کی دنیا میں لائیں گے۔ ملند نے بڑے پیمانے پر دلتوں کی مدد کرنے کا عہد کیا۔ یہ قرارداد لینے کے پیچھے بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ ہوا یوں تھا کہ ریلوے کے کام کاج کے تناظر میں ملند اکثر ممبئی پونے کے درمیان سفر کیا کرتے تھے۔ اسی دوران ایک بار انہوں نے ويٹي ریلوے اسٹیشن پر فارچیون میگزین دیکھی اور اسے خرید لیا۔ میگزین کے صفحات پلٹنے کے دوران ان کی نظر ملک کے سب سے امیر لوگوں کی فہرست پر پڑی۔ ملند ڈھونڈنے لگے کہ فہرست میں کتنے نام دلت طبقے سے ہیں۔ لیکن فہرست میں ایک بھی دلت کا نام نہیں تھا۔ ملند نے سوچا کی کیا وجہ ہے کہ امیروں کی فہرست میں دلتوں کا نام نہیں ہے۔ ملک کے سب سے امیر 100 لوگوں کی فہرست میں ایک بھی نام دلت کا نہیں ہے، یہ بات ملند کو بہت كھلنے لگی۔ ان کا دل یہ بات جاننے کے لیے اتاولا ہو گیا کہ آخر کوئی بھی دلت امیروں کی فہرست میں کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش میں ملند کو پتہ چلا کہ دلت کمیونٹی کے بہت ہی کم لوگ کاروبار کی دنیا میں آتے ہیں اور جو آتے بھی ہیں وہ چھوٹے کاروبار ہی کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ آگے چل کر ملند نے اپنی نئی کمپنی کا نام پھارچيون كسٹركشنس رکھا۔
دانشور اور تجربہ کار دوستوں سے بات چیت کے بعد ملند کو اس بات کا بھی احساس ہوا کہ دلتوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع بتانے والے لوگ اور ادارے تو بہت ہیں لیکن دلتوں کو کاروبار کے موقع دکھانے کے اور دلوانے والے لوگ بہت کم ہیں۔ اعتماد سے بھرے ملند نے کافی غور و فکرکے بعد ایک بڑا فیصلہ لیا۔ فیصلہ تھا - ایک ایسی تنظیم بنانے کا جو دلتوں کو کاروبار کی دنیا میں لانے اور انہیں آگے بڑھانے میں مدد کرے۔ ملند کو لگا کہ ملک میں کاروباریوں کی مدد اور رہنمائی کے لئے انڈین کامرس اینڈ انڈسٹری فیڈریشن (فکی) انڈین انڈسٹریز کنفیڈریشن (سی آئی آئی) اور ایسوچیم جیسے تنظیمیں تو ہیں لیکن دلت طبقے کے لوگ ان سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ انہوں نے انہی تنظیموں کی طرز پر دلتوں کے لئے ایک خاص تنظیم / ادارہ بنانے کی سوچی۔ ملند نے دلت مفکر چندربھان کے ساتھ مل کر دلت انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری قائم کی۔ 'ٹرنک' کے نام سے مشہور یہ ادارہ پورے ملک میں دلت طبقے کے نوجوانوں کو کامیاب کاروباری بنانے میں تعاون کر رہا ہے اور اب دلت کاروباریوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔ یہ ادار ہ نہ صرف دلتوں کو کاروباری اور تجارتی بنانے میں مدد کر رہا ہے بلکہ کامرس اور کاروبار کے علاقے میں دلتوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے بھی کام کر رہاہے۔ ملند نے کہا، "میں دلت کاروباریوں کو متحد کرنا چاہتا تھا تاکہ ہمارے معاشرے کے اور لوگ انہیں دیکھیں اور ان سے تحریک حاصل کرے اور کاروبار کی دنیا میں آئیں۔"
ملند دلت کاروباریوں کو دلت انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ٹرنک) سے منسلک کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ٹرنک نے ملک کی کئی ریاستوں میں اپنی شاخیں بھی کھول لی ہیں۔ برطانیہ، یو اے ای، جاپان، جرمنی، ہالینڈ جیسےممالک میں بھی 'ٹرنک' کی شاخیں کھل چکی ہیں۔
ملند کا خیال ہے کہ کاروباری دنیا میں کسی بھی شخص یا ادارے کی اہمیت اس کی ساکھ سب سے اہم ہے۔ وہ یہ بات کہتے ہوئے بہت ہی خوش نظر آتے ہیں کہ ہماری تنظیم کی سب سے بڑی خصوصیت اسکا بھروسہ ہے۔ ہماری تنظیم نے منموہن سنگھ کی حکومت کے ساتھ بھی شاندار طریقے سے کام اور آج نریندر مودی حکومت کے ساتھ بھی اتنی ہی کارکردگی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ملند زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں ہی کسی بھی صنعت یا کاروباری کے کامیاب ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے ملک میں مختلف ریاستی حکومتوں کے وزرائے اعلی، وزراء اور اعلی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کر دلتوں کے لئے اچھی پالیسیاں بنانے پر کافی کام کیا۔ اور تو اور، ملند شروع سے ہی یہ جانتے تھے کہ کسی بھی کاروبار کو شروع کرنے کے لئے 'ابتدائی سرمایہ' ابتدائی اسٹیج فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ م
ملند كامبلے، بابا صاحب امبیڈکر کے خیالات سے بے حد متاثر ہیں۔ بابا صاحب امبیڈکر کے بارے میں انہوں نے کافی مطالعہ کیا ہے۔ ملند کے مطابق، بابا صاحب کی شخصیت اور قابلیت کے ایک طرف ایسا ہے جس کے بارے میں عام طور پر بحث کم ہی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، "ڈاکٹر امبیڈکر بنیادی طور پر معاشیات کے طالب علم تھے۔ وہ ایک عظیم ماہر اقتصادیات تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ دلت لوگ اسی وقت مضبوط ہو سکتے ہیں جب وہ ہر میدان میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوں۔ "ملند نے مزید کہا،" آج بھی صورت حال یہ ہے کہ کے سماجی اور سیاسی میدان میں تو دلت سماج کے لیے بہت لیڈر موجود ہیں، لیکن دلتوں کے کیلئے بزنس لیڈر کی کمی ہے۔ اور ہم ٹرنک کے ذریعہ ملک میں دلت بزنس لیڈر بنانے میں مصروف ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ملند نے کہا، "میرا خواب ہے کہ اگلے 10 سالوں میں بھارت میں کم از کم 100 دلت اربپتی ہوں۔ اور، میں مانتا ہوں کہ ہر حال میں 100 دلت اربپتی ہوں گے۔ یہ باتیں میں ہوا میں نہیں کہتا۔ ٹرنک آج ایک کامیاب ادارہ ہے۔ ہماری ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ ہم نے ملک میں ایک تخلیقی اور مثبت تحریک کی شروعات کی ہے، اس تحریک میں نے نہ کوئی سڑک پر اترا ہے اور نہ ہی کسی نے کوئی نعرے بازی کی ہے۔ ایک خاص حکمت عملی کے تحت کام ہوا ہے۔ دلتوں کا نظریہ بدلا ہے اور وہ کاروبار کی دنیا میں آ رہے ہیں۔ "خاص زور دے کر ملند یہ کہتے ہیں کہ جتنے زیادہ دلت کاروباری بنیں گے، ملک اور معاشرے کو اتنا فائدہ ہو گا۔ دلت سماج کو اقتصادی اور سماجی طور پر مضبوط کئے بغیر ملک کی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ملند کا یہ بھی دعوی ہے کہ دلتوں کے لیے چلائے جا رہے مختلف منصوبوں کی وجہ سے سال 2019 تک ملک میں سوا لاکھ سے زیادہ دلت کاروباری اور صنعتکار ہوں گے۔ ملند کا یہ بھی خواب ہے کہ دلت سماج اس معاشرے کے طور پر نہ جانا جائے جو ہمیشہ کچھ مانگتا رہتا ہے، بلکہ دلت سماج کی شناخت اب اس طور پر ہونی چاہئے جہاں وہ دینے کی پوزیشن میں ہو۔ دلت سماج کے لوگ زیادہ سے زیادہ انکم ٹیکس دینے والے بنیں تاکہ ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا دیں سکیں۔ وہ کہتے ہیں، "جس دن دلت لوگ کام لینے والوں سے کام دینے والے بن جائیں گے تبھی لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ دلت سماج بھی آگے آ گیا اور وہ اب پسماندہ نہیں ہے۔" دلتوں کے تئیں لوگوں کے نظریہ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ملند نے کہا، "حالات پہلے سے کافی بہتر ہیں، لیکن آج بھی بہت سے لوگ دلتوں کو وہ احترام نہیں دیتے جس کے وہ حق دار ہیں۔ دلتوں کے ساتھ آج بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ "یہ پوچھے جانے پر کہ کاروبار کی دنیا میں بھی دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے، اس کامیاب کاروباری نے کہا،" جی ہاں، ہوتا ہے۔ ویسے بھی کاروبار کی دنیا بہت ہی مختلف ہے۔ یہاں پر کوئی بھی آدمی جب کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو لوگ اسے آسانی سے اس کا کام کرنے نہیں دیتے ہیں۔ ہر انسان کو کاروبار کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کے لئے بہت سے ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب وہ شخص دلت ہو تو اس کی دقتیں بڑھ جاتی ہیں۔ "
اپنے تجربے کی بنیاد پر نئےکارباریوں کو مشورہ دیتے ہوئے ملند نے کہا، "اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو دو کام بہت ضروری ہیں۔ پہلا - جو بھی کام کرو پوری وفاداری سے کرو، دوسرا - اگر کام کے تئیں لگاؤ اور محبت نہیں ہے تو اسے مت کرو، ہر کام ڈیزائر اور جذبہ کے ساتھ کرنے پر ہی کامیابی ملتی ہے۔ میں کامیاب اسی وجہ سے ہوا کیونکہ میں نے محنت کی، کبھی کسی کا ایک روپیہ بھی نہیں بنا کام کے نہیں لیا، جذبہ کے ساتھ کام کیا اور ہمیشہ ایسے ہی کروں گا۔ "
ملک اور معاشرے کے لیے کچھ کر گزرنے کے جذبے نے ملند كامبلے کو جدید ہندوستان کے سب سے زیادہ بااثر اور کامیاب سماجی انقلابیوں میں ایک بنایا ہے۔ ملک کو انمول شراکت کے لئے ہندوستان کی حکومت نے انہیں پدم شری 'سے بھی نوازا ہے۔ دلتوں کو بزنس لیڈر بنانے اور دلتوں میں سے ٹاٹا، برلا کی طرح برانڈ کھڑا کروانے کی کوشش میں لگے ملند كامبلے واقعی منفرد لیڈر ہیں۔