والدین کی تربیت نے بچپن ہی میں'كسن' کو بنایا تھاسب کا 'انّا'
انّا ہزارے سادگی کی مورت ہیں۔ ان کا رہن سہن، کھان- پان اور سارے دوسرے کام سادگی بھرے ہیں۔ وہ کھادی کے کپڑے پہننا بھی سادگی کا ظاہر کرتا ہے۔ اکثر سفید دھوتی اور کرتے میں ملبوس ہوتے ہیں۔ سر پر گاندھی ٹوپی ان کی خاص پہچان ہے۔ خالص سبزخور ہیں، کسی طرح کا نشہ کبھی کیا نہیں ہے اور ہمیشہ لوگوں کی مدد کے لئے آگے رہتے ہیں۔
انّا کا کوئی بھی کام کیوں نہ ہو اس پر ان کے والدین کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔ انّا کے مطابق، بچپن سے ہی انہوں نے اپنے ماں باپ سے بہت کچھ سیکھا۔ والدین سے ملے آداب افکار نے ہی انہیں ناانصافی کے خلاف لڑنے کے لئے حوصلہ افزائی کی تھی۔
ماں نےانّا ہزارے کو ماسٹر کی سزا اور اسکول میں بدنامی سے ہی نہیں بچایا تھا، بلکہ وہ سبق دیا تھا جس سے ان کا کردار عظیم اور مثالی بنے۔ اپنا جھوٹ چھپانے کے لئے ماں سے جھوٹ بلوانے کے بعد انّا نے پھر زندگی میں کبھی بھی جھوٹ نہیں کہا۔
انّا نے بتایا کہ ان کی ماں نے چھوٹی عمر سے ہی انہیں اچھے اداب و افکارسے ان کی تربیت دینی شروع کر دی ےتھی۔ انّا کہتے ہیں، "میں جب چھوٹا تھا ماں ہمیشہ سکھاتی تھی - کسی کا برا نہیں کرنا، کسی کی چوری نہیں کرنا، کسی سے جھگڑا نہیں کرنا اور الٹا معاشرے کے لئے اچھا کرنا۔"
ماں لکشمی بائی نے انّا کو بچپن میں ہی یہ کہا تھا - اگر آپ زیادہ بھی نہیں کر پائے، تب بھی جتنا بھی کر سکتے ہو اتنا کرنا اور ہمیشہ دوسروں کا دکھ دور کرنا چاہئے۔ "
ماں کی انہی باتوں کا انّا کےبچپن کے ذہن پر بہت ہی گہرا اثر پڑا۔ انّا کے الفاظ میں - "ماں سے میں نے جو باتیں سيكھيں اس سے میرا مائنڈ سوشل مائنڈ بن گیا۔"
انّا کا خاندان غریب تھا۔ انّا نے بھی غربت کی مار جھیلی تھی۔ گھر خاندان کو چلانے میں اپنے شوہر کی مدد کرنے کے مقصد سے انّا کی ماں دوسروں کے یہاں برتن بھی مانجتی تھیں۔ انّا کہتے ہیں، "میری ماں کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے، وہ امیر بھی نہیں تھی، لیکن اپنے کردار کو بہت مضبوطی سے بنائے رکھتی تھی۔"
انّا پر ان کے والد بابو راؤ کا بھی گہرا اثر ہے۔ انّا بچپن میں دیکھتے تھے کہ ان کے والد کس طرح دن رات محنت کر رہے ہیں۔ انّا نے بہت سے معاملات میں اپنے والد کی مثال کو سامنے رکھا ہے۔
انّا کہتے ہیں، "میرے والد سمپل آدمی تھے۔ سیدھے سادے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی نشہ نہیں کیا۔ کسی سے جھوٹ نہیں بولا۔ کبھی بھی کسی کی ملکیت پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس سب کا بھی مجھ کافی اثر پڑا۔ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ میں انہیں صبح سے شام تک دیکھتا تھا - وہ کیا کھاتے ہیں؟ کیا پیتے ہیں؟ کس طرح رہتے ہیں؟ کس طرح چلتے ہیں؟ کس طرح گھومتے ہیں؟ ان کا مجھ پر کافی اثر پڑا۔ "
انّا اس بات کو لے کر طنز کسنے سے نہیں چوکے کہ آج کل بہت سے والدین اپنے بچوں کو آداب و افکار سکھانے کے لئے 'کلچر سینٹر بھیج رہے ہیں۔ انّا نے کہا، "بہت سے لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ کلچر سینٹر میں بھرتی کرنے سے ان کے بچوں کو اچھے آداب و افکار ملیں گے۔ لیکن یہ غلط ہے۔ صحیح آداب و آخلاق بچوں کو اپنے ماں باپ سے ملتے ہیں۔ "
انّا کا والدین کو پیغام ہے - "ہر خاندان کو آداب اخلاق اور افکار کا مرکز گھر کو ہی بنانا چاہئے۔"