انّا ہزارے نے زندگی میں صرف ایک بار جھوٹ بولا ہے ... کب، کسے، کیوں اور کس طرح جاننے کے لئے پڑھیں یہ مضمون
انّا کو بچپن میں پتنگ اڑانے گولیاں سے کھیلنے کا شوق تھا، کھیلنے۔ کودنے میں اتنے مگن رہتے تھے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ تھک جانے اور بھوک ستانے لگتی تبھی دوستوں کا ساتھ چھوڑ کر گھر لوٹتے تھے۔
انّا ہزارے جدید ہندوستان کے سب سے مقبول اور متاثر کن سماجی کارکن ہیں۔ ملک کی ترقی، عوام کی بھلائی اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے انہوں نے کئی کامیاب تحریکیں چلائی ہیں۔ کرپشن، غربت، پسماندگی، بے روزگاری جیسے مسائل کے خلاف ان کی جنگ اب بھی جاری ہے۔ اپنے آبائی گاؤں رالےگن سدی کو 'مثالی گاؤں' بنا کر انہوں نے ملک کے دیہی- ترقی کی ایک ایسی بہترین کہانی لکھی ہے، جس سے تحریک لے کر کئی گاؤں کےلوگ اپنے گاؤں کو بھی 'مثالی' بنا چکے ہیں۔ انّا ہزارے کے دکھائے راستے پر چلتے ہوئے ملک میں گاؤں کو خوشحال بنانے کا کام بدستور جاری ہے۔ رئٹ ٹو انفرمیشن اور لوک پال بل کے لئے انّا ہزارے کی قیادت میں شروع ہوئی تحریک نے ملک کے عام عوام کو ایک جٹ کر دیا تھا۔ لوگوں کا انّا پر یقین اتنا تھا کہ کیا بچے، کیا نوجوان، اور کیا بزرگ تمام لوگ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں کود پڑے اور کہنے لگے تھے ' میں نے بھی انّا، تو بھی انّا، سارا ملک انّا۔' سماجی برائیوں کے خلاف جنگ میں کروڑوں ہم وطنوں کو ایک جٹ کرنے والی اس عظیم شخصیت، انقلابی اور عظیم قائد کی زندگی کے اہم واقعات کو انہی کی زبانی سننے کے لیے ہم نے ان سے وقت مانگا تھا۔ گزشتہ دنوں یور اسٹّوری سے ایک انتہائی خاص ملاقات میں انّا ہزارے نے 'كسن' کے 'انّا' بننے کی کہانی بھی سنائی۔ انّا نے ہمارے ساتھ اپنے بچپن کے دنوں کی کھٹی میٹھی یادوں کو بھی تازہ کیا۔ ہندوستانی فوج میں کام کرنے کے دوران ملے انتہائی سنسنی خیز اور تاریخی تجربات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے وہ واقعات بھی بتائے جن کے بارے میں لوگ اب تک نہیں جانتے۔ اسی طرح کی کچھ انتہائی بڑے اہم اور تاریخی واقعات کو ہم یہاں پر ایک سلسلہ وار طریقے سے پیش کرنے جا رہے ہیں۔ پیش ہے اسی سلسلہ کی پہلی کڑی۔
انّا ہزارے کی پیدائش مہاراشٹر ریاست کے احمد نگر شہر کے پاس بِھنگار علاقے میں ہوئی۔ یوں تو انّا کا آبائی گاؤں رالےگن سدی ہے، لیکن روزی روٹی کمانے کے لئے انّا کے دادا پورے خاندان کے ساتھ بِھنگار چلے گئے تھے۔ انّا نے بتایا کہ رالےگن سدی میں خاندانی کھیت تھے، لیکن گاؤں میں ہمیشہ قحط جیسی صورتحال ہوتی تھی اور فصل کی پیداوار نہ ہونے کے برابر تھی، اسی وجہ سے ان کے دادا اپنے خاندان کو لے کر بھنگار چلے گئے تھے۔
انّا کے دادا انگریزوں کی فوج میں جمعدار تھے۔ انّا کے والد، چچا، پھوپھی اور باقی سارے قریبی رشتہ دار بھنگار میں ہی رہتے تھے۔ وہ بابو راؤ ہزارے اور لکشمی بائی کی پہلی اولاد تھے۔ ماں باپ مذہبی رجحان کے تھے اور ان کا خدا پر پختہ یقین تھا۔ بابو راؤ اور لکشمی بائی نے اپنی پہلی اولاد کا نام 'كسن' رکھا۔ 'كسن' تمام کے لاڈلے تھے، پیارے اور دلارے تھے۔ تمام انہیں بہت لاڑ- پیار کرتے تھے۔ ہر کوئی ننھے 'كسن' کو گودی میں لے کر کھیلنا چاہتا تھا۔
انّا کو اب بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں، جب ان کے خاندان کے رکن ان کو خوش رکھنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے تھے۔ انّا نے بتایا کہ بہت محبت کرنے کے باوجود خاندان کے لوگ ان کے لئے اتنا سب کچھ نہیں کر پائے جو کہ ہر والدین اپنے بچے کے لئے سوچتے اور کرتے ہیں۔ انّا نے کہا، "لیکن اتنا لاڑ ہوتے ہوئے بھی اقتصادی حالات کی وجہ سے جتنا اور گھروں میں ہوتا ہے، اتنا نہیں کر پائے۔"
انّا نے چوتھی کلاس تک بھنگار کے سرکاری اسکول میں ہی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے ماما انہیں اپنے ساتھ ممبئی لے کر چلے گئے۔ انّا کے ماما کو صرف ایک لڑکی تھی اور انہوں نے انّا کے والدین سے درخواست کی تھی وہ 'كسن' کو ان کے ساتھ ممبئی بھیج دیں۔ ماما نے بھروسہ کیا تھا کہ وہ 'كسن' کو اپنے سگے بیٹے کی طرح پالیں گے۔ ماما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی اکلوتی بیٹی جب بڑی ہو گی اور اس کی شادی کے بعد سسرال چلی جائے گی جب وہ اکیلے ہو جائیں گے۔ چونکہ بابو راؤ اور لکشمی بائی کے اور بھی لڑکے تھے، ماما نے 'كسن' کو ان کے ساتھ ممبئی بھیجنے کی گزارش کی تھی۔ ماما کی دلیلیں اور باتوں کے سامنے سب کو جھکنا پڑا تھا۔ چونکہ خاندان کی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں تھی اور ماما نے 'كسن' کی تعلیم جاری ركھنے کا بھروسہ بھی دیا تھا، بابو راؤ اور لکشمی بائی نے اپنے لاڈلے بیٹے 'كسن' کو ماما کے ساتھ ممبئی بھیج دیا، لیکن جتنے دن انّا بھنگار میں رہے ان کا بچپن کھیلنے- کودنے، پڑھنے لکھنے میں عام بچوں کی طرح ہی گزرا۔
انّا کو بچپن میں کھیل- کود کا بہت شوق تھا۔ جب کبھی موقع ملتا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلے جاتے تھے۔ انّا کو پتنگ اڑانے کا بہت شوق تھا۔ ان کا دل بھی پتنگ کی طرح ہی بلند پرواز کرتا تھا۔ اپنی پتنگ کو آسمان میں اڑتا ہوا دیکھ کر انّا کو بہت خوشی ہوتی تھی۔ جیسے جیسے پتنگ اونچی اڑتی، انّا کی خوشی بڑھتی جاتی تھی۔ انّا کو آسمان میں کبوتر اڑانے کا بھی شوق تھا۔ کبوتروں سے اتنا پیار تھا کہ انّا نے بچپن میں اپنے یہاں کبوتر بھی پال رکھے تھے۔ وہ بڑے پیار سے اپنے ہاتھوں میں کبوتروں کو پکڑتے اور پھر انہیں آسمان میں اڑا دیتے تھے۔ آسمان میں اڑتے کبوتر کو دیکھ کر انّا کا دل خوشی سے بھر جاتا تھا۔ گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ انّا نے كنچے بھی بہت بار کھیلے ہیں۔ مٹی کی گولیوں کا کھیل بھی انّا کو بہت پسند تھا۔ ایک کنچے سے دوسرے کنچے پر صحیح نشانہ لگتے ہی انّا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔
اپنے بچپن کی یادیں ہمارے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے انّا نے کہا، "میں کبوتر آسمان میں چھوڑتا تھا، اور وہ جب پلٹی کھاتے تھے، وہ میں دیکھتا تھا، تو یہ سوچ کر بڑا خوش ہوتا تھا کہ کبوتر کو بھی کتنا علم ہے، کہ کہاں اتنا دور چھوڑ دیتا تھا پھر وہ برابر اپنے گھر آ جاتا تھا۔ کتنا علم ہے ان کو۔ "
انّا یہ کہنے سے بھی نہیں ہچكچائے کہ کھیل- کود میں دلچسپی کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ نہیں دے پائے۔ انّا نے ہم سے کہا، "میں کھیلنے کے شوق میں زیادہ پڑھائی نہیں کر پایا۔ ویسے میرا مائنڈ اچھا تھا۔ گھر میں کوئی مشق نہ کرتے ہوئے بھی اسکول میں پہلے مقام پر میرا نمبر تھا۔ کیونکہ جب ٹیچر پڑھاتے تھے، سن لیا تو بھولتا نہیں تھا۔ وہ میرے دل میں رکھتا تھا۔ "
انّا جیسے ہی اسکول سے آتے اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلے جاتے. کھیلنے میں اتنا مگن رہتے کہ انہیں وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب تھک جاتے اور بھوک ستانے لگتی تب گھر لوٹتے تھے. ہر دن رات سات یا ساڑھے سات بجے تک وہ باہر اپنے دوستوں کے ساتھ ہی کھیلتے رہتے۔
رالےگن سدی میں ہوئی اس انتہائی خاص ملاقات کے دوران انّا نے ہمیں اپنی زندگی کا وہ واقعہ بھی بتایا جب انہوں نے پہلی بار جھوٹ بولا تھا. انّا نے بتایا کہ وہ جھوٹ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری جھوٹ تھا۔ اسکول کے دنوں میں کہے گئے اس جھوٹ کے بعد انہوں نے اپنی زندگی میں پھر کبھی بھی جھوٹ نہیں کہا۔
پہلے اور آخری جھوٹ والا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب انّا اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ اس وقت انّا چوتھی کلاس میں تھے. ہر بار کی طرح ہی ایک دن انّا کو ان کے ماسٹر نے 'ہوم ورک' دیا تھا، یعنی اسکول ختم ہونے کے بعد گھر پر اپنی ہوم ورک لکھ کر لانے کو کہا تھا۔ اسکول سے چھٹی ہونے کے بعد انّا اپنے گھر آ گئے اور اپنی عادت کے مطابق گھر آتے ہی کتابیں ایک جگہ رکھ کر کھیلنے چلے گئے۔ اس دن انّا کافی دیر تک اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتے رہے۔ وہ اتنی دیر تک اور اتنا زیادہ کھیلتے رہے کہ جیسے ہی گھر لوٹے ان کو تھکن کی وجہ سے نیند آ گئی۔ اگلی صبح بغیر ہوم ورک مکمل کئے ہی وہ اسکول چلے گئے۔ اسکول میں جب ماسٹر نے تمام بچوں کی كاپيا جانچنی شروع کی تب انّا گھبرا گئے۔ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ جب ماسٹر نے انّا سے ہوم ورک کی کاپی دکھانے کو کہا تب انّا نے مار سے بچنے کے لئے ماسٹر سے جھوٹ بول دیا۔ انّا نے استاد سے کہہ دیا کہ انہوں نے ہوم ورک مکمل کر لیا تھا، لیکن وہ کاپی گھر پر بھول آئے ہیں. اس بات پر ماسٹر نے انّا سے گھر جا کر وہ کاپی لے کر آنے کو کہا. انا نے گھر جانا ہی بہتر سمجھا۔
انّا اپنی ماں سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ اپنی ماں سے کوئی بات چھپاتے بھی نہیں تھے۔ گھر آتے ہی انّا نے اپنی غلطی ماں کو بتا دی اور ماں کے سامنے ایک ایسی تجویز پیش کی جسے سن کر ماں ناراض ہو گئیں۔ انّا نے ماں سے کہا کہ وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر لیں گے اور پھر اس دن اسکول واپس نہیں جائیں گے، لیکن جب وہ اگلے دن اسکول جائیں گے تب ماں کو بھی ان کے ساتھ اسکول چلنا پڑے گا اور ماسٹر سے یہ کہنا ہوگا کہ ان کا لڑکا کل جب اسکول سے گھر آیا تھا تب، میں نے ہی اسے ایک ضروری کام پر بھیج دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ دوبارہ اسکول نہیں آ سکا اور یہی بات بتانے میں اسکول آئی ہوں۔ انّا کی اس تجویز پر ماں بہت غصہ ہوئیں اور انّا کو ڈانٹا بھی۔ ماں نے انّا سے کہا - 'جھوٹ تو بولتا ہے، اور مجھے بھی جھوٹ بولنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ میں بالکل جھوٹ نہیں بولوںگی۔ 'ماں کے اس سخت موقف سے انّا اور بھی گھبرا گئے۔ انہیں لگا کہ اگر ان کی غلطی پکڑی جاتی ہے تو اسکول میں کافی بدنامی ہوگی۔ ماسٹر کے ہاتھوں مار اور بدنامی کا ڈر انہیں اب اور بھی زیادہ ستانے لگا۔ اپنی آخری کوشش سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنی ماں کو یہ کہتے ہوئے دھمکی دے دی کہ اگر وہ اسکول چل کر جھوٹ نہیں بولیں گی تو وہ اسکول جانا ہی بند کر دیں گے۔ انّا کے الفاظ میں - "اگر تم کل نہیں آتیں اور یہ نہیں بتاتیں ہیں تو میں اسکول چھوڑ دوں گا۔ میں جا نہیں سکتا۔ یہ کالا منہ میں کس طرح بتاؤں گا، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔"
انّا کہتے ہیں کہ ہر ماں کا دل ایک جیسا ہوتا ہے۔ ہر ماں ایک جیسی ہوتی ہے۔ اپنے بچوں سے ہر ماں کی محبت ایک جیسی ہوتا ہے۔ اس دن ان کی ماں کا دل بھی ان کی باتوں سے پگھل گیا۔ وہ اسکول چل کر انّا کی بنائی ہوئی کہانی ماسٹر کو سنانے کو راضی ہو گئیں۔
یہ قصہ سنانے کے دوران انّا نے کرشن اور يشودا کے درمیان ہوئے ماکھن چوری کا واقعہ کو بھی سنایا۔ انّا نے اپنے انوکھے انداز میں سورداس کی تخلیق 'میا موری میں نهیں ماکھن كھايو' کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ کرشن کے منہ پر ماکھن لگا ہوا تھا تب بھی وہ اپنی ماں سے جھوٹ بول رہے تھے کہ انہوں نے ماکھن نہیں کھایا ہے، لیکن جب ماں نے ڈانٹا اور پھٹکار لگائی تب کرشن نے بھی ماں سے خوب شکایتیں کیں، جس سے ماں کا دل پگھل گیا اور يشودا کو کرشن کے لئے کہنا پڑا - تو نہیں ماکھن كھايو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انّا کا بچپن کا نام كسن ہے۔ تمام لوگ پیار سے انہیں كسن کہہ کر ہی بلاتے تھے، لیکن جب سے انہوں نے ناانصافی، ظلم اور تشدد کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی وہ تمام لوگوں کے لئے 'انّا' یعنی بڑے بھائی بن گئے۔ اپنے بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے، اس وجہ سے بھی وہ بچپن سے ہی 'انّا' تھے، لیکن غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہوئے وہ سب کے 'انّا' بن گئے۔
اسکول میں استاد سے جھوٹ بولنے والا واقعہ سنانے کے بعد انّا نے کہا، "وہ سبق میں نے جو سیکھا، آج جو میری عمر ہو گئی ۔۔ 79 ایئر ۔۔ اس کے بعد سے آج تک جھوٹ نہیں بولا اور وہ جو جھوٹ بولا وہ میں زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ "
انّا کی زندگی پر ان کی ماں لکشمی بائی اور باپ بابو راؤ کا کافی گہرا اثر ہے۔ حقیقت میں انّا اگر آج اتنے مضبوط ہیں تو وہ ان کے والدین سے ملی تربیت کی وجہ سے ہی ہیں۔
اگلی کڑی میں ہم..... انّا پر ان کے والدین کا اثر کس طرح پڑا ہے اور انّا آج انہیں کس وجہ سے اور کس طرح یاد کرتے ہیں یہ بتائیں گے۔