موت کے منہ سے نکل کر چیلو چندرن نے بدل دی تقدیر
یہ کہاوت عام ہے کہ جہاں ''جاگے وہیں ہے سویرا''- نئے سرے سے شروع ہونے والا وقت متعین نہیں ہے ۔ ڈباکس کی بانی کا زندگی کے بارے میں یہ فلسفہ ہے کہ اگر آپ میں اپنے حالات کا مقابلہ کرنے کی خواہش اور ہمت ہے' اگر آپ خود کو قبول کرتے ہیں' تو زندگی کی کسی بھی آزمائش میں آپ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔
چیلو چندرن اپنی پر آشوب زندگی پر یوں روشنی ڈالتی ہیں:''میں نے کبھی بھی اچھی طرح آئینہ نہیں دیکھا ۔ میں اپنے آپ سے نفرت کرتی تھی اور سوچتی تھی کہ میں اس سرزمین پر بوجھ ہوں ' کیونکہ میں بالکل ناکارہ اور کوئی اچھا کام کر سکنے کے قابل نہیں ہوں ۔ میرے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعہ کے لئے خود کو ہی میں قصوروار سمجھتی تھی اور سوچتی تھی کہ میں اسی کی مستحق ہوں ۔ کوفت اوراپنے آپ پر ملامت کرنا میری عادت بن چکی تھی ۔ زندگی میں جو اچھی چیزیں ہوتی تھیں' ان کے لئے میں یا تو کسی دوسرے کو کریڈٹ دیتی تھی یا پھر محض قسمت کا فیصلہ تصور کرتی''- چلو کی زندگی کی داستاں دنیا کی زیادہ سے زیادہ خواتین کو بتانے کی ضرورت ہے ' انہیں محسوس ہوگا کہ یہ تو ان کی اپنی زندگی کی کہانی ہے ۔
چیلو نے ہر اسٹوری سے بات چیت کی اور یہاں ان کی خود اعتمادی اورخودی کی دریافت کے سفرکے کچھ اقتباسات پیں ہیں ۔ وہ کہتی ہیں
"جس دن میری پیدائش ہوئی اسی دن میرے والد مدرائی کے ''میناکشی مندر میں ایک بیٹی کے لئے سچے دل سے دعا کر رہے تھے ''-
ان کی پیدائش دسمبر 1963 میں ایک متوسط لیکن غیر معمولی تمل برہمن خاندان میں ہوی تھی اور ان کی پیدائش کے وقت لڑکی کے پیدا ہونے کی ہی خواہش کی گئی تھی ۔ کیونکہ ان کے مکان میں پہلے ہی سے ایک لڑکا تھا جو ساڑھے تین سال کا تھا ۔
ان کے والدین روایتی لیکن اپنے وقت سے آگے دیکھنے والے لوگ تھے ۔ ان کی ماں ایک گھریلو خاتون تھیں جو بعد میں متبادل علاج کے میدان میں معروف ہو گئی تھیں ۔ ان کے والد ملازم پیشہ تھے جن کا اکثر دوسرے شہروں میں تبادلہ ہوا کرتا تھا ۔ اس لئے ان کی تعلیم و تربیت بنگلور اور چنئی میں ہوئی ۔ بعد میں1985 میں وہ لوگ ممبئی منتقل ہوئے ۔ چیلو کہتی ہیں:''میری پہلی شادی بڑی اذیت ناک ثابت ہوئی ۔ جبکہ دوسری شادی جذباتی اور ذہنی اعتبار سے اتنی کربناک تھی کہ میں ایک زندہ نعش بن کے رہ گئی ۔
جسمانی تشدد جسم پر عارضی یا مستقل نشانات چھوڑتا ہے ۔ لیکن جذباتی اور نفسیاتی تشدد تو آپ کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے ۔ چالاکی سے کئے گئے ذہنی تشدد کو پہچان لینا بڑا دشوار ہوتا ہے ۔ اس تشدد کو پہچان لینے میں مجھے برسوں لگ گئے ۔ مجھے بہت سخت محاسبہ کرنا پڑا ۔ کوفت کرنا اور خود ہی کو مورود الزام ٹہرانا چونکہ میری عادت تھی' اس لئے آج تک بھی یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ قصور وار کون ہے؟
چیلو بالکل منفرد کیریئر اختیار کرنے کی خواہش مند تھی ۔ لیکن گریجویشن کے بعد شادی کر نے والدین کی خواہش کے آگے انہیں جھکنا پڑا ۔ ان کا شوہراس قدر ظالم نکلا کہ شادی کے چار سال تک انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا رہا ' بلکہ اس نے ملازمت کی جگہ پر بھی ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ۔
اسی حالت میں انہوں نے ایک بیٹی کو جنم دیا جو 72 گھنٹے کے بعد چل بسی ۔ جب دوسری بار وہ حاملہ ہوئیں تو شوہر نے اسقاط حمل نہ کرنے پر انہیں قتل کر دینے کی دھمکی دی ۔ چیلو اپنی حالت زار کسی کو بتانے سے ڈرتی تھیں ۔ زندگی اسی طرح چلتی رہی ۔ حالات اس قدر بد سے بدتر ہوتے چلے گئے کہ اچانک ایک رات وہ گھر چھوڑ کر نکل پڑیں ۔ آخر میں انہوں نے طلاق لے لی ۔ راحت و سکون کی سانس لیتے ہوئے وہ کہتی ہیں:'' اب میں بالکل آزاد تھی لیکن اندرسے میرا وجود ہل گیا تھا''۔
طلاق کے ایک سال بعد ایک دوست کے ذریعہ ان کی ملاقات ایک دوسرے شخص سے ہوئی جس میں انہیں وہ سب کچھ نظر آیا جو پہلے شوہر میں نہیں تھا ۔ وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوئیں ۔ انجام کارانہوں نے شادی کر لی ۔ "میں اس بار شادی کے لئے بیقرار تھی کیونکہ میں اپنی کامیابی اور قابلیت کے احساس کو شوہر کے بغیرنامکمل تصور کرتی ۔ چونکہ مجھ پر طلاق کا داغ لگ چکا تھا ' اکثر یہ خیال ستاتا کہ میرے بارے میں دنیا کیا سوچتی ہوگی''؟
دوسرا شوہران کی زندگی کو مکمل کنٹرول کئے ہوئے تھا ۔ کیا پہننا ہے 'کس کے ساتھ بات کرنی ہے کس سے نہیں ' اور کس طرح رہنا ہے ۔ وہ چاہتا تھا کہ سلیقے کے کپڑے بھی نہ پہنوں ' تاکہ کوئی مرد ان کی طرف متوجہ نہ ہو ۔
چیلو نے اس کے ساتھ خوف ودہشت بھری زندگی کے دس سال گزار دئے ۔ پہلے ایک طلاق ہو چکی تھی ۔ لہذا وہ اس ظلم کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتی تھیں ۔ وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے اور شادی شدہ رہنے کے لئے اپنے آپ کوپابند محسوس کرتی تھیں ۔
امید کی کرن ان کے دو بچے تھے ۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے بچوں کے لئے سرچشمہ ء طاقت بن جائیں ۔ اسی ذہنی کشمکش کے عالم میں ہمت جٹاتے ہوئے انہوں نے ایک دن بچوں کو اپنے ساتھ لیا اورگھر چھوڑ دیا ۔ وہ کہتی ہیں : "میں اپنی زندگی کی مثال پیش کرتے ہوئے اپنے بچوں کویہ سبق سکھانا چاہتی تھی کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کے سہارے اپنے دم پر کھڑا ہونا چاہئے اور خود پراعتماد کرنا چاہئے ۔ ساتھ ہی' وہ ایسی ماں نہیں بننا چاہتی تھی جو اپنا سب کچھ قربان کر دے اور مستقبل میں دوسروں پر منحصر رہے ۔
چیلوایک منفردنام ہے جس کی اہمیت کو حال ہی میں انہوں نے نہ صرف سمجھا بلکہ بڑے فخر کے ساتھ اسے سیلیبریٹ بھی کیا ۔
چیلو نام بچپن سے ہی کانٹے کی طرح چبھتا تھا ۔ اس کا ہمیشہ مذاق اڑایا جاتا تھا ۔ "ایک مرتبہ میرے ایک استاد نے پوری کلاس کے سامنے میرے نام اور نام دینے والے والدین کی ذہنیت کا مذا ق اڑایا' تب ہر کوئی ہنس رہا تھا'' ۔
پہلی شادی کے بعد ان کے سسرال والے چیلو نام کو ہضم نہیں کر پا رہے تھے تو ان لوگوں نے ان کا نام بدل کر را ج لکشمی رکھ دیا جو مختصر ہو کر لکشمی بن گیا ۔ دوسری شادی کے بعد بھی ان کے نام پر اعتراضات ہوئے ۔ آخر کار شمالی ہند کی ازدواجی روایت کے مطابق ان کا نام بدل کر شالنی رکھ دیا گیا ۔ وہ کہتی ہیں: "یہ بیکار کی کوشش تھی کیونکہ ہر کوئی مجھے چیلو ہی کے نام سے بلایا کرتا ۔ میں نے اپنے نام کو بالکل حال میں قبول کیا اور اس کی انفرادیت پراب بڑافخر ہوتاہے ۔
دوسری شادی کے بعد پھراذیت ناک دور کا آغاز ہوا ۔
"میرے پیٹ کا بچہ مر سکتا تھا- میں اپنے بیٹے کے لئے سونا جاگنا چاہتی تھی جو اس وقت دو سال سے کچھ زیادہ عمر کا تھا."
جب ان کا تیسرا بچہ یعنی دوسری بیٹی پیٹ میں تھی' ان کی ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے کی ایک ہڈی کھسک گئی اور ان کی کمر کے نیچے کا حصہ مفلوج ہو گیا واحد راستہ سرجری کا تھا جس سے ان کے پوری طرح ٹھیک ہونے کا امکان صرف 50 فی صد تھا لیکن جنین کو خطرہ لاحق تھا ۔ چیلو نے خطرہ مول لیا ۔ خوش قسمتی سے سرجری کامیاب رہی اور بچہ بھی بچ گیا ۔
چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے لئے انہیں مکمل ڈیڑھ سال تک کوشش کرنی پڑی ۔ اس کے بعد ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے چہرے اور گردن کو فالج کا اثر ہوا اور وہ کئی ہفتوں تک بستر پرپڑی رہیں ۔
صحت یاب ہونے میں طویل وقت درکار تھا ۔ چیلو جسمانی طور پر فعال تھیں لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی اب بھی کمزور تھی ۔ انہیں بستر پر پڑے رہنا ہرگز منظورنہ تھا ۔ آہستہ آہستہ انہوں نے ورزش شروع کی ۔ کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے کئی قسم کے رقص سیکھے اور ایک شو میں انہوں نے آٹھ اقسام کے رقص پیش کئے ۔
وہ دوڑ لگانے والے ایک گروپ میں شامل ہو گئیں اور انہوں نے پہلے ممبئی ہاف میراتھن میں حصہ لیا ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھاکہ اچانک2013 میں ان کے جسم کے دائیں حصے کو فالج ہوگیا ۔ چیلو اپنی درد ناک زندگی پرروشنی ڈالتے ہوئے کہتی ہیں:"اب تک میں نے جن مصیبتوں کا مقابلہ کیا تھا' ان میں یہ سب سے زیادہ بھیانک تھی ۔ میرا دماغ بھی اس سے متاثر ہوا تھا ۔ میرے دائیں ہاتھ کی حرکت بند ہو گئی اور دائیں آنکھ کی بنائی بھی چلی گئی ۔ میرا چلنا گھسٹنے میں بدل گیا اور میری آواز بند ہو گئی ۔ مجھے کسی بچے کی طرح زندگی کی پھر سے شروعات کرنی پڑی ''۔ محنت اور کثرت کے ذریعہ آج چیلو کے جسم کے اکثر حصے حرکت کرنے لگے ہیں ۔
چیلو ہمت اور حوصلہ کی منفرد مثال پیش کرنے والی خاتو ن ہیں ۔ وہ کہتی ہیں:'' آپ کو ایک ہی شخص تبدیل کر سکتا ہے اور اس کو تبدیل کرنا بھی چاہیے ' وہ خود آپ ہیں ۔ آپ کو صرف ایک شخص کو بدلنا ہے اور وہ آپ خود ہیں کیونکہ جب آپ خودکو بدلتے ہیں تو آپ کے اطراف واکناف کی بھی ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے''۔
چیلو نے جب دوسرے شوہر کا گھر چھوڑ دیا' تو ان کے پاس نہ پیسہ تھا نہ مناسب کام اور نہ ہی ان کے خاندان کی حمایت حاصل تھی ۔ انہیں تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اگلے و قت کے کھانے کا کیا ہوگا ۔ انہوں نے مجبوری کے عالم میں بے سہارا لوگوں کو دئے جانے والے الاؤنس پرگزارہ کرلیا ۔ ان کے پاس مقدمہ لڑنے کی طا قت نہیں تھیں ۔ وہ گہرے ڈپریشن میں چلی گئیں' سگریٹ اور شراب کی بری لت میں پڑ گئیں اور خود کشی کی نفسیات میں مبتلا ہو گئیں ۔ انہوں نے بچوں کو بورڈنگ سکول میں بھیج دیا تاکہ وہ خود کی تلاش کر سکیں ۔
ایک دن وہ خود کشی کی نیت سے ایک عمارت کی19 ویں منزل پر چڑھ گئیں ۔ "میں گہرے صدمہ کا شکار تھی ۔ جیسے ہی میں چھلانگ لگانے چھت کے کنارے پہنچی کہ اچانک کسی نے مجھے پکڑ لیا۔ میں ہوش میں آ گئی - مجھے محسوس ہوا کہ اتنی مضبوط اور باہمت ہو نے کے باوجود میں ایسی بزدلانہ حرکت کیوں کر رہی ہوں؟اچھا ہو یا برا' ناکامی ہویا کامیابی انجام جو بھی ہولیکن میں نے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے اور اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا ۔
اسی وقت سے چیلو کے حالات تبدیل ہونے شروع ہوئے ۔ وہ کتابیں پڑھنے اور تحقیق کرنے لگیں' روحانی مصروفیات میں شامل ہونے لگیں اور علاج کے سیشن میں حصہ لینے لگیں ۔ انہوں نے اپنے درد کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ انہوں نے خود کو خط لکھنا شروع کر دیا ۔
آہستہ آہستہ چیلو اپنی زندگی کی اہمیت' اس کی قدر و قیمت کو محسوس کرنے لگیں ۔ حالات کو اپنے موافق تبدیل کرنے کا انہوں نے عزم مصمم کر لیا ۔
جن مفروضات سے ہم محبت کرتے ہیں ان پر نظرثانی کرنے سے مجھے ڈپریشن سے باہر آنے میں مدد ملی ۔ میں نے محسوس کیا کہ میں بری نہیں ہوں اور زندگی میں اچھی چیزیں حاصل کرنا میرے لئے لازمی ہے ۔ میں نے خود کو مکمل طور ناکارہ سمجھنا بند کر دیا ۔ اپنے بچوں کی بے لوث محبت اور ان کے پختہ یقین کے سبب مجھے اپنی حیثیت کا احساس ہونے لگا ۔
ایسے بھی دن آئے کہ دل دماغ پر مایوسی کی گھنگھور گھٹا چھا گئی ۔ ایک دن انہوں نے اپنے رنج و غم کا علاج شراب کے ذریعہ کرنا چاہا 'خودکشی کا خیال بھی ذہن پر طاری رہا' لیکن وہ چلاّ اٹھی اور خودپرہنستی رہی ۔ خود ہی سے باتیں کرتے ہوئے سو گئیں ۔ دوسری صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں محسوس ہوا کہ جن سوالوں کے جواب پانے کے لئے وہ بیقرار تھیں' وہ تو ان کے اندر ہی موجود ہیں ۔ "اس احساس نے مجھے اپنے اندر سے طاقت 'حوصلہ اور ولولہ حاصل کرنے میں مدد کی -
'' ہم لوگوں کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ہمیشہ بے شمار موا قع اور متبادلات ہوتے ہیں اور اس اصول کا کوئی استثنا نہیں ہے ''-."
بیماری کی وجہ سے چیلو کی یادداشت بہت کمزور ہو گئی تھی اور اس کے آس پاس کی ہر چیز انہیں عجیب اور نئی لگتی تھی ۔ " اپنے جذباتی ہیجان کے لمحات میں میں یہ سوال کرتی تھی کہ ان حالات کا میرے لئے کیا پیغام ہے؟ اور پہلی بات جو ذہن میں آئی وہ ایک کتاب کے طور پر آئی جسے میں نے لکھا ہے۔ کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی ہے''۔
ان کے دماغ میں دوسرا خیال یہ آیا کہ ایک ایسا وینچر شروع کیا جائے جو لوگوں کو ان کی سوچ کی حدود سے آگے جاکر سوچنے اور کچھ کرنے میں ان کی مدد کرے ۔ محبت کے بجائے خوف ' وسوسے اور خود ساختہ اندیشوں میں جینے کی عادت سے لوگوں کا نجات دلانا بھی مقصود تھا ۔ وہ کہتی ہیں: '' ہمیں چاہئے کہ ہم خود ساختہ سانچے کے اندر ہی سوچتے اور زندگی جیتے نہ رہیں بلکہ اس سانچے کو توڑ ڈالیں ۔ اسی وجہ سے اسے ڈباکس کا نام دیا گیا '' ۔ ڈباکس کا آغاز دنیا میں مایوس لوگوں کی زندگی میں خوشیاں بھر دینے کی غرض سے کیا گیا تھا ۔ اس کا کریڈٹ وہ اپنے ایک دوست کو دیتی ہیں جن کے دماغ میں لنچ سیشن کے دوران بات چیت کے وقت یہ نام آیا تھا ۔
ڈباکس کا نصب العین یہ ہے کہ ذاتی پریشانیوں اور سنگین مصائب میں مبتلا لوگوں کو صحت مند بات چیت' تبادلہ خیال کے مواقع اوربہترین کھانے دستیاب کراتے ہوئے ان کی زندگی آسان بنائی جائے ۔ ورکشاپ اور سمینارکے ذریعہ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جاتا ہے کہ خود سے محبت اور خود بینی غیرہ اچھی خصوصیات کیوں ہیں ؟ ان موضوعات پر بحث کی جاتی ہے ۔
"ڈباکس میں کسی کی کہانی بیان کرتے ہوئے بھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے ۔ چھوٹے گروپوں میں ذاتی کہانیوں کے بارے میں باتیں کرنا اور جذبات کے اظہار سے بڑی تبدیلیاں واقع ہو جاتی ہیں ۔ چلو کہتی ہیں کہ ان کے اس ادارہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی ہمہ اقسام کے کھانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے جو صحت کے لئے مفید ہیں - چنانچہ چلو نے کئی قسم کے میوے اور سیڈ بٹر اور آرگیانک موسلی تیار کئے ہیں -
" '' یہ تو محض آغاز ہے ''- چیلو کہتی ہیں: "یہ ایسا وقت ہے کہ ہم بیماری کے بجائے صحت پر' اداسی کے بجائے خوشیوں پر اور خوف کی بجائے محبت پر توجہ مرکوز کریں جو ہم دیتے ہیں ' وہی ہمیں واپس مل جاتاہے' جو ہم سوچتے ہیں ' وہی ہماری حقیقت بن جائے گی - ہم اپنی زندگی تبدیل کر سکتے ہیں - اطمینان بخش زندگی گزار سکتے ہیں اور دوسروں کے لئے مثال بن سکتے ہیں - ہمیں صرف خود پر یقین کرنا ہے اور اپنے اندر تبدیلی لانے کی خواہش پیدا کرنی ہے - بس نامساعدحالات پر قابو پانے اور اذیت ناک مصائب سے نجات حاصل کرنے کا یہی ایک سنہرا اصول ہے -